Al-Qurtubi - Adh-Dhaariyat : 43
وَ فِیْ ثَمُوْدَ اِذْ قِیْلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِیْنٍ
وَفِيْ ثَمُوْدَ : اور ثمود میں اِذْ قِيْلَ لَهُمْ : جب کہا گیا ان سے تَمَتَّعُوْا : فائدے اٹھا لو حَتّٰى حِيْنٍ : ایک وقت تک
اور (قوم) ثمود (کے حال) میں بھی (نشانی ہے) جب ان سے کہا گیا کہ ایک وقت تک فائدہ اٹھا لو
وفی ثمود یعنی ثمود میں بھی عبرت اور نشانی ہے جب انہیں کہا گیا : تم دنیا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے زندگی گزارو۔ حتی حین ہلاکت کے وقت تک۔ یہ تین دن ہیں۔ جس طرح سورة ہود آیت میں ہے تمتعوا فی دارکم ثلثۃ ایام ایک قول یہ کیا گیا ہے : تمثعوا کا معنی ہے اسلام لے آئو اور اپنی اجل کے پورا ہونے تک لطف اندوز ہو لو۔ فعتو اعن امر ربھم انہوں نے اللہ تعالیٰ کے امر کی مخالفت کی اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ فاخذ تھم الصعقۃ صاعقہ سے مراد موت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد ہر قسم کا مہلک عذاب ہے۔ حسین بن واقد نے کہا : قرآن حکما میں جہاں بھی صاعقہ کا لفظ ہے اس مراد عذاب ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ حمید، ابن محصین، مجاہد اور کسائی نے الصعقہ پڑھا ہے جملہ بولا جاتا ہے : صعق صعقۃ و تصعا قا اس پر غشی چھا گئی۔ صعقتھم السماء جب آسمان ان پر عذاب نازل کرے۔ صاعقہ کا معنی عذاب کی چیخ ہے۔ سورة بقرہ اور دوسری سورتوں میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ وھم ینظرون وہ دن کے وقت اسے دیکھ رہے تھے۔ فما استطاعوامن قیام ایک قول یہ کیا گیا ہے : قیام کا معنی اٹھنا ہے (1) ۔ ایک قول یہ کیا گیا : وہ طاقت نہیں رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو اٹھا سکیں اور اس کے ساتھ اٹھ سکیں اور اپنی ذاتوں سے اسے دور کرسکیں۔ تو کہتا : لا اقوام لھذا الامر میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : ان کے جسم ختم ہوجائیں گے اور ان کی روحیں عذاب میں باقی رہیں گی۔ وما کانو امنتصرین ،۔ جب انہیں ہلاک کیا جائے گا تو وہ عذاب سے محفوظ نہیں ہوں گے یعنی ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔
Top