Al-Qurtubi - An-Najm : 18
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى
لَقَدْ رَاٰى : البتہ تحقیق اس نے دیکھیں مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ : اپنے رب کی نشانیوں میں سے الْكُبْرٰى : بڑی بڑی
انہوں نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کی کتنی ہی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں
لقد رای من ایت ربہ الکبری۔ حضرت ابن عباس نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے رفرف دیکھا جس نے افق کو بند کردیا تھا (2) بیہقی نے حضرت عبداللہ سے روایت نقل کی ہے حضرت عبداللہ نے کہا : آپ ﷺ نے سبز رفرف دیکھا جس نے آسمان کے افق کو بند کردیا تھا۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرئیل امین کو سبز رفرف کے حلہ میں دیھکا جنہوں نے آسمان اور زمین کے درمیان کو بھر دیا تھا۔ بیہقی نے کہا، اس کا حدیث میں قول رای رفرفا اس سے مراد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ہیں جو رفرف میں اپنی صورت میں تھے۔ رفرف سے مراد قالین ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے، مراد ستر ہے۔ یہ بھی کہا اجتا ہے، بلکہ وہ ایک کپڑا تھا جو ان کا لباس تھا۔ یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت جبرئیل کو رفرف کے حلہ میں دیکھا تھا۔ میں کہتا ہوں : اسے ترمذی نے حضرت عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبریل امین کو رفرف کے حلہ میں دیکھا جس نے آسمان اور زمین کو بھر دیا تھا (3) کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابن عباس سے دنا فتدلی کے بارے میں یہ قول مروی ہے کہ اس میں قدیم و تاخیر ہے یعنی لیلتہ المعراج کو رفرف حضرت محمد ﷺ کے لئے نیچے آیا آپ ﷺ اس پر بیٹھے پھر اسے بلندی کی طرف لے جایا گیا تو آپ اپنے رب کے قریب ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جبرئیل امین مجھ سے الگ ہوگئے، آوازیں مجھ سے منقطع ہوگئیں اور میں نے اپنے رب کا کلام سنا۔ “ اس روایت کی وجہ سے رفرف وہ چیز ہوگی جس پر بیٹھا جاتا ہے جس طرح قالین وغیرہ۔ پہلے معنی کی صورت میں مراد حضرت جبریل امین ہیں۔ عبدالرحمٰن بن زید اور مقاتل بن حیان نے کہا : نبی کریم ﷺ نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اس صورت میں دیکھا جس صورت میں وہ آسمان میں ہوتے ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ سے روایت مروی ہے کہ لقد رای من ایت ربہ الکبری۔ سے مراد ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت جبریل امین کو اس صورت میں دیکھا جس کے چھ سو پر ہوتے ہیں (4) اس تاویل کے باوجود یہ کوئی بعید نہیں کہ وہ رفرف کے حلہ میں ہوں یا رفرف پر ہوں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ضحاک نے کہا : سدرۃ المنتہی کو دیکھا۔ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے : سونے کے پتنگوں نے سدرہ کو جو ڈھانپ رکھا تھا اسے دیکھا، یہ ماوردی نے بیان کیا ہے (2) ایک قول یہ کیا گیا ہے : معراج (سیڑھی) کو دیکھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد ہے جو اس سفر میں لوٹتے وقت اور شروع کرتے وقت دیکھا۔ یہ تعبیر بہت اچھی ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : لنریہ من ایتنا (الاسرائ : 1) یہ جائز ہے کہ من بعضیہ ہو اور الکبری، رای کا مفعول ہو۔ اصل میں یہ آیات کی صفت ہے آیات کے سروں کی وجہ سے اسے واحد ذکر کیا۔ یہ بھی جائز ہے کہ جماعت کی صفت، مئونث کی صفت کے ساتھ لگائی جائے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ولی فیھا مارب اخری۔ (طہ) ایک قول یہ کیا گیا ہے : الکبری یہ محذوف کی صفت ہے یعنی رای من آیات ربہ الکبری یہ بھی جائز ہے کہ من زائدہ ہو تقدیر کلام یہ ہوگی رای آیات ربہ الکبری۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس میں تقدیم و تاخیر ہے، تقدیر کلام یہ ہے رای الکبری من آیات ربہ۔
Top