Al-Qurtubi - An-Najm : 16
اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰىۙ
اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ : جب چھا رہا تھا سدرہ پر مَا يَغْشٰى : جو کچھ چھا رہا تھا
جبکہ اس بیری پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا
اذ یغشی السدرۃ مایغشی۔ کہا : یہ سونے کا ایک بستر ہے۔ کہا : رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں۔ پانچ نمازیں، سورة بقرہ کی آخری آیات دی گئیں، حضور ﷺ کی امت میں سے جس نے شرک نہیں کیا اس کے گناہ بخش دیئے گئے۔ دوسری حدیث وہ ہے جسے قتادہ نے حضرت انس سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب ساتویں آسمان میں سدرۃ المنتہی تک مجھے بلند کیا گیا جس کے بیر ہجر کے مٹکوں کی طرح ہیں اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اس کی جڑ سے دو ظاہر دریا نکلتے ہیں اور دو مخفی دریا، میں نے پوچھا، اے جبرئیل ! یہ کیا ہے جواب دیا : جہاں تک پوشیدہ کا تعلق ہے وہ تو جنت میں ہوں گے جہاں تک ظاہر دریائوں کا تعلق ہے تو وہ نیل اور فرات ہیں (1) “ الفاظ دارق طنی کے ہیں۔ نبق باء کے کسرہ کے ساتھ ہے اس کا واحد نبقہ ہے۔ یہ کہا اجتا ہے نبق نون کے فتحہ اور باء کے سکون کے ساتھ ہے۔ یعقوب نے ” الاصلاح “ میں دونوں قول ذکر کئے۔ یہ مصریوں کی لغت ہے پہلی زیادہ فصیح ہے یہی وہ ہے جو نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے۔ امام ترمذی نے حضرت اسماء بنت ابی بکر سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا جب کہ آپ کے سامنے سدرۃ المنتہی کا ذکر کیا گیا۔ (2) فرمایا :” ایک سوار اس کی ایک ٹہنی کے سائے میں سو سال تک چلتا ہے یا اس کے سائے سے سو سال سوار سایہ حاصل کرتے ہیں “ یحییٰ کو شک ہوا ہے۔ ” اس میں سونے کے پتنگ ہوں گے گویا اس کا پھل مٹکے ہیں۔ “ ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث حسن ہے۔ میں کہتا ہوں : اسی طرح مسلم کے الفاظ ہیں جو ثابت کی حدیث میں ہے جو حضرت انس سے مروی ہے ” پھر مجھے سدرۃ المنتہی کی طرف سے لجایا گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے اوراق ہاتھی کے کانوں جیسے ہیں (3) اس کے پھل مٹکوں جیسے ہیں جب اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم اس پر غالب آجاتا ہے تو اس میں تغیر آجاتا ہے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی بھی چیز یہ طاقت نہیں رکھتی کہ اس کے حسن کی تعریف کرے۔ “ اس میں اختلاف کیا گیا ہے کہ اس کا نام سدرۃ المنتہی کیوں ہے ؟ (1) جس طرح پہلے گزرا ہے حضرت ابن مسعود سے روایت مروی ہے کہ اوپر سے جو چیز نیچے آتی ہے اور نیچے سے جو چیز اوپر جاتی ہے وہ یہاں آ کر رک جاتی ہے۔ (2) انبیاء کا علم یہاں آکر ختم ہوجاتا ہے اور ماوراء کا علم ان سے غائب ہوجاتا ہے، یہ حضر ابن عباس کا قول ہے۔ (3) اعمال یہاں تک پہنچتے ہیں اور انہیں لے لیا جاتا ہے، یہ ضحاک کا قول ہے۔ (4) ملائکہ اور انبیاء یہاں پہنچتے ہیں اور اس کے پاس رک جاتے ہیں، یہ کعب کا قول ہے۔ (5) اسے سدرۃ المنتہی اس لئے کہتے ہیں کیونکہ مومنوں کی روحیں یہاں آ کر رک جاتی ہیں، یہ ربیع بن انس کا قول ہے۔ (6) یہاں مومنوں کی روحیں پہنچتی ہیں، یہ قتادہ کا قول ہے۔ (7) جو آدمی حضرت محمد ﷺ کی سنت اور منہاج پر ہوتا ہے وہ یہاں تک پہنچتا ہے، یہ حضرت علی شیر خدا اور ربیع بن انس کا بھی قول ہے۔ (8) یہ حاملین عرش کے سروں پر ایک درخت ہے یہاں تک مخلوقات کا علم پہنچتا ہے، یہ کعب کا قول ہے (1) میں کہتا ہوں : اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے یہ ارادہ کیا کہ اس کی بلندی اور شاخوں کی چوٹی عاملین عرش کے سروں سے بلند ہے اس کی دلیل پہلے گزر چکی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان میں ہے اور اس کی شاخوں کی بلندی ساتویں آسمان میں ہے پھر وہ اس سے بلند ہوئیں تو وہ حاملین عرش کے سروں سے بڑھ گئیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ (9) اسے یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ جسے اس کی طرف بلند کیا گیا تو وہ کرامت میں اپنی انتہا تک جا پہنچا۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے (2) جب رسول اللہ ﷺ کو معراج کر ایء گی تو آپ سدرۃ المنتہی تک جا پہنچے تو آپ سے عرض کی گئی :” ہر کوئی یہاں آ کر رک جاتا ہے سوائے ان لوگوں کے جو آپ ﷺ کی امت میں سے آپ ﷺ کی سنت پر ہوں گے۔ یہ ایسا درخت ہے جس کی جڑ سے ایسے پانی کی نہریں نکلیں گی جو بدبو دار نہیں ہوگا، ایسے دودھ کی نہریں جاری ہوں گی جن کا ذائقہ نہیں بدلے گا، شراب کی ایسی نہریں جاری ہوں گی جو پینے والوں کے لئے لذت کا باعث ہوں گی اور مصفی شہید کی نہریں جاری ہوں گی۔ یہ ایسا درخت ہے کہ ایک تیز رفتار سوار ایک سو سال تک اس کے سائے میں چلتا رہے گا اور اس کو طے نہ کرسکے گا اس کا ایک پتہ پوری امت کو سایہ دے گا۔ “ اسے ثعلبی نے ذکر کیا ہے۔ عندھا جنۃ الماوی۔ جنت ماوی کی جگہ کی تعریف ہے یہ سدرۃ المنتہی کے پاس ہے حضرت علی شیر خدا، حضرت ابوہریرہ، حضرت انس، ابوسبرہ جہنی، حضرت عبداللہ بن زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین اور مجاہد نے عندھا جنۃ الماوی پڑھا ہے مراد ہے جنۃ المبیت رات گزارنے کی جنت۔ مجاہد نے کہا : مراد لیا ہے اجنہ ھاء ضمیر نبی کریم ﷺ کے لئے ہے۔ اخفش نے کہا : معنی ہے اس نے اسے پا لیا، جس طرح تو کہتا ہے جنہ اللیل اسے ڈھانپ لیا اور اسے پا لیا۔ عام قرأت جنۃ الماوی ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : یہ وہ جگہ ہے جہاں تک متقین پہنچتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جاں تک شہداء کی روحیں پہنچتی ہیں (3) ، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ یہ عرش کی دائیں جانب ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ وہ جنت ہے جس میں حضرت آدم (علیہ السلام) ٹھہرے تھے یہاں تک کہ آپ کو اسی سے نکالا گیا۔ یہ ساتویں آسمان میں ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تمام مومنوں کی روحیں جنۃ ماوی میں ہیں۔ اسے جنۃ ماوی اس لئے نام دیا گیا ہے کیونکہ مومنوں کی روحیں یہاں پناہ لیتی ہیں۔ یہ عرش کے نیچے ہے۔ اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتی ہیں اور اس کی عمدہ خوشبو سے مشام جان کو معطر کرتی ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت جبرئیل امین اور حضرت میکائیل (علیہما السلام) یہاں پناہ لیتے ہیں۔ اذیغشی السدرۃ مایغشی۔ حضرت ابن عباس، ضحاک، حضرت ابن مسعود اور ان کے اصحاب نے کہا : وہ سونے کے پلنگ ہوں گے۔ حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس نے نبی کریم ﷺ سے ایک روایت بھی نقل کی ہے صحیح مسلم میں حضرت ابن مسعود سے اس کا قول پہلے گزر چکا ہے (1) حضرت حسن بصری نے کہا، اسے رب العالمین نے ڈھانپ لیا تو وہ روشن ہوگیا۔ قشیری نے کہا، رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا اسے کس چیز نے ڈھانپ رکھا ہے ؟ فرمایا :” سونے کے پتنگوں نے۔ “ دوسری روایت میں ہے : اللہ تعالیٰ کے نور نے اسے ڈھانپ رکھا ہے یہاں تک کہ کوئی طاقتن ہیں رکھتا کہ وہ اسے دیکھے۔ “ ربیع بن انس نے کہا، اسے رب کے نور نے ڈھانپ رکھا ہے فرشتے اس پر اس طرح گرتے ہیں جس طرح کوے درخت پر گرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ سے ایک روایت مروی ہے ” میں نے سدرہ کو دیکھا جسے سونے کے پتنگوں ( تتلیاں وغیرہ) نے ڈھانپ رکھا ہے میں نے اس کے ہر پتے پر ایک فرشتے کو دیکھا جو کھڑے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا تھا (2) اللہ تعالیٰ کے فرمان اذ یغشی السدرۃ مایغشی۔ کا یہی معنی و مفہمو ہے ‘ اسے مہدوی اور ثعلبی نے ذکر کیا ہے۔ حضرت انس بن مالک نے کہا : اذ یغشی السدرۃ مایغشی۔ کا معنی ہے سونے کی چڑیا۔ اسے مرفوع بھی روایت کیا ہے۔ مجاہد نے کہا : وہ سبز رفرف ہے نیب کریم ﷺ سے یہ مروی ہے ” اسے رفرف یعنی سبز پرندوں نے ڈھانپا ہوا ہے۔ “ حضرت ابن عباس سے مروی ہے : اسے رب العزت نے ڈھانپ رکھا ہے۔ یہاں رب العزت سے مراد اس کا حکم ہے جس طرح صحیح مسلم میں مرفوع روایت ہے :” جب اللہ تعالیٰ کے امرنے اسے ڈھانپ رکھا ہے۔ یہاں رب العزت سے مراد اس کا حکم ہے جس طرح صحیح مسلم میں مرفوع روایت ہے :” جب اللہ تعالیٰ کے امر نے اسے ڈھانپ لیا جو ڈھانپ لیا۔ “ (3) ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ امر کی عظمت بیان کرنے کے لئے ہے گویا فرمایا : جب سدرہ کو ڈھانپ لیا ملکوت کے ان دلائل نے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ کیا : اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فاوحی الی عبدہ ما اوحی۔ والموتفکۃ اھوی۔ فغشھا ما غشی۔ اسی کی مثل الحآقۃ۔ ما الحآقۃ۔ (الحاقہ : 2-1) ہے ماوروی نے اپنی کتاب معانی القرآن میں کہا، اگر یہ سوال کیا جائے اس امر کے لئے سدرہ (بیری کے درخت) کو کیوں منتخب کیا گا ہے کسی اور درخت کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا ؟ اسے جواب دیا جائے گا : سدرۃ تین اوصاف کے ساتھ خاص ہے لمبا سایہ، عمدہ ذائقہ، اچھی خوشبو۔ یہ اس ایمان کے مشابہ ہے جو قول، عمل اور نیت کو جامع ہے۔ سدرہ کا سایہ ایمان کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو عمل کی ہوا کرتی ہے کیونکہ وہ ایمان پر زائد وہتا ہے، سدرہ کا ذائقہ نیت کے قائم مقام ہے کیونکہ وہ مخفی ہوتی ہے اور اس کی خوشبو قول کے قائم مقام ہے کیونکہ وہ ظارہ ہوتا ہے۔ ابو دائود نے اپنی سنن میں یہ روایت نقل کی ہے کہ نصر بن علی، ابو اسامہ سے وہ ابن جریج سے وہ عثمان بن ابی سلیمان سے وہ سعید بن محمد بن جبیر بن مطعم سے وہ عبدلالہ بن حبشی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : من قطع سدرۃ صوب اللہ راسہ فی النار (4) ابو دائود سے اس حدیث کے معنی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : یہ حدیث مختصر ہے اس سے مراد ہے جس نے جنگل سے بےمقصد اور ظلما ایسا درخت کاٹا مسافر اور چوپائے جس کا سایہ حاصل کرتے تھے اس کاٹنے والے کا اس درخت میں کوئی حق نہیں تھا اللہ تعالیٰ اس کا سر جہنم میں جھکائے گا۔
Top