Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 33
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْا١ؕ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍۚ
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ : اے گروہ جن و انس اِنِ اسْتَطَعْتُمْ : اگر تم استطاعت رکھتے ہو اَنْ تَنْفُذُوْا : کہ تم نکل بھاگو مِنْ اَقْطَارِ : کناروں سے السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کے وَالْاَرْضِ : اور زمین کے فَانْفُذُوْا ۭ : تو بھاگ نکلو لَا تَنْفُذُوْنَ : نہیں تم بھاگ سکتے اِلَّا بِسُلْطٰنٍ : مگر ساتھ ایک زور کے
اے گروہ جن و انس ! اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور زور کے سوا تم نکل سکنے ہی کے نہیں
سنفرغ لکم ایھا الثقلن۔ یوں کہا جاتا ہے : میں نے اپنی کوششیں خرچ کیں۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا کام نہیں جس سے فارغ ہو۔ اس کا معنی ہے ہم تمہیں جزا دینے اور تمہارا حساب لینے کا ارادہ کرتے ہیں۔ یہ ان کے لئے دھمکی ہے جس طرح جب کوئی دھمکی کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے : یعنی میں تیرا قصد کرتا ہوں۔ فرغ قصد کے معنی میں ہے۔ ابن انباری نے اس کی مثل معاملہ میں پڑھا : خبردار ! اب میں نے نمیر کا قصد کیا۔ نحاس نے کہا : میں نے بیٹری میں قید غلام کا قصد کیا۔ حدیث میں ہے نبی کریم ﷺ نے جب لیلۃ العقبہ کو انصار سے بیعت لی شیطان نے چیخ ماری : میں مقیم لوگو ! یہ مذمم (نعوذ باللہ) تمہارے خلاف جنگ کرنے کے لئے بنی قبلہ سے بیعت لے رہا ہے تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” یہ عقبہ کا شیطان ہے خبردار ! اللہ کی قسم ! اے اللہ کے دشمن ! لاتفرغن لک میں تیرے معاملہ کو باطل کرنے کا قصد کرتا ہوں “ (2) یہ قتبی ‘ کسائی اور دوسرے علماء کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے پر وعدہ کیا اور فجور پر دھمکی دی ‘ پھر فرمایا ہم نے تم سے جو وعدہ کیا ہے اس کا قصد کریں گے اور جس سے ہم نے جو وعدہ کیا ہوگا ہر ایک تک وہ پہنچائیں گے یعنی میں اسے تقسیم کرتا ہوں اور اس سے فارغ ہوتا ہوں ‘ یہ حسن بصری ‘ مقاتل اور ابن زید کا قول ہے۔ حضرت عبداللہ اور حضرت ابی نے سنفرع الیکم پڑھا ہے۔ اعمش اور ابراہیم نے اسے سیفرغ لکم پڑھا ہے یا پر ضمہ اور راء پر فتحہ ہے یہ مجہول کا صیغہ ہے۔ ابن شہاب اور اعرج نے سنفرغ لکم پڑھا ہے یعنی نون اور راء مفتوح ہے۔ کسائی نے کہا : یہ تمیم کی لغت ہے وہ کہتے فرغ یفرغ اور فرغ یفرغ بھی حکایت کیا ہے دونوں کو ہیرہ نے حجص سے انہوں نے عاصم سے روایت کیا ہے۔ جعفی نے ابو عمر و سے سیفرغ یا اور راء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن ہرمز سے بھی روایت کی گئی ہے۔ عسیٰ ثقفی سے سنفرغ لکم یعنی نون کے کسرہ اور راء کے فحہ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔ حمزہ اور کسائی نے سیفرغ لکم یاء کے ساتھ پڑھا ہے باقی قراء نے نون کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ تہامہ کی لغت ہے۔ ثقلان سے مراد جن و انس ہے۔ ان دونوں کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ زمین میں جو بھی مخلوق ہے ان کی بنسبت ان دونوں کو عظمت شان حاصل ہے کیونکہ انہیں احکامکا مکلف بنایا گیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : انہیں یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ یہ زندہ اور مردہ حالت میں زمین پر بوجھ ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (الزلزال) اس معنی میں ان کا قول ہے اعطہ ثقلہ ثقل کا معنی وزن ہے۔ بعض اہل معانی نے کہا : ہر شی جس کی قدر اور وزن ہو جس میں مقابلہ کیا جاتا ہو تو وہ ثقل ہوتا ہے اس وجہ سے شتر مرغ کے انڈے کو ثقل کہتے ہیں کیونکہ اس کو پانے والا اور اس کو شکار کرنے والا جب اسے حاصل کرلیتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ امام جعفر صادق نے کہا : دونوں کو ثقلین کہا گیا کیونکہ دونوں گناہوں کی وجہ سے بوجھل ہوتے ہیں (1) فرمایا سنفرغ لکم ‘ کم ضمیر کو جمع ذکر کیا پھر فرمایا : ایۃ الثقلن کیونکہ دونوں فریق ہیں اور ہر فریق جمع ہے ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ان استعتب نہیں فرمایا کیونکہ یہ دونوں ایسے فریق ہیں جو جمع کی حالت میں ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (النمل) اور ارشاد ہے : ( الحج :19) اگر ارشاد ہوتا سنفرغ لکما اور استعتب تو یہ بھی جائز ہوتا۔ اہل شام نے پڑھا ایۃ الثقلان ھا کو ضمہ دیا باقی قراء نے اسے فتحہ دیا ہے۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ مسئلہ : یہ سورت ‘ احقاف اور قل اوحی اس امر پر دلیل ہیں کہ جن مخاطب ہیں مکلف ہیں ‘ مامور ہیں ‘ منہی ہیں انہیں ثواب دیا جائے گا ‘ انہیں سزا دی جائے گی ‘ وہ انسانوں کے برابر ہیں ‘ ان کا مومن انسانوں کے مومن کی طرح ہے ‘ ان کا کافر انسانوں کے کافر کی طرح ہے ‘ ہمارے اور ان کے درمیان کسی قسم کا فرق نہیں۔ ابن مبارک نے ذکر کیا ہے کہ ہمیں جویبر نے ضحاک سے ذکر کیا ہے کہ جب قیامت کا دن ہوگا اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کو حکم دے گا تو وہ اپنے مکینوں کے ساتھ پھٹ جائے گا اس کے فرشتے اس کی اطراف میں چلے جائیں گے یہاں تک کہ ان کا رب انہیں حکم دے گا تو وہ زمین کی طرف اتریں گے وہ زمین اور اہل زمین کو گھیر لیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کے قریبی آسمان کو حکم دے گا وہ اتریں گے تو پہلی صف کے پیچھے صف میں کھڑے ہوجائیں گے پھر تیسرے آسمان پھر چوتھے پھر پانچویں پھر چھٹے پھر ساتویں آسمان کو حکم دے گا ‘ پھر بلند ترین مرتبہ والا فرشتہ اترے گا جو بڑے جاہ و جلال میں ہوگا اس کی بائیں جانب جہنم ہوگی لوگ اس کی خوفناک آواز کو سنیں گے وہ زمین کی کسی طرف میں نہیں آئیں گے مگر وہاں فرشتوں کی صفیں پائیں گے اللہ تعالیٰ کے فرمان : کا یہی مطلب ہے۔ سلطان کا معنی عذر ہے۔ ضحاک نے بھی یہ کہا : اس اثناء میں کہ لوگ بازاروں میں ہوں گے آسمان کھل جائے گا ‘ فرشتے اتریں گے جن اور انسان بھاگیں گے فرشتے انہیں گھیر لیں گے اللہ تعالیٰ کے فرمان : لاتنفذون الا بسلطن سے یہی مراد ہے۔ میں کہتا ہوں : اس تاویل کی بناء پر یہ اس دنیا میں ہوگا۔ ابن مبارک نے جو ذکر کیا ہے وہ آخرت میں ہوگا۔ ضحاک سے یہ بھی مروی ہے : اگر تم طاقت رکھتے ہو تو موت سے بھاگو تو بھاگ جائو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسے جانو تو اسے جان لو (1) تم ہرگز نہیں جان سکو گے مگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے مبینہ کے ساتھ۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ کا معنی ہے مجھے تم پر جو غلبہ اور قدرت ہے اس وجہ سے تم نہ نکل سکو گے۔ قتادہ نے کہا : تم ملک کے بغیر نہیں نکل سکو گے جب کہ تمہارے لئے کوئی ملک نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد ہے اس میں باء الی کے معنی میں ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (یوسف :100) یہاں بی الی کے معنی میں ہے : شاعر نے کہا : میں بنا الینا کے معنی میں ہے۔ ہمارے ساتھ برا سلوک کر یا اچھا سلوک کر کوئی ملامت نہ ہوگی ایک قول یہ کیا گیا ہے فانفذو اعجز بیان کرنے کے لئے امر کا صیغہ ذکر کیا گیا : (2) اگر تم نکلتے تو تم پر آگ کا شعلہ بھیجا جاتا اور تمہیں ایسا عذاب اپنی گرفت میں لے لیتا جو باہر نکلنے سے مانع ہوتا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کلام کا تعلق باہر نکلنے سے نہیں بلکہ یہ خبر دی کہ وہ نافرمانوں کو آگ کے ساتھ عذاب دے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد ہے تم نے اپنے رب کی نعمتوں کو جھٹلایا تو وہ تم پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑ دے گا یہ اس تکذیب کی سزا ہوگی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد ہے تم نے اپنے رب کی نعمتوں کو جھٹلایا تو وہ تم پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑ دے گا یہ اس تکذیب کی سزا ہوگی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مخلوقات کو فرشتوں کے ساتھ اور آگ کی زبان کے ساتھ گھیر لیا جائے گا پھر انہیں ندا کی جائے گی۔ : حضرت ابن عباس اور دوسرے علماء کے نزدیک شواظ سے مراد ایسا شعلہ ہے جس میں دھواں نہ ہو۔ نحاس سے مراد ایسا دھواں جس میں شعلہ نہ ہو۔ اس معنی میں امیہ بن ابی صلت کا قول ہے وہ حضرت حسان بن ثابت ؓ کی ہجو کرتا ہے تفسیر ثلبی اور ماوردی بن ابی صلت میں ہے صحاح میں ہے اور ابن انباری کی الوقف والا بتدا میں ہے امیہ بن خلف نے کہا : وہ ہمیشہ شعلوں کو پھونکے مارتا تھا۔ حضرت حسان بن ثابت نے اسے جواب دیا۔ میں نے تیری ایسے اشعار سے ہجو کی جو شعلہ کی طرح بھڑک رہا ہے اور تو اس کے سامنے عاجزی کے ساتھ سر جھکا گیا۔ مجاہد نے کہا : شواظ سے مراد سبز شعلہ ہے جو آگ سے منقطع ہوجاتا ہے۔ (4) ضحاک نے کہا : ایسا دھواں جو شعلہ سے نکلتا ہے یہ مکڑی کا دھواں نہیں (5) یہ سعید بن جیر نے کہا ایک قول یہ کیا گیا : سے مراد آگ اور دھواں ہے یہ ابو عمرو کا قول ہے۔ اخفش نے اسے بعض عربوں سے اسے بیان کیا ہے۔ ابن کثیر نے شواظ پڑھا ہے۔ (6) باقیقراء نے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ دونوں لغتیں ہیں جس طرح مسوار اور ضوار گائیوں کے ریوڑ کو کہتے ہیں۔ ہے اس کا عطف شواظ پر ہے۔ ابن کثیر ‘ ابن محصین ‘ مجاہد اور ابو عمرو نے ونحاس جر کے ساتھ پڑھا ہے اس کا عطف النار پر ہے۔ مہدوی نے کہا : جس نے شواظ کا معنی ایسا شعلہ لیا ہے جس میں دھواں نہیں ہوتا تو وہ بہت ہی بعید ہے یہ اس وقت تک جائز نہیں ہوتا جب تک موصوف کو حذف نہ کیا جائے ‘ گویا کہا : کا لفظ شواظ پر معطوف ہے یہ ایسا جملہ ہے جو شی کی صفت ہے اور شی کو حذف کردیا گیا اور من کو حذف کیا گیا ہے کیونکہ اس کا ذکر فی نار میں گزر چکا ہے جس طرح علی ان کے قول میں مذوف محذوف ہے اس تعبیر کی بناء پر نحاس من محذوف کی وجہ سے مجرور ہوگا۔ مجاہد ‘ حمید ‘ عکرمہ اور ابو عالیہ نے ونحاس پڑھا ہے۔ یہ دونوں لغتیں ہیں جس طرح شواظ اور شواظ نحاس کا معنی طبیعت اور اصل بھی ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : اسی طرح نحاس بھی ہے یعنی وہ اچھے حسب والا ہے۔ مسلم بن جندب نے ونحس پڑھا ہے (1) حنظلہ بن مرہ بن نعمان انصاری نے ونحس ‘ نار پر عطف کرتے ہوئے پڑھا ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ نحاس کسرہ کے ساتھ ہو یہ نحس کی جمع ہے جس طرح صعب و صعاب ہے ونحس رفع کے ساتھ شواظ پر معطوف ہے حضرت حسن بصری سے ونحس ہے یہ نحس کی جمع ہے یہ بھی جائز ہے اس کی اصل و نحوس ہو اس کی وائو کو حذف کرکے قصر کا قاعدہ جاری کیا گیا جس طرح پہلے گزر چکا ہے۔ عبدالرحمن بن ابی بکرہ نے ونحس پڑھا ہے نون مفتوح ہے حاء مضموم ہے اور سین مشدد ہے یہ حس یحس حسا سے مشتق ہے جب وہ اسے جڑ سے اکھیڑ دے اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (آل عمران :152) ہم عذاب کے ساتھ قتل کریں گے پہلی قرأت کی بنا پر ونحاس وہ پگھلا ہوا تانبا ہے جو ان کے سروں پر بہایا جائے گا یہ مجاہد اور قتادہ کا قول ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور سعید بن جبیر سے یہ مروی ہے کہ نحاس سے مراوایسا دھواں ہے جس میں شعلہ نہیں ہوتا۔ خلیل کے قول کا یہی معنی ہے کلام عرب میں یہ اسی معنی کے ساتھ معروف ہے۔ نابغہ بن جعدہ نے کہا : وہ تلوں کے تیل کے چراغ کی روشنی کی روشنی دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس میں دھواں نہیں بنایا۔ اصمعی نے کہا : میں نے ایک بدو کو کہتے ہوئے سنا سلیط شام میں تلوں کے تیل کو کہتے ہیں اس میں دھواں نہیں ہوتا۔ مقاتل نے کہا : یہ پگھلے ہوئے تانبے کے پانچ دریا ہوں گے جو عرش کے نیچے سے جہنمیوں کے سروں پر بہہ رہے ہوں گے تین دریا رات کے برابر اور دو دریا دن کے برابر ہوں گے۔ حضرت ابن مسعود نے کہا : نحاس سے مراد سفید تانبا ہے۔ ضحاک نے کہا : ابالے گئے تیل کی تلچھٹ ہے۔ کسائی نے کہا : مراد ایسی آگ ہے جس پر سخت ہوا چل رہی ہوگی۔ یعنی وہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کریں گے مراد جن و انس ہیں۔
Top