Al-Qurtubi - Al-Baqara : 46
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ
فَاَقْبَلَتِ : پھر آگے آئی امْرَاَتُهٗ : اس کی بیوی فِيْ صَرَّةٍ : حیرت سے بولتی ہوئی فَصَكَّتْ : اس نے ہاتھ مارا وَجْهَهَا : اپنا چہرہ وَقَالَتْ : اور بولی عَجُوْزٌ : بڑھیا عَقِيْمٌ : بانجھ
تو ابراہیم کی بیوی چلاتی آئی اور اپنا منہ پیٹ کر کہنے لگی (اے ہے ایک تو) بڑھیا اور (دوسرے) بانجھ
فا قبلت امراتہ فی صرۃ۔ صرۃ کا معنی چیخ اور شور ہے : یہ حضرت ابن عباس ؓ اور دوسرے علماء سے مروی ہے اسی سے صریر الباب ہے، جس سے مراد دروازے کی آواز ہے عکرمہ۔ اور قتادہ نے کہا : اس سے مراد اوہ کا کلمہ کہنا ہے۔ یہاں اقبال سے مراد ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا نہیں۔ فراء نے کہا ؛ یہ تیرے اس کا قول کی طرح ہے اقبل یشتمنی وہ مجھے گالیاں دینے لگا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ عورتوں کی ایک جماعت میں آئیں تاکہ فرشتوں کی گفتگو سنیں۔ جوہری نے کہا : صرہ کا معنی شوروغل کرنا اور چیخنا ہے اور صرہ کا معنی جماعت اور صرہ کا معنی سخت مصیبت ہے۔ امراء القیس نے کہا : فالحقہ بالھادیات ودونہ جو احرھا فی صراۃ لم تذیل (1) یہ گھوڑاجب جنگلی گائیوں کے ابتدائی حصہ تک پہنچا اس کے پیچھے والی گائیاں جماعت میں تھی جو بکھری نہیں۔ یہ شعر تینوں مذکورہ وجوہ کا احتمال رکھتا ہے۔ صرۃ القیظ سے مراد اس کی گرمی کی شدت ہے۔ جب حضرت سارہ نے نشارت کو سنا تو اپنے چہرے پر ضرب لگائی یعنی جس طرح عورتوں کی عادت ہوتی ہے وہ تعجب کے وقت اپنے چہرے پر ہاتھ مارتی ہیں : یہ سفیان ثوری اور دوسرے علماء کا نقطہ نظر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : فصکت و جھھا اس نے اپنے منہ پر طمانچہ مارا۔ صک کا معنی مارنا ہے۔ ص کہ اس نے اسے مارا۔ راجز نے کہا : یا کرو نا صک فا کبانا ، کرون بھورے رنگ کا پرندہ جو رات کو نہیں سوتا۔ اموی نے کہا : کبن الطبی یہ جملہ اس وقت بولتے ہیں جب ہرن زمین سے چمٹ جائے۔ البان کا معنی یہی ہے۔ وقالت عجور عقیم ،۔ یعنی کیا بوڑھی بانجھ عورت بچہ جنے گی ؟ زجاج نے کہا : معنی ہے میں بوڑھی اور بانجھ ہوں میں کیسے بچہ جنوں گی ؟ جس طرح کہا : یویلتیء الدوانا عجوز (ہود :72) قالوا کذلک یعنی بات اسی طرح ہے جس طرح ہم نے تجھے کہا ہے اور ہم نے تجھے خبر دی ہے۔ قال ربک تیرے رب کا فرمان ہے تو اس میں شک نہ کر۔ بشارت اور ولادت کے درمیان ایک سال کا طویل عرصہ تھا حضرت سارہ کی اس سے پہلے اولاد نہ ہوئی تھی۔ انہوں نے اس وقت بچا جنا جب ان کی عمر نواسی سال تھی جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر اس وقت سو سال تھی۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔
Top