Al-Qurtubi - Al-Maaida : 79
كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ : ایک دوسرے کو نہ روکتے تھے عَنْ : سے مُّنْكَرٍ : برے کام فَعَلُوْهُ : وہ کرتے تھے لَبِئْسَ : البتہ برا ہے مَا كَانُوْا : جو وہ تھے يَفْعَلُوْنَ : کرتے
(اور) برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے۔ بلا شبہہ وہ برا کرتے تھے۔
آیت نمبر : 79 اس میں دو مسئلے ہیں ؛ مسئلہ نمبر 1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : کانوا لا یتناھون یعنی ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ آیت : لبئس ما کونوا یفعلوان منع کونے کو ترک کرنے کی وجہ سے ان کی مذمت کی گئی ہے، اسی طرح اس کی بھی مذمت ہے جس نے ان جیسا فعل کیا۔ ابو داود نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” سب سے پہلے بنی اسرائیل کی بےدینی کا آغاز اس طرح ہوا کہ ایک شخص پہلی مرتبہ کسی بدکار سے ملتا تو اسے کہتا : اے فلاں ! اللہ سے ڈر اور جو تو کر رہا ہے اسے چھوڑ، کیونکہ یہ تیرے لیے حلالل نہیں، پھر دوسرے دن اسے ملتا تو اسے اس سے منع نہ کرتا وہ اس کے ساتھ کھانے پینے اور بیٹھنے والا ہوتا جب انہوں نے ایسا کیسا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل آپس میں ٹکرا دیئے، پھر یہ آیت پڑھی آیت : لعن الذین کفروا الایہ، پھر فرمایا : ” اللہ کی قسم ! تم نیکی کا حکم دو گے، برائی سے منع کرو گے، ظالم کا ہاتھ پکڑ لو گے اور اسے حق کی طرف لوٹاؤگے اور اسے حق کا جبرا پابند کرو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو آپس میں ٹکرا دے گا اور پھر تم پر بھی ایسی پھٹکار ہوگی جو پہلے لوگوں پر ڈالی گئی تھی “ (1۔ تفسیر بغوی، جلد 2، صفحہ 65 ) ۔ اس حدیث کو ترمذی نے بھی روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ ابن عطیہ نے کہا (2۔ المحرر الوجیز): اس پر اجماع ہے کہ برائی سے منع کرنا اس کے لیے فرض ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہو اور اسے اپنے اوپر اور مسلمانوں پر ضرر کا خوف نہ ہو اگر اسے خوف ہو تو وہ اسے دل سے برا جانے اور اس برائی کرنے والے سے میل جول ترک کر دے۔ ماہرین علم نے کہا : برائی سے منع کرنے والے کے لیے خود معصیت سے سلامت ہونا شرط نہیں بلکہ نافرمان ایک دوسرے کو منع کریں۔ بعض علماء اصول نے کہا : جو شراب پیتے ہیں وہ ایک دوسرے کو منع کریں۔ انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے انہوں نے کہا : کیونکہ آیت : کانوا لا یتناھون عن منکرفعلوہ کا قول فعل میں ان کے اشراک کا تقاجا کرتا ہے اور انہیں منع نہ کرنے کے ترک پر ان کی مذمت کی آیت میں دلیل ہے کہ مجرموں کے ساتھ بیٹھنا منع ہے اور ان کو چھوڑنے کا حکم ہے اور یہود پر انکار میں اس قول سے تاکید پیدا کی گئی ہے۔ آیت : تری کثیرا منھم یتولون الذین کفروا۔ ما کانوا میں ما محل نصب میں ہے اور اس کا مابعد اس کی صفت ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے لبئس ما کانوا یفعلون یا یہ محل رفع میں ہے یہ بمعنی الذی ہے۔ آیت : 80 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : تری کثیرا منھم یعنی یہود میں سے بعض علماء نے فرمایا : کعب بن اشرف اور ان کے ساتھی۔ یہ مجاہد نے کہا : یعنی منافقین۔ آیت : یتولون الذین کفروا یعنی مشرکین سے دوستی رکھتے ہیں، حالانکہ وہ ان کے دین پر نہیں ہیں۔ آیت : لبسء ماقدمت لھم انفسھم یعنی ان کے نفسوں نے ان کے لیے ان کاموں کو مزین کیا۔ بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے برا ہے وہ جو انہوں نے اپنے نفسوں اور آخرت کے لیے آگے بھیجا۔ آیت : ان سخط اللہ علیہم مبتدا کے اضمار کی بنا پر ان محل رفع میں ہے جیسے تیرا قول ہے : بئس رجلا زید بعض نے فرمایا : ما سے بدل ہے جو بئس کے بعد ہے۔ اس بنا پر ما نکرہ ہوگا اور مرفوع ہوگا۔ یہ بھی جائز ہے کہ ان محل نصب میں ہو اس معنی کی وجہ سے لان سخط اللہ علیہم۔ وفی العذاب ھم خلدون یہ مبتدا خبر ہیں۔
Top