Al-Qurtubi - Al-Maaida : 93
لَیْسَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْۤا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اَحْسَنُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۠   ۧ
لَيْسَ : نہیں عَلَي : پر الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے عمل کیے نیک جُنَاحٌ : کوئی گناہ فِيْمَا : میں۔ جو طَعِمُوْٓا : وہ کھاچکے اِذَا : جب مَا اتَّقَوْا : انہوں نے پرہیز کیا وَّاٰمَنُوْا : اور وہ ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے عمل کیے نیک ثُمَّ اتَّقَوْا : پھر وہ ڈرے وَّاٰمَنُوْا : اور ایمان لائے ثُمَّ : پھر اتَّقَوْا : وہ ڈرے وَّاَحْسَنُوْا : اور انہوں نے نیکو کاری کی وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار (جمع)
جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے۔ جبکہ انہوں نے پرہیز کیا اور ایمان لائے اور نیک کام کئے پھر پرہیز کیا اور ایمان لائے پھر پرہیز کیا اور نیکوکاری کی۔ اور خدا نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے۔
آیت نمبر 93 اس میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت براء بن عازب اور حضرت انس بن مالک نے کہا : جب شراب کی تحریم نازل ہوئی تو بعض صحابہ نے کہا : جو لوگ ہمارے فوت ہوچکے ہیں جب کہ وہ شراب پیتے تھے اور جوئے کا مال کھاتے تھے ان کا کیا ہوگا ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی (2) ۔ امام بخاری نے حضرت انس سے روایت کیا ہے فرمایا : میں ابو طلحہ کے گھر میں لوگوں کو شراب پلارہا تھا تو شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوا، آپ ﷺ نے ندا کرنے والے کو ندا کرنے کا حکم دیا۔ ابو طلحہ نے کہا : باہر نکلو اور دیکھو یہ کیسی آواز ہے ؟ فرمایا : میں نکلا تو میں نے کہا : یہ منادی ندا کر رہا ہے کہ شراب حرام ہوگئی ہے۔ ابو طلحہ نے کہا : تم جائو اور اس شراب کو بہادو، اس وقت شراب الفضیح (وہ شراب جو کچی کھجور سے بنائی جاتی ہے) تھی، فرمایا : شراب مدینہ کی گلیوں میں بہہ رہی تھی۔ بعض لوگوں نے کہا : ایک قوم شہید ہوگئی جب کہ ان کے پیٹوں میں شراب تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) لیس علی الذین امنواوعملوا الصلحت جناح الخ۔ مسئلہ نمبر 2۔ یہ آیت اور یہ حدیث ان کے اس سوال کی مثل ہے جو انہوں نے پہلے قبلہ پر مرنے والوں کے متعلق کیا تھا تو یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) وماکان اللہ لیضیع ایمانکم (بقرہ : 143) (3) جو شخص کوئی ایساکام کرے جو اس کے لیے مباح ہو حتی کہ وہ اسی فعل کو کرتے ہوئے مرجائے تو اس پر کوئی گرفت اور گناہ نہیں اور نہ کوئی مواخذہ اور مذمت ہے، نہ اجر ہے، نہ مدح، کیونکہ مباح، شرع کی نسبت سے دونوں طرفوں میں برابر ہوتا ہے اس بنا پر مناسب ہے کہ خوف نہ کیا جائے اور جو مرچکا ہے اس کی حالت کے بارے میں سوال نہ کیا جائے جب کہ شراب اس کے پیٹ میں تھی جب کہ وہ مباح تھی۔ اور جس نے ایسا کہا ہے وہ اباحت کی دلیل سے غافل ہوا اور اس کو کوئی خطرہ نہیں یا اللہ تعالیٰ کے خوف کے غلبہ اور اپنے مومن بھائیوں پر شفقت کی وجہ سے مواخذہ اور سزا کا خیال آیا، کیونکہ انہوں نے پہلے شراب پی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے وہ وہم دور فرمادیا فرمایا : (آیت) لیس علی الذین امنواوعملوا الصلحت جناح فیما طعموا۔ مسئلہ نمبر 3۔ اس آیت کے نزول میں یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ نبی ذالتمر جب نشہ دے تو وہ خمر ہے۔ یہ نص ہے اس پر اعتراض جائز نہیں، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اہل زبان تھے اور انہوں نے سمجھا کہ یہ شراب ہے، کیونکہ اس وقت مدینہ طیبہ میں اور کوئی شراب نہ تھی۔ حکمی نے کہا : لناخمرولیست خمر کرم ولکن من تناج الباسقات کرام فی السماء ذھین طولا وفات ثمارھا ایدی الجناۃ اس پر واضح دلیل نسائی کی روایت ہے، ہمیں قاسم بن زکریا نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں عبیداللہ نے بتایا انہوں نے شیبان سے انہوں نے اعمش سے انہوں نے محارب بن دثار سے انہوں نے حضرت جابر سے اور انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت فرمایا :” کشمش اور کھجورخمر (شراب) ہے “ اور عقل صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب، ان کا لغت اور شرع کا عالم ہونا تھے کافی ہے، نینبی مکرم ﷺ کے منبر پر خطبہ دیا : اے لوگو ! خبردار شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ جب نازل ہوئی یہ پانچ چیزوں سے بنائی جاتی تھی انگور سے، کھجور سے، شہد سے، گندم سے اور جو سے اور خمر وہ ہے جو عقل کو ڈھانپ دے یہ شراب کے معنی میں واضح ہے۔ حضرت عمر نے صحابہ کرام کی موجود گی میں منبر پر شراب کے بارے میں خطبہ دیا وہ اہل زبان تھے اور انہوں نے خمر سے نہ سمجھا مگر وہ جو ہم نے ذکر کیا ؓ ۔ جب یہ ثابت وہ گیا تو امام ابوحنیفہ اور کو فیوں کا مذہب باطل ہوگیا کہ خمر صرف انگور سے ہوتی ہے (امام اعظم ابوحنیفہ کا کہنا ہے خمر کا لفظ انگور کے ایسے رس جو پڑا پڑا جوش مارنے لگے اور گاڑھا ہوجائے اس میں حقیقت ہے اور دوسروں میں مجاز ہے اس لیے یہ اظہار محل نظر ہے) اور جو انگور کے علاوہ کسی چیز سے ہو تو اسے خمر نہیں کہا جاتا اور اسے خمر کا اسم شامل نہیں اسے نبیذ کہا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا : ترکت النبیذ لاھل النبیذ وصرت حلیفا لمن عابہ شراب یدنس عرض الفتی ویفتح للشر ابوابہ مسئلہ نمبر 4۔ امام ابو عبد اللہ مارزی نے کہا : جمہور سلف کا مذہب یہ ہے کہ جو نوع نشہ دے اس کا پینا حرام ہے خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہو، وہ شراب کچی ہو یا پکائی گئی ہو کوئی فرق نہیں، انگور سے نکالی گی ہو یا کسی دوسری چیز سے نکالی گئی ہے۔ جس نے شراب میں سے کچھ پیا اس شراب کی حد لگائی جائے گی اور جو انگو سے نکالی جائے گی جو کچی اور نشہ آور ہوتی ہے اس کی حرمت پر اجماع ہے خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر ہو اگرچہ ایک قطرہ بھی ہو۔ اور اس کے علاوہ جو شرابیں ہیں وہ جمہور اس کی تحریم کا قول کرتے ہیں اور کوفی علماء خمر کے علاوہ قلیل شراب میں اختلاف کرتے ہیں اور اس سے مراد وہ ہے جو نشہ نہیں دیتی۔ اور جو شراب انگور سے پکا کر بنائی جاتی ہے اہل بصرہ کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ حرمت انگور کے شیرہ پر اور کچی کشمش کی شراب پر منحصر ہے جو ان دونوں سے پکائی گئی ہے اور ان کے علاوہ کچی اور پکی حلال ہے جب تک کہ وہ نشہ نہ دے۔ امام ابوحنیفہ تحریم کو اس سے خاص کرتے ہیں جو کھجور اور انگور کے پھلوں کا نچوڑ ہو۔ اس میں ان کی تفصیل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انگور کی شراب قلیل ہو یا کثیر وہ حرام ہے مگر اسے اتنا پکایا جائے کہ ایک تہائی باقی رہ جائے۔ اور کشمش اور کھجور کی شراب اس کو پکایا گیا ہو تو حلال ہے اگرچہ اس کو آگ نے تھوڑا سا بھی چھوا ہو اور ان کی کچی شراب وہ حرام ہے لیکن اس کی حرمت کے باوجود اس پر حد ثابت نہیں ہوتی یہ اسی صورت میں ہے جب کہ نشہ نہ دے، اگر نشہ دے تو تمام برابر ہیں۔ ہمارے شیخ فقیہ امام ابوالعباس احمدؓؓؓؓؓرحمۃ اللہ علیہ نے کہا : اس مسئلہ میں مخالفت کرنے والوں پر تعجب ہے۔ وہ کہتے ہیں : شراب جو انگور کے شیرہ سے بنائی گئی ہو وہ تھوڑی بھی زیادہ کی طرح حرام ہے، اس پر اجماع ہے۔ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ خمر میں قلیل کیوں حرام ہے وہ تو عقل کو ضائع کرنے والی نہیں ہے ؟ پس یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ زیادہ کی طرف دعوت دینے والی ہے یا یہ تعبد و تکلف کی بنا پر ہے۔ اس وقت انہیں کہا جائے گا : جو تم نے قلیل خمر میں مقدر کیا ہے وہی بعینہ قلیل نبیذ میں موجود ہے پس وہ بھی حرام ہو، کیونکہ ان دونوں کے درمیاں نام کا ہی فرق ہے جب یہ تسلیم کرلیا جائے یہ قیاس، قیاس کی انواع میں سے بلند ترین قسم ہے، کیونکہ اس میں فرع تمام اوصاف میں اصل کے مساوی ہے یہ اس طرح ہے جیسے غلام پر لونڈی کو قیاس کیا جاتا ہے آزادی کی سرایت میں پھر تعجب تو امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب پر ہے وہ قیاس میں غلو کرتے ہیں اور وہ قیاس کو اخبار احاد پر ترجیح دیتے ہیں، اس کے باوجود انہوں نے اس قیاس جلی کو ترک کردیاجس کی تائید کتاب و سنت اور امت کے ابتدائی علماء کے اجماع سے ہوتی ہے اور احناف نے یہ قیاس کا ترک ان احادیث کی وجہ سے کیا جن میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے جب کہ علماء نے اپنی اپنی کتب میں ان کی علتیں بیان کی ہیں اور ان احادیث میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ مزید تفصیل سورة النحل میں آئے گی انشاء اللہ تعالی۔ مسئلہ نمبر 5۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : طعموا اس لفظ کی اصل کھانے کے بارے میں ہے طعم اطعام اور شرب الشراب کہا جاتا ہے لیکن مجازا اس میں کہا جاتا ہے : لم اطعم خبزا ولا ماء ولا نوما۔ شاعر نے کہا : نعاما بوجرۃ صعر الخدو دلا تطعم النوم الا صیام سورة بقرہ میں (آیت) ومن لم یطعمہ (بقرہ : 249) کے تحت گزرچکی ہے مسئلہ نمبر 6۔ ابن خویز منداد نے کہا : یہ آیت مباح اور شہوت کو اور کھانے، پینے اور نکاح کرنے کی ہر لذت سے نفع حاصل کرنے کا شامل ہے اگرچہ ان میں مبالغہ کیا گیا ہو اور انتہائی مہنگی ہوں یہ آیت اس ارشاد : (آیت) لاتحرمو اطیبت ما احل اللہ لکم اور (آیت) قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبت من الرزق (الاعراف : 32) کی مثل ہے مسئلہ نمبر 7۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اذا ما اتقوا وامنوا وعملوا الصلحات ثم اتقو وامنواثم اتقوا واحسنو واللہ لا یحب المحسنین اس میں چار قول ہیں : (1) تقوی کے ذکر میں تکرار نہیں ہے اس کا معنی ہے شراب کے پینے سے بچو اور اس کی تحریم پر ایمان لے آئو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ان کا تقوی اور ایمان ہمیشہ اور دائمی ہے۔ تیسرا یہ کہ احسان کے معنی پر تقوی ہے۔ (2) دوسرا قول یہ ہے کہ انہوں نے شراب کی حرمت سے پہلے دوسری محرمات سے تقوی اختیار کیا پھر اس کی تحریم کے بعد اس کے پینے سے تقوی اختیار کیا پھر باقی اعمال میں بھی تقوی اختیار کیا اور عمل بہت عمدہ کیا۔ (3) تیسرا قول یہ ہے کہ وہ شرک سے بچے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے دوسرا معنی یہ کہ وہ کبائر سے بچے اور ایمان کو زیادہ کیا اور تیسرا معنی یہ کہ پھر وہ صغائر سے بچے اور نفلی کام کیے۔ محمد بن جریر نے کہا : پہلے تقوی سے مراد اللہ تعالیٰ کے حکم کو قبول کرنا اور اس کی تصدیق کرنا اور اس کے دین کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا، دوسرے تقوی سے مراد تصدیق پر ثابت وقائم رہنا، تیسرے تقوی سے مراد احسان کے ساتھ تقوی اختیار کرنا اور نوافل کے ساتھ قرب حاصل کرنا۔ مسئلہ نمبر 8۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ثم اتقوا واحسنوا واللہ یحب المحسنین یہ دلیل ہے کہ متقی محسن اس متقی مومن سے افضل ہے جو عمل صالح کرتا ہے اور اس کی فضلیت احسان کے اجر کے ساتھ ہے۔ مسئلہ نمبر 9۔ اس آیت کی حضرت قدامہ بن مظعون نے تاویل کی جو صحابہ کرام میں سے تھے جنہوں نے اپنے بھائی حضرت عثمان اور حضرت عبداللہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، پھر مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تھی، جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور حضرت عمر بن خطاب کے سسر تھے۔ حضرت عبد اللہ اور حضرت حفصہ کے ماموں تھے۔ حضرت عمر بن خطاب نے انہیں بحرین کا والی بنایا تھا پھر جارود کی شہادت پر انہیں معزول کردیا تھا، جارود عبدالقیس کا سردار تھا۔ انہوں نے حضرت قدامہ کے خلاف شراب پینے کی گواہی دی تھی۔ دارقطنی نے روایت کیا ہے فرمایا ہمیں ابوالحسن علی بن محمد مصری نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں یحییٰ بن ایوب علاف نے بتایا انہوں نے کہا مجھے سعید بن عفیر نے بتایا انہوں نے کہا مجھے فلیح بن سلیمان نے بتایا انہوں نے کہا مجھے ثوربن زیدنے بتایا انہوں نے عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ شراب پینے والوں کو عہد رسالت مآب ﷺ میں ہاتھوں، جوتوں اور لاٹھیوں کے ساتھ مارا جاتا تھا، حتی کہ رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا، پھر حضرت ابوبکر ؓ کے دور میں یہ لوگ زیادہ تھے حضرت ابوبکر انہیں چالیس کوڑے لگاتے تھے حتی کہ وہ فوت ہوگئے ان کے بعد حضرت عمر بھی شرابیوں کو چالیس کوڑے لگاتے تھے حتی کہ مہاجرین اولین میں سے ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی تھی حضرت عمر نے اسے کوڑے لگانے کا حکم دیا۔ اس شخص نے کہا : تو مجھے کوڑے کیوں لگاتا ہے میرے اور تیرے درمیان کتاب اللہ ہے ؟ حضرت عمر نے کہا : کون سی کتاب اللہ میں ہے کہ میں تجھے کوڑے نہ لگائوں ؟ اس نے کہا : اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں : (آیت) لیس علی الذین امنوا وعملوا الصلحت جناح فیماطعموا اور میں ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والوں سے ہوں پھر جنہوں نے تقوی اختیار کیا اور ایمان لائے پھر تقوی اختیار کیا اور اچھے اعمال کیے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ بدر، احد، خندق اور دوسری تمام جنگوں میں حاضر ہوا۔ حضرت عمر نے کہا : کیا تم اس کا رد نہیں کرتے جو یہ کہہ رہا ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ آیات ان لوگوں کے بارے میں اتریں جو گزرچکے ہیں اور یہ لوگوں پر حجت ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر اؓلخ پھر مکمل آیت پڑھی اگر یہ ان لوگوں میں سے ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے شراب پینے سے منع کیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا : تم نے سچ کہا ہے تم کیا کہتے ہو ؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا : جب شراب پیے گا تو نشہ میں ہوگا جب نشہ میں ہوگا تو ہذیان بکے گا جب ہذیان بکے گا تو افترا باندھے گا اور جھوٹا الزام لگانے والے پر اسی کوڑے ہیں۔ حضرت عمر نے اسے کوڑے لگانے کا حکم دیاتو اسے کوڑے لگائے گئے (1) (سنن دارقطنی، حدیث نمبر 3344 ) ۔ حمیدی نے ابوبکر برقانی سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : جب جارود بحرین سے آیا تو کہا : اے امیرالمومنین ! قدامہ بن مظعون نے نشہ دینے والی شراب پی ہے میں جب اللہ کے حق میں سے کوئی دیکھوں تو مجھ پر حق ہے کہ میں وہ تم تک پہنچائوں۔ حضرت عمر نے کہا : جو تم کہہ رہے ہو اس پر گواہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا : حضرت ابوہریرہ ؓ ۔ حضرت عمر نے حضرت ابوہریرہ کو بلایا، پوچھا : اے ابوہریرہ کیسے گواہی دیتے ہو ؟ حضرت ابوہریرہ نے کہا : میں نے اسے شراب پیتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے اسے نشہ میں قے کرتے ہوئے دیکھا۔ حضرت عمر نے کہا : تم شہادت میں گہرے ہو، پھر حضرت عمر نے قدامہ کو خط لکھا وہ بحرین میں تھے اسے حاضر ہونے کا حکم دیا جب قدامہ آیا تو جارود مدینہ میں تھا۔ حضرت عمر نے جارود سے بات کی فرمایا : اس پر کتاب اللہ کو قائم کر۔ حضرت عمر نے جارود سے کہا : تو گواہ ہے یا خصم ہے۔ جارود نے کہا : میں گواہ ہوں۔ حضرت عمر نے کہا : تو نے گواہی ادا کردی پھر اس نے حضرت عمر سے کہا : میں تجھے اللہ کا واسطہ دیتا ہوں۔ حضرت عمر نے کہا : تو اپنی زبان کو سنبھال ورنہ میں تجھے سخت سزا دوں گا۔ جارود نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ حق نہیں کہ تیرے چچا کا بیٹا شراب پیئے اور تو مجھے اذیت دے۔ حضرت عمر نے اسے دھم کا یا تو حضرت ابوہریرہ نے کہا : جو بیٹھے ہوئے تھے اے امیر المومنین اگر تجھے ہماری گواہی پر شک ہے تو ابن مظعون کی بیوی ولید کی بیٹی سے پوچھ، حضرت عمر نے ہند کو بلایا اور اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھا، ہند نے اپنے خاوند کے خلاف شہادت دی۔ حضرت عمر نے کہا : اے قدامہ میں تجھے کوڑے لگائوں گا۔ قدامہ نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر میں نے شراب پی ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں، تو اے عمر پھر بھی تم مجھے کوڑے نہیں لگاسکتے۔ حضرت عمر نے کہا : کیوں ؟ اس نے کہا : کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) لیس علی الذین امنوا وعملوا الصلحت جناح فیماطعمواذا ما اتقوا وامنو اوعملوا لصلحت ثم اتقواوامنو ثم اتقوا واحسنوا واللہ یحب المحسنین حضرت عمر نے کہا : اے قدامہ تو نے غلط تاویل کی ہے جب تو اللہ سے ڈرتا ہے تو اس سے اجتناب کر جس کو اللہ نے حرام کیا ہے، پھر حضرت عمر قوم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : تم قدامہ کے کوڑوں میں کیا رائے رکھتے ہو ؟ قوم نے کہا : ہمارا خیال ہے تم اسے کوڑے نہ لگائو جب تک ہو مریض ہے۔ حضرت عمر اس کے کوڑے لگانے سے خاموش ہوگئے، پھر ایک دن صبح اپنے ساتھیوں سے کہا : تمہاری قدامہ کے کوڑوں کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ قوم نے کہا : ہم نہیں دیکھتے کہ تم اسے کوڑے لگائے جب تک وہ مریض ہے۔ حضرت عمر نے کہا : اللہ کی قسم ! اس کا اللہ تعالیٰ سے کوڑے کے تحت ملاقات کرنا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اللہ سے ملوں جب کہ وہ میری گردن میں ہو ؟ اللہ کی قسم ! میں اسے کوڑے لگائوں گا تم میرے پاس کو ڑالے آئو، ان کا غلام اسلم ایک چھوٹا سا نرم کوڑا لے آیا۔ حضرت عمر نے اسے پکڑا اس پر ہاتھ پھیرا پھر اسلم سے کہا : میں نے تجھے تیری قوم کی بری عادتوں پر پایا ہے، تم میرے پاس کوئی اور کوڑا لائو پھر اسلم ایک مکمل کوڑا لایا، حضرت عمر نے قدامہ کو کوڑے لگانے کا حکم دیا قدامہ حضرت عمر پر ناراض ہوا اور اسے چھوڑ دیا گیا پھر دونوں نے حج کیا، قدامہ حضرت عمر کو چھوڑے رہاحتی کے اپنے حج سے واپس آگئے۔ حضرت عمر سقیا کے مقام پر اترے اور وہاں سو گئے جب حضرت عمر اٹھے تو کہا : قدامہ کو میرے پاس جلدی لائو، جائو اور اسے میرے پاس لے آئو اللہ کی قسم ! میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے پاس کر ئی آیا اور کہا : قدامہ سے صلح کرو وہ تمہارا بھائی ہے جب لوگ قدامہ کے پاس آئے تو اس نے آنے سے انکار کیا حضرت عمر نے قدامہ کو کھینچ کر لانے کا حکم دیا، حضرت عمر نے اس سے کلام کی اور اس کے لیے استغفار کیا یہ ان کی پہلی صلح تھی۔ ایوب ابن ابی تیمیہ نے کہا : اہل بدر میں سے ان کے علاوہ کسی کو شراب کی وجہ سے حد نہیں لگی۔ ابن عربی نے کہا : یہ آیت کی تاویل پر تیری رہنمائی کرتا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے دارقطنی میں روایت کیا گیا ہے اور حضرت عمر سے برقانی کی حدیث میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ صحیح ہے۔ اس نے اس کو وسیع کیا کہ اگر جو شراب پیتا اور دوسرے احکام میں اللہ سے ڈرتا تو پھر شراب پر کسی کو حد نہ لگائی جاتی۔ یہ غلط تاویل ہے قدامہ پر مخفی رہی اور انہوں نے اس کو پہچان لیاجن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی جیسے حضرت عمر ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ شاعر نے کہا : وان حراما لا اری الدھر با کیا علی شجوہ الا بکیت علی عمر حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ شام میں ایک قوم نے شراب پی اور انہوں نے کہا : ہمارے لیے یہ حلال ہے اور انہوں نے اس آیت کی تاویل کی، حضرت علی اور حضرت عمر نے اجماع کیا کہ ان سے توبہ طلب کی جائے اگر وہ توبہ کرلیں تو فبہا ورنہ وہ قتل کیے جائیں۔ الکیاطبری نے ذکر کیا ہے۔
Top