Al-Qurtubi - At-Tur : 37
اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآئِنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜیْطِرُوْنَؕ
اَمْ عِنْدَهُمْ : یا ان کے پاس خَزَآئِنُ : خزانے ہیں رَبِّكَ : تیرے رب کے اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ : یا وہ محفاظ ہیں۔ داروغہ ہیں
کیا ان کے پاس تمہارے پروردگار کے خزانے ہیں یا یہ (کہیں کے) داروغہ ہیں
ام عندھم خزآئن ربک یعنی ان کے پاس ان کے رب کے خزانے ہیں اس وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سے مستغنی ہیں اور اس کے امر سے اعراض کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس نے کہا، خزائن سے مراد بارش اور رزق ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : رحمت کی چابیاں۔ عکرمہ نے کہا، مراد رسالت ہے جہاں وہ چاہتے ہیں اسے رکھتے ہیں (1) خزائن سے مثال بیان فرمائی ہے کیونکہ یہ وہ جگہ ہوتی ہے جسے اس لئے تیار کیا جاتا ہے تاکہ مختلف قسم کے ذخائر کو جمع کیا جائے۔ سب کی مقدورات ان خزائن کی طرح ہیں جن میں ہرق سم کی جنسیں ہوتی ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی۔ ام ھم المصیطرون۔ حضرت ابن عباس نے کہا، اس کا معنی تسلط جمانے اولے اور جبار ہیں (2) ان سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کا معنی باطل پرست ہیں : یہ ضحاک کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کا معنی قبضہ کرنے والے ہیں (3) عطا نے کہا : وہ غالب ہیں۔ عطا نے کہا، یہ جملہ کہا جاتا ہے تسیطرت علی یعنی تو نے مجھے اپنا خادم بنا لیا، یہ ابوعبیدہ کا قول ہے۔ صحاح میں ہے مسیطر اور مصیطر کا معنی ہے کسی شی پر تسلط جمانے والا تاکہ اس کی نگرانی کرے، اس کے احوال کو نگاہ میں رکھے اور اس کے معل کو لکھتا رہے۔ اس کی اصل سطر ہے کیونکہ کتاب کو سطروں میں لکھا جاتا ہے جو آدمی یہ کام کرتا ہے وہ مسطر اور مسیطر ہوتا ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے سیطرت علینا۔ ابن بحر نے کہا، ام ھم المسیطرون وہ نگہبان ہیں یہ تسیطر الکتاب سے ماخوذ ہے یعنی جو کچھ اس میں لکھا ہوا ہے اسے یاد رکھتا ہے تو یہاں ہے، سین یہ ابن محصین، حمید، مجاہد، قنبل، ہشام اور ابوحیوہ کی قرأت ہے، صاد کو زاء کا اشمام یہ حمزہ کی قرأت ہے جس طرح سورة فاتحہ میں الصراط میں یہ گزر چکا ہے۔ ام لھم سلم کیا وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کیا آسمان بلند ہونے کے لئے ان کے پاس کوئی سیڑھی یا رسی ہے۔ یستمعون فیہ جس پر چڑھ کر وہ خبروں کو سنتے ہیں اور اس کی مدد سے علم غیب تک رسائی حاصل کرتے ہیں، جس طرح حضرت محمد ﷺ وحی کے ذریعہ وہاں تک جا پہنچتے ہیں۔ فلیات مستمعھم وبسلطن مبین۔ تو سننے والا واضح دلیل لے آئے کہ جس پر وہ ہیں وہ حق ہے سلم یہ سلالم کا واحد ہے جس پر چڑھا جاتا ہے بعض اوقات غرز کو بھی یہ نام دیا جاتا ہے، زبیر نے کہا : ومن ھاب اسباب المنتیۃ یلقھا ولو رام اسباب السماء بسلم جو آدمی موت کے اسباب سے ڈرتا ہے وہ انہیں مل ہی جاتا ہے اگرچہ وہ سیڑھی کے ذریعے آسمان تک کا قصد کرے۔ ابن مقبل نے کہا : لا تحرز المرء احجاء البلاد ولا یبنی لہ فی السموات السلالیم (1) شہروں کے اطراف اس آدمی کی حفاظت نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے لئے آسمانوں میں سیڑھیاں بنائی جاتی ہیں۔ احجاء کا معنی اطراف ہے جس طرح ارجاء ہے ان دونوں کا واحد حجا اور رجا ہے۔ جو الف مقصورہ کے ساتھ ہے اس شعر کو اعناء البلاد کے ساتھ بھی روایت کیا گیا ہے اعناء کا معنی بھی جو انب ہیں اس کا واحد عنو ہے۔ ابن الاعرابی نے کہا، اس کا واحد عنا ہے یہ بھی الف مقصورہ کے ساتھ ہے جاء نا اعناء من الناس ہمارے پاس لوگوں کی جماعتیں آئیں اس کا واحد عنو ہے۔ یسمعون فیہ اس میں فی، علی کے معنی میں ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فی جذوع النخل (طہ : 71) یہاں بھی فی علی کے معنی میں ہے، یہ اخفش کا قول ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا، یہاں فی باء کے معنی میں ہے۔ زجاج نے کہا، کیا ان کے لئے بھی حضرت جبرئیل کی طرح کوئی فرشتہ ہے جو حضرت جبرئیل نبی کریم ﷺ کے پاس وحی لاتے ہیں۔
Top