Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 19
مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِۙ
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ : اس نے چھوڑ دیا دو سمندروں کو يَلْتَقِيٰنِ : کہ دونوں باہم مل جائیں
اسی نے دو دریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں
مرج البحرین یلتقین۔ بینھا برزخ لایبغین۔ مرج کا معنی چھوڑ دینا ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : مرج السطان النسا جب بادشاہ نے لوگوں کو مہمل چھوڑ دیا۔ مرج کا اصل معنی مہمل چھوڑنا ہے جس طرح جانوروں کو چراگاہ میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے : مرج یعنی خلط ملط کردیا۔ اخفش نے کہا، ایک قومی کہتی ہے امرج البحیرن یہ مرج کی طرح ہے فعل اور افعل ایک معنی میں ہے۔ البحرین حضرت ابن عباس نے کہا : آسمان کا سمندر اور زمین کا سمندر (1) ، یہ مجاہد اور سعید بن جبیر کا قول ہے۔ یلتقین وہ ہر سال میں ملتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : دونوں کے کنارے ملتے ہیں (2) حضرت حسن بصری اور قتادہ نے کہا : فارس اور روم کا سمندر (3) ابن جریج نے کہا : مراد نمکین سمندر اور میٹھے دریا (4) ایک قول یہ کیا گیا ہے : مشرق و مغرب کے سمندر جن کے کنارے ملتے ہیں (5) ایک قول یہ کیا گیا ہے لو لو اور مرجان کا سمندر (6) بینھا برزخ دونوں کے درمیان آڑے۔ پہلے قول کے مطابق جو زمین و آسمان کے درمیان ہے، یہ ضحاک کا قول ہے۔ دوسرے قول کے مطابق وہ زمین ہے جو دونوں کے درمیان وے وہ حجاز ہے، یہ حضرت حسن بصری اور قتادہ کا قول ہے۔ ان دونوں کے علاوہ جو اقوال ہیں ان میں حاجز سے مراد قدرت الٰہیہ ہے جس طرح سورة فرقان میں گزرا ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے نبی کریم ﷺ کا اشراد مروی ہے : اللہ تعالیٰ نے مغربی کنارہ سے کلام فرمایا فرمایا : میں تجھ میں ایسے بندے بنانے والا ہوں جو تسبیح کریں گے، تکبیر کہیں گے، لا الہ الا اللہ کہیں گے اور میری حمد کریں گے تو ان کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا ؟ اس نے عرض کی : اے میرے رب ! میں انہیں غرق کر دوں گا۔ فرمایا : میں انہیں اپنے ہاتھ میں اٹھا لوں گا اور تیری قوت کو تیری اطراف میں رھ دوں گا۔ پھر شمرقی کنارہ سے گفتگو کی۔ فرمایا، میں تجھ میں اپنے ایسے بندے پیدا کرنے والا ہوں جو میری تسبیح کریں گے، میری کبریائی بیان کریں گے، لا الہ الا اللہ پڑھیں گے، میری بزرگی بیان کریں گے تو ان کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا ؟ عرض کی : میں ان کے ساتھ تیری تسبیح بیان کروں گا جب وہ تیری تسبیح بیان کریں گے، میں تیری کبریائی بیان کروں گا جب وہ تیری کبریائی بیان کریں گے، جب وہ تیری الوہیت بیان کریں گے تو میں تیری الوہیت بیان کروں گا، میں ان کے ساتھ تیری بزرگی بیان کروں گا جب وہ تیری بزرگی بیان کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے زیور عطا فرمایا اور دونوں کے درمیان رکاوٹ پیدا کردی۔ ان میں سے ایک سخت کھاری ہوگیا اور دوسرا اپنی اصل حالت پر میٹھا رہا۔ “ ترمذی حکیم ابو عبداللہ نے اس خبر کا ذکر کیا۔ کہا : صالح بن عبدلالہ نے قاسم عمری سے وہ سہیل سے وہ اپنے باپ سے وہ حضتر ابوہریرہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ لایبغین قتادہ نے کہا، وہ لوگوں پر بغاوت نہیں کرتے کہ انہیں غرق کردیں (7) ان دونوں اور لوگوں کے درمیان اس نے خشکی بنا دی ہے۔ ان سے اور مجاہد سے یہ مروی ہے ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر بغاوت نہیں کرتا کہ اس پر غالب آجائے۔ ابن زید نے کہا کہ لایبغین کا معنی ہے وہ بغاوت نہیں کرتے کہ ایک دوسرے کو ملیں (8) تقدیر کلام یہ ہے مرج البحرین یلتقیان اگر ان کے درمیان رکاوٹ نہ بھی ہوتی تو وہ ملاقات کرنے کے لئے بغاوت نہ کرتے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : دنیا اور آخرت میں جو آڑ ہے یعنی ان کے درمیان ایک موت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا ہے۔ یہ دنیا کی موت ہے وہ ایک دوسرے پر بغاوت نہیں کریں گے۔ جب اللہ تعالیٰ دنیا کے ختم ہونے کا اذن دے گا تو دونوں سمندر ایک ہوجائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے : واذا البحار فجرت۔ (الانفطار) سہل بن عبداللہ نے کہا : وہ سمندروں سے مراد خیر اور شرکا راستہ ہے، برزخ سے مراد توفیق اور عصتم ہے (1)
Top