Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 26
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا : سب کے سب جو اس پر ہیں فَانٍ : فنا ہونے والے ہیں
جو مخلوق زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے
کل من علیھا فان۔ علیھا میں ضمیر الارض کے لئے ہے سورت کے آغاز میں اس کا ذکر ہوا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (الرحمن) ایک جملہ یہ بولا جاتا ہے : میں ضمیر سے مراد زمین لیتے ہیں اگرچہ اس کا پہلے ذکر نہ ہوا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا جب یہ آیت نازل ہوئی فرشتوں نے کہا : اہل زمین ہلاک ہوگئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (القصص 88) ملائکہ کو ہلاکت کا یقین ہوگیا یہ مقاتل کا قول ہے : مخلوق کے فنا ہونے میں نعمت یہ ہے کہ موت میں سب کو سبرابر کردیا اور موت کے ساتھ تمام قدم برابر ہوجاتے ہیں ایک قول یہ کیا گیا ہے نعمت کی صورت یہ ہے کہ موت دار جزا اور ثواب کی طرف منتقل ہونے کا سبب ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ باقی رہے گا وجہ سے مراد اس کا وجود اور اس کی ذات ہے شاعر نے کہا اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر موتوں کا فیصلہ کردیا تو اس کے سوا ہر شے فانی ہے۔ یہ وہ تعبیر ہے جسے ہمارے محقق علماء یعنی ابن فورک، ابو معالی اور دوسروں نے اختیار کیا ہے حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : وجہ سے مراد اس کی ذات ہے جس طرح فرمایا : (الرحمن) ابو معالی نے کہا : وجہ سے مراد ہمارے آئمہ کے نزدیک وجود باری تعالیٰ ہے ہمارے مشائخ نے اسے ہی پسند کیا ہے اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے (البقرہ 115) میں گزر چکی ہے ہم نے اسے کتاب الاسنی میں مفصل ذکر کردیا ہے قشیری نے کہا : ایک قوم کا نقطہ نظر ہے یہ ذات پر زائد صفت ہے جس کی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ جسے اکرام سے نوازنے کا ارادہ کرتا ہے اس پر توجہ اسی صفت سے حاصل ہوتی ہے صحیح یہ ہے کہ وجہ سے مراد اس کا وجود اور اس کی ذات ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے اس کا ظہور اس کے ادلہ کے ساتھ باقی رہے گا جس طرح انسان کا ظہور اس کے چہرے کے ذریعے ہوتا ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے وہ جہت باقی رہے گا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے گا جلال سے مراد اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی کبریائی ہے اور صفات مدح کا مستحق ہوتا ہے یہ کہا جاتا ہے یعنی چیز عظیم ہوگئی جلللتہ میں نے اس کی عظمت کو بیان کیا ہے اجلال یہ جل کا اسم ہے (وہ اس کا اہل ہے کہ اس کی ان چیزوں سے عظمت بیان کی جائے جو اس کے مناسب نہ ہو جیسے شرک جس طرح تو کہتا ہے اس معنی میں اکرا الابنیاء و الا اولیاء کا لفظ ہے۔ ہم نے ان دونوں اسماء کے بارے میں کتاب الاسنی میں مفصل بحث کی ہے۔ حضرت انس نے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کے … کے ساتھ دعا کو لازم پکڑو (1) ۔ یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ یہ حضرت ابن مسعود کا قول ہے معنی ہے دعا میں اسے لازم پکڑوں ابو عبید نے کہا : الفاظ کا معنی شے کو لازم پکڑنا ہے اور اس پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے الفاظ کا معنی اصرار کرنا ہے سعید بن مقبری سے مروی ہے ایک آدمی نے اصرار کیا وہ کہنے لگا نور سے ندا کی گئی ہے میں نے سن لیا تیری کیا حاجت ہے ؟
Top