Al-Qurtubi - Adh-Dhaariyat : 7
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْحُبُكِۙ
وَالسَّمَآءِ : اور قسم ہے آسمانوں کی ذَاتِ الْحُبُكِ : راستوں والے
اور آسمان کی قسم جس میں راستے ہیں
والسماء ذات المحبک، ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہاں السماء سے مراد بادل ہیں جو زمین کو سایہ کیے ہوتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد بلند آسمان ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا : مراد ساتواں آسمان ہے (2): اسے مہدوی، ثعلبی، مارودی اور دوسرے علماء نے ذکر کیا ہے۔ المحبک میں : سات قول ہیں (1) یہ حضرت ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ربیع کا قول ہے (3) ۔ یعنی خوبصورت و کامل مخلوق والا ؛ یہ عکرمہ کا قول ہے کہا : کیا تو کپڑا بننے والے کو نہیں دیکھتا جب وہ کپڑا بنتا ہے اور اس کو اچھی طرح بنتا ہے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے : حمک الثوب یح مکہ جس نے اس کی اچھی طرح بنائی کی۔ ابن اعرابی نے کہا : ہر وہ چیز جس کو تو مضبوط بنائے اور اس کے عمل کو اچھا کرے تو اس کے لئے کہیں گے احتنکتہ۔ (4) خوبصورت ؛ یہ حضرت حسن بصری اور سعید بن جبر کا قول ہے۔ حضرت حسن بصری مروی ہے : مراد ستاروں والا (4) ۔ تیسرا قول ہے (4) ضحاک نے کہا : راستوں والا۔ پانی اور ریت پر جب ہوا چلے تو اس میں تو جو دیکھتا ہے اسے حبک کہتے ہیں۔ اس کی مثل فراء کا قول ہے، کہا : حبک ہر شے کی شکن کو کہتے ہیں جس طرح ریت پر پرسکون ہوا چلے، کھڑا پانی جس پر ہوا چلے، لوہے کی زرہ کی شکنوں کو حمک کہتے ہیں۔ دجال کے متعلق حدیث میں ہے ان شعرہ حمک اس کے بال کھنگھریالے ہیں۔ زہیر نے کہا : مکل باصول النجم تنسجہ ریح خریق لغاحی مائہ حبک، لیکن وہ بندوں سے دور ہوتا ہے وہ اسے نہیں دیکھتے۔ (5) مضبوط : یہ ابن زید کا قول ہے اور اس آیت کو پڑھا وبینا فو قکم سبعا شدادا، (النبائ) محبوک سے مراد وہ چیز ہے جو مضبوط جسم والی ہو جس طرح گھوڑا وغیرہ امراء القیس نے کہا : قد غدا یحمل فی انفہ لاحق الاطلین محبوک ممر، ایک اور شاعر نے کہا : مرج الدین فاعددت لہ مشرف الحارک محموک الکتد، دونوں شعروں میں محبوک کا لفظ مضبوط و محکم کے معنی میں ہے۔ حدیث طیبہ میں ہے ان عائشہ ؓ کا نت تحتبک الدرع فی الصلاۃ۔ (1) یعنی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نماز میں تہبند کو مضبوطی سے باندھا کرتی تھیں۔ (6) مضبوط بنائی والا : یہ خصیف کا قول ہے اس سے ثواب صفیق اور وجہ صفیق ہے۔ (7) طرق سے مراد آسمان میں کہکشاں ہے اسے یہ نام دیا گیا کیونکہ گویا یہ کھیچنے کا نشان ہے۔ حبک، حباک کی جمع ہے۔ راجز نے کہا : کانما جلھا الحواک طنفسۃ فی وشیھا حماک (2) ، حماک اور حبیکہ سے مرادریت وغیرہ ہے۔ حباک کی جمع حبک ہے اور حبیکہ کی جمع حبائک آتی ہے جب کہ یہ عم کہ کی طرح ہے یہ ستو کا دانا ہے ؛ یہ جوہری سے مراد ہے۔ حضرت حسن بصری ہے : ذات الحبک، المک الحمک، الحمک، الحمک اور انہوں نے اسے الحمک پڑھا ہے۔ عکرمہ اور ابو مجلز سے الحبک مروی ہے الحمک اس کا واحد حبیکہ ہے اور الحمک اسی سے مختلف ہے۔ الحمک اس کا واحد حب کہ ہے جس نے اسے الحبک پڑھا ہے اس کا واحد حب کہ ہے جس طرح برقہ کی جمع برق ہے یا یہ حم کہ کی جمع ہے جس طرح ظلمتہ کی جمع ظلم آتی ہے۔ جس نے اسے الحمک پڑھا ہے تو یہ اہل اور اطل کی طرح ہے الحمک یہ محفف ہے جس نے اسے الحمک پڑھا تو یہ شاذ ہے کیونکہ کلام عرب میں فعل کا وزن نہیں یہ داخل لغات پر محمول ہے گویا حاء کو کسرہ دیا گیا تاکہ باء کو کسرہ دیا جائے پھر الحبک کا تصور کیا تو باء کو ضمہ دیا ؛ یہ سب تعبیریں مہدوی نے ذکر کی ہیں۔ انکم لفی قول مختلف، یہ قسم کا جواب ہے جو والسماء ہے یعنی اے اہل مکہ ! تم حضرت محمد ﷺ اور قرآن کے بارے میں مختلف رائے رکھنے والے ہو کچھ تصدیق کرنے والے اور کچھ تکذیب کرنے والے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے۔ یہ باہم مال تقسیم کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی، ایک قول یہ کیا گیا : ان اختلاف یہ تھا کہ آپ جادوگر ہیں نہیں بلکہ شاطر ہیں نہیں بلکہ بہتان لگانے والے ہیں نہیں بلکہ مجنون ہیں نہیں بلکہ کاہن ہیں نہیں بلکہ پہلے لوگوں کے یہ قصے کہانیاں ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا کہ ان میں سے کچھ وہ تھے جنہوں نے حشر کی نفی کی، ان میں سے کچھ نے شک کا اظہار کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے۔ مراد بتوں کے بچاری ہیں جو یہ اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کا خالق ہے جب کہ عبادت غیروں کی کرتے ہیں (1) ۔ یوفک عنہ من افک، یعنی حضرت محمد ﷺ اور قرآن پر ایمان سے اسے پھیر دیا جاتا ہے جسے پھیر دیا جاتا ہے ؛ یہ حضرت حسن بصری اور دوسرے علماء سے مروی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے ؛ اس کا معنی ہے جس نے ان کے قول کا یہ ارادہ کیا کہ جادو ہے، کہانت ہے اور پہلے لوگوں قصے کہانیاں ہیں ان کو ایمان سے پھیر دیا گیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : معنی ہے اللہ تعالیٰ نے جسے محفوظ رکھا اسے اختلاف سے پھیرلیا گیا۔ اف کہ، یا فکہ افکا ،۔ یعنی اسے کسی شے سے پھیر دینا۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اجتنا لتا فکنا (الاحقاف :22) مجاہد نے کہا : یوفک عنہ من افک، کا معنی ہے یوفن عنہ من افن، افن سے مراد عقل کا فاسد ہونا ہے یعنی جس کا عقل فاسد ہوجاتا ہے اسے اس سے پھرھ دیا جاتا ہے۔ زمشری نے کہا : اسے یوفن عنہ من افن پڑھا گیا یعنی اسے محروم رکھا جاتا ہے جسے محروم رکھا گیا۔ یہ افن الصرع سے مشتق ہے جس کا معنی ہے اس نے کھیری کا تمام دودھ دوہ لیا۔ قطرب نے کہا : معنی ہے اسے دھوکہ میں رکھا جاتا ہے جسے دھوکہ دیا گیا (2) ۔ یزیدی نے کہا : اس سے دور رکھا جاتا ہے جسے دور رکھا گیا۔ معنی ایک ہی ہے سب معافی پھیرنے کے معنی کی طرف لوٹتے ہیں۔ قتل الخرصون، تفسیر میں ہے کذابوں پر لعنت ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : شک کرنے والے قتل ہوں۔ مراد کاہن ہیں۔ حضرت حسن بصری نے کہا : بصری نے کہا : مراد وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہمیں دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا (3) ۔ قتل کا معنی ہے یہ لوگ ہیں جن کے بارے میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے کی بدعا کرنا واجب ہوچکی ہے۔ فراء نے کہا : قتل کا معنی ہے اس پر لعنت ہو کہا : الخرصون سے مراد جھوٹے ہیں جو اس چیز کے بارے میں گمان کرتے ہیں جس کو جانتے نہیں وہ کہتے ہیں ؛ حضرت محمد ﷺ مجنون، کذاب، جادو گر اور شاعر ہیں (نعوذ باللہ من ذالک) یہ ان کے بارے میں بدعا ہے کیونکہ جس پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے وہ مقتول اور ہلاک ہونے والے کا معنی میں ہے۔ ابن الانباری نے کہا : ہم نے ان کے لئے بدع کی تعلیم دی یعنی یہ کہو قتل الخرصون۔ یہ خارص کی جمع ہے خرص کا معنی جھوٹ ہے اور خراص سے مراد کذاب ہے اس کا باب یوں چلتا ہے خرص یخرص خرصا۔ یعنی اس نے جھوٹ بولا۔ کہا جاتا ہے : خرص، اخترص، خلق، اختلق، بشک، ابتشک اور مان سب کا معنی جھوٹ بولنا ہے ؛ یہ نحاس نے بیان کیا ہے۔ خرص کا معنی یہ بھی ہے کہ کھجور کے درخت پر جو تر کھجوریں ہیں ان کو خشک کھجوروں کے ساتھ اندازہ سے بیچنا۔ اس کے لئے یہ جملہ بولتے ہیں ؛ وقد خرصت النخل اس کا اسم خرص کا اصل معنی قطع کرنا ہے جس کی وضاحت سورة الانعام میں گزر چکی ہے ؛ اسی سے ایک خریص ہے جو خلیج کے لئے بولا جاتا ہے کیونکہ اس کی طرف پانی الگ ہوجاتا ہے۔ خرص اور خرص بال کے اندر دانہ کو کہتے ہیں جب وہ الگ ہو کیونکہ وہ دوسروں سے منقطع ہوتا ہے خرص کا معنی عود ہے کیونکہ وہ اپنی عمدہ خوشبو کی وجہ سے اپنی مثل سے ممتاز ہوتا ہے۔ خرص اسے بھی کہتے ہیں جسے بھوک اور سردی لگی ہو کیونکہ اس کے ساتھ وہ الگ تھلگ ہوجاتا ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : خرص الرجل فھو خرص ؛ یعنی وہ بھوک اور ٹھنڈک کا شکار ہے بھوک ہو سردی ہو نہ ہو اسے خرص نہیں کہتے سردی ہو بھوک نہ ہو اسے خرص کہتے ہیں۔ خرص جب خاء کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ہو تو مراد سونے یا چاندی کا حلقہ ہے اس کی جمع خرصان ہے۔ خرص میں نجومیوں کا قول بھی داخل ہوتا ہے اور ہر اس آدی کا قول بھی داخل ہوتا ہے جو حدس اور تخمینہ کا دعوی کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے مکہ کی گھاٹیوں کو باہم تقسیم کیا تھا اور نبی کریم ﷺ کے بارے میں مختلف باتیں کی تھیں مقصود یہ تھا کہ لوگوں کو ایمان سے پھیر دیں۔ الذین ھم فی غمرۃ ساھون، غمرۃ اسے کہتے ہیں جو کسی چیز کو ڈھانپ دے اسی سے نھر غمر ہے یعنی جو بھی اس میں داخل ہوتا ہے وہ نہر اسے ڈھانپ لیتی ہے : اسی سے موت کی سختیاں ہیں۔ ساھون وہ آخرت کے معاملہ میں لا پرواہی کرنے والے اور غافل ہیں۔ یسلون ایان یوم الدین، وہ سوال کرتے ہیں یوم حساب کب ہوگا ؟ وہ یہ بات استہزاء اور قیامت میں شک کے طور پر کرتے ہیں۔ یوم ھم علی النار یفتنون، لفظ یوم کو نصب الجزاء کے مقدر ہونے کے اعتبار سے ہے تقدیر کلام یہ ہوگی ھذا الجزاء یوم ھم علی النار یفتنون، یعنی انہیں جلد بلایا جائے گا۔ یہ عربوں کے اس قول سے ماخوذ ہے : فتنت الذھب میں سونے کو جلایا تاکہ تو اسے آزمائے۔ فتنہ کا اصل معنی اختیا رہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے۔ یہ مبنی ہے کیونکہ یہ مبنی کی طرف مضاف ہے اس پر نصب سابقہ تقدیر کی بنا پر ہے یا یہ یوم الدین سے بدل کے طور پر منصوب ہے۔ زجاج نے کہا ؛ وہ کہتا ہے یعجبنی یوم انت قائم و یوم انت تقوم۔ اگر تو چاہے تو تو یوم کو نصب بھی دے سکتا ہے یہ محل رفع میں ہے یہ منصوب ہوگا اگرچہ معنی کے اعتبار سے مرفوع ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یفتنون کا معنی ہے انہیں عذاب دیا جائے گا (1) ؛ اس معنی میں شاعر کا شعر ہے : کل امری من عباد اللہ مغطھد ببطن مکۃ مقھود و مفتون ، مکہ کی وادی میں اللہ تعالیٰ کا ہر بندہ مظلوم، مغلوب اور عذاب دیا جا رہا ہے۔ ذو قوا فتنتکم انہیں کہا جائے گا : اپنا عذاب چکھو (2) ؛ یہ ابن زید کا قول ہے۔ مجاہد نے کہا : اپنی آگ کا مزا چکھو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یعنی تم جھٹلاتے رہے ہو اس کا مزہ چکھو۔ فراء نے کہا : اپنا عذاب چکھو۔ ھذا الذی کنتم بہ تستعجلون، یعنی تم دنیا میں جس کی جلدی مچاتے رہے ہو۔ مذکر کی ضمیر ذکر کی مونث کی ضمیر ذکر نہیں کی۔ کیونکہ یہاں فتنہ عذاب کے معنی میں ہے۔
Top