Al-Qurtubi - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
مومنو ! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لئے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
آیت نمبر : 87 اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ طبری نے حضرت ابن عباس تک سند ذکر فرمائی ہے کہ آیت ایک شخص کے سبب نازل ہوئی جو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا : یا رسول اللہ ! جب میں گوشت کھاتا ہوں تو میرے شہوت ابھرتی ہے، پس میں نے گوشت اپنے اوپر حرام کردیا ہے (1۔ جامع ترمذی، جلد 2، صفحہ 130۔ ایضا، حدیث نمبر 2980، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جن میں حضرت ابو بکر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت ابو ذر غفاری، حضرت سالم مولی ابی حذیفہ، حضرت مقداد بن الاسود، حضرت سلمان فارسی اور حضرت معقل بن مقرن ؓ تھے۔ یہ تمام حضرات حضرت عثمان بن مظعون کے گھر جمع ہوئے اور اس پر اتفاق کیا کہ وہ دن کو روزہ رکھیں گے، رات کو قیام کریں گے اور بسترون پر نہیں سوئیں گے اور گوشت اور گھی نہیں کھائیں گے اور عورتوں اور خوشبو کے قریب نہیں جائیں گے اور اونی لباس پہنیں گے اور دنیاکو ترک کردیں گے، زمین میں سفر کریں گے، رہبانیت اختیار کریں گے اور شرمگاہوں کو کاٹ دیں گے، اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ آیت نازل فرمائی۔ اس مفہوم میں احادیث کثیر ہیں اگرچہ ان میں نزول کا ذکر نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ مسلم نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے چند لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تنہائی کے اعمال کے بارے میں پوچھا، ان میں بعض صحابہ نے کہا : میں عورتون سے نکاح نہیں کروں گا۔ بعض نے کا ہ : میں گوشت نہیں کھاؤں گا۔ بعض نے کہا : میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی اور فرمایا :” اس قوم کا کیا حال ہوگا جنہوں نے ایسا ایسا کیا لیکن میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہون، میں روزوہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، عورتوں سے مقاربت بھی کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ میری جماعت سے نہیں “ (1۔ صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 757۔ صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 449 ) ۔ اس حدیث کو بخاری نے حضرت انس سے روایت کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : تین افراد نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے حجروں کے پاس آئے جب کہ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کے متعلق سوال کر رہے تھے جب انہیں بتایا گیا تو انہوں نے آپ کی عبادت کو قلیل سمجھا، انہوں نے کہا : ہم نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مربہ کو کیسے پاسکتے ہی ؟ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلے اور پچھلے گناہوں سے محفوظ فرمایا ہے۔ ایک نے کہا تھا : میں ہمیشہ ساری ساری رات نماز پڑھوں گا۔ دوسرے نے کہا : میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور افطار نہیں کروں گا۔ ایک نے کہا : میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا اور میں کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آئے اور کہا : تم نے ایسا ایسا کہا ہے، ” اللہ کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ متقی ہوں لیکن میں ررزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے مقاربت بھی کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ میری جماعت سے نہیں “۔ ان دونوں محدثین نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے فرمایا : حضرت عثمان بن مظعون نے تبتل کا ارادہ کیا تو بنی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع فرمایا اگر آپ انہیں اس کی اجازت تو ہم خصی ہوجاتے۔ امام احمد بن حنبہ نے اپنی مسند میں حدثنا ابو المغیرہ قال حدثنا معان بن رفاعہ قال حدثنی علی بن یزید عن القاسم عن ابی امامہ الباہلی ؓ کی سند سے روایت کیا ہے فرمایا : ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سریہ میں نکلے، فرمایا : ایک شخص ایک غار سے گزرا جس میں پانی تھا اس نے سوچا کہ وہ اس غار میں قیام کرے اور اس پانی سے خوراک حاصل کرے اور اردگرد جو سبزیاں ہیں وہ کھائے اور دنیا سے کنارہ کش ہوجائے، پھر اس نے کہا : اگر میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤں اور آپ کے سامنے اس پروگرام کا ذکر کروں اگر آپ مجھے اس کی اجازت دیں تو میں ایسا کروں گا ورنہ میں ایسا نہیں کروں گا۔ وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی : اے اللہ کے نبی ! میں ایک غار سے گزرا جس میں میری خوراک کے لیے پانی اور سبزیاں تھیں پس میرے دل میں خیال آیا کہ میں اس میں رہوں اور دنیا سے قطع تعلقی کرلو۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : ” میں نہ یہودیت کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں اور نہ نصرانیت کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں میں تو خالص شریعت حنیفیہ کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! اللہ کے راستہ میں صبح کے وقت نکلنا یا شام کے وقت نکلنا دنیان ومافیہا سے بہتر ہے اور کسی کا جہاد کی صف میں کھڑا ہونا ساتھ سال کی نماز سے بہتر ہے “۔ مسئلہ نمبر 3۔ ہمارے علماء نے اس آیت اور اس کے مشابہ آیات اور وہ احادیث جو اس مفہوم میں وارد ہیں ان کے بارے میں فرمایا : یہ غالی صوفیا اور باطل متصوفین کا رد کرتی ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر گروہ شریعت کے راستہ سے ہٹ گیا اور حق سے دور ہوگیا۔ طبری نے کہا : کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی چیز کو حرام کرے جو اللہ نے حلال کی ہے اپنے مومن بندوں کے لیے، خواہ وہ کوئی کھانے کی چیز ہو یا پہننے کی چیز ہو یا نکاح میں سے ہو جب کہ اسے اپنے نفس پر اس کے حلال کرنے کے ساتھ گناہ اور مشقت کا اندیشہ نہ ہو۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون پر تبتل کا انکار فرمایا، پس ثابت ہوا کہ کسی حلال چیز کو ترک کرنے میں کوئی فضیلت نہیں ہے اور فضل اور نیکی اس میں ہے جس کے کرنے کی طرف اس نے بندوں کو بلایا ہے اور جس پر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عمل کیا تھا اور امت کے لیے جس کام کو سنت بنایا تھا اور جس طریقہ پر ائمہ راشدین نے اتباع کی تھی، کیونکہ بہتر ہدایت نبی مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت ہے۔ جب اس طرح معاملہ ہے تو ان لوگوں کی خطا ظاہر ہوگئی جنہوں نے روئی کے لباس پر اون اور بالوں کے لباس کو ترجیح دی جب کہ وہ دوسرے حلال لباس کے استعمال پر قادر ہو اور جس نے سخت کھانے کو ترجیح دی اور گوشت وغیرہ کو ترک کردیا اس خوف سے کہ عورتوں کی حاجت لا حق نہ ہو۔ اگر کوئی گمان کرنے والا یہ گمان کرے کہ خیر اور فضیلت اس میں ہے جو ہماری گفتگو کے علاوہ ہے، کیونکہ موٹا لباس پہننے اور سخت کھانا کھانے میں نفس پر مشقت ہے اور جو رقم بچ جائے گی وہ غریبوں پر تقسیم ہوجائے گی تو یہ اس کا گمان غلط ہے، کیونکہ انسان کے لیے بہتر وہ ہوتا ہے جس میں انسان کے نفس کی فلاح ہو اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طاعت پر معاونت ہو اور جسم پر کوئی چیز ردی کھانوں سے زیادہ نقصان دہ نہیں ہے، کیونکہ یہ عقل کو خراب کردیتے ہیں اور قوت کو کمزور کرتے ہیں جو طاعت الہیہ کا سبب ہوتی ہے۔ حضرت حسن بصری کے پاس کوئی شخص آیا اور کہا کہ میرا ایک پڑوسی ہے جو فالودہ نہیں کھاتا، حضرت انس نے فرمایا : کیوں ؟ اس نے کہا : وہ کہتا ہے وہ اس کا شکر ادا نہیں کرسکتا۔ حسن نے کہا : کیا وہ ٹھنڈا پانی پیتا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں۔ حضرت حسن بصری نے کہا : تیرا پڑوسی جاہل ہے، کیونکہ اس پر ٹھنڈے پانی کی نعمت فالودہ کی نعمت سے زیادہ ہے۔ ابن عربی نے کہا : ہمارے علماء نے فرمایا : یہ اس صورت میں ہے جب دین کے معاملات درست ہوں اور مال حرام نہ ہو، لیکن جب دین کے معاملات خراب ہوں اور حرام عام ہو تو پھر تبتل افضل ہے اور لذات کا ترک کرنا اولیٰ ہے اور جب حلال موجود ہو تو پھر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حالت پر عمل کرنا افضل اور اعلیٰ ہے۔ مہلب نے کہا : نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے تبتل اور ترہب سے اس لیے منع فرمایا، کیونکہ قیامت کے روز نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے ساتھ دوسری امت پر کثرت کا اظہار کرنے والے ہوں گے اور دنیا میں آپ اپنی امت کے ساتھ کفار سے جہاد کرنے والے ہیں اور آخر زمانہ میں دجال سے لڑیں گے، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے نسل کی کثرت کرنے کا ارادہ کیا۔ مسئلہ نمبر : 4۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : ولا تعتدوا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے حد سے نہ بڑھو ورنہ تم اس کو حلال کرو گے جو اللہ نے حرام فرمایا پس اس بنا پر دونوں نہی اپنے ضمن میں دونوں طرفوں کو لیے ہوئے ہیں یعنی سختی نہ کرو ورنہ حلال کو حرام کر دو گے اور بہت زیادہ رخصت نہ دو ورنہ حرام کو حلال کر دو گے۔ یہ حسن بصری نے کہا ہے (1۔ المحرر الوجیز) ۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ آیت : تحرموا کے قول کی تاکید ہے۔ یہ سدی اور عکرمہ وغیرہ کا قول ہے یعنی اس کو حرام نہ کرو جس کو اللہ نے حلال اور مشروع کیا۔ پہلا قول بہتر ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 5۔ جس نے اپنے اوپر کوئی کھانا پینا یا لونڈی کو حرام کیا یا کسی بھی ایسی چیز کو حرام کیا جس کو اللہ نے حلال کیا تھا تو اس پر کوئی چیز نہیں ہے۔ امام مالک کے نزدیک اس وجہ سے کوئی کفارہ نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس نے لونڈی کی تحریم سے اس کو آزاد کرنے کی نیت کی ہوگی تو وہ آزاد ہوجائے گی اور اس پر ان سے وطی کرنا حرام ہوجائے گا مگر نئے نکاح کے ساتھ پھر وہ حلال ہوجائے گی، اسی طرح کسی نے اپنی بیوی کو کہا : تو مجھ پر حرام ہے، تو اس کو تین طلاقیں ہوجائیں گی یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنی بیوی کو طلاق کنایہ کے ساتھ حرام کرنا مباح کیا ہے اور حرام کے کنایات سے ہے۔ مزیدعلماء کے اقوال سورة التحریم میں آئیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : جس نے کسی چیز کو حرام کیا تو وہ اس پر حرام ہوجائے گی جب وہ اس کام کو کرے گا تو اس پر کفارہ لازم ہوگا، یہ بعید ہے (2۔ احکام القرآن، للکیاطبری) اور آیت اس کے خلاف ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا : یمین لغو حلال کو حرام کرنا ہے، یہی امام شافعی کے قول کا معنی ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔
Top