Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 72
حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِۚ
حُوْرٌ : حوریں مَّقْصُوْرٰتٌ : ٹھہرائی ہوئیں۔ روکی ہوئیں فِي الْخِيَامِ : خیموں میں
(وہ) حوریں (ہیں جو) خیموں میں مستور (ہیں)
حور مقصودرت فی الخیام۔ حوریہ حوراء کی جمع ع ہے اس سے مراد ہے جس کی آنکھ کی سفیدی انتہا کی ہو ساتھ ہی ساتھ سیاہی بھی شدید ہو۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ مقصورت وہ محبوس ہوں گی اور خیموں میں پوشیدہ ہوں گی وہ گلیوں میں گھومتی پھرتی نہیں ہوں گی، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ حضرت عمر نے کہا، خیمہ ایسا موتی ہوگا جو اندر سے خالی ہوگا، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہا : یہ ایک فرسخ چوڑا ایک فرسخ لمبا ہوگا اس کے دروازے کے پٹ سونے کے ہوں گے۔ ترمذی حکیم ابوعبداللہ ناے حور مقصودرت فی الخیام۔ کے بارے میں کہا، ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ ایک باول نے عرش سے بارش برسائی تو حوریں رحمت کے قطرات سے پیدا کی گئیں پھر ان میں سے ہر ایک پر نہر کے کنارے خیمہ لگا دیا گیا جن کی وسعت چالیس میل ہوگی اس کا کوئی دروازہ نہ ہوگا یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ کا ولی جنت میں داخل ہوگا تو دروازہ سے خیمہ پھٹ جائے گا تاکہ اللہ تعالیٰ کے ولی کو علم ہوجائے کہ فرشتوں اور خدام کی نظریں اس تک نہیں پہنچیں، یہ خیموں میں بند ہیں انہیں مخلوقات کی نظروں سے محفوظ رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ پہلی دو جنتوں میں موجود حوروں کے بارے میں فرمایا : فیھن قصرت الطرف یعنی انہوں نے اپنی نظروں کو اپنے خاوندوں تک محدود کر رکھا ہے ان کے بارے میں یہ ذکر نہیں کہ وہ مقصود ہیں یہ اس امر پر دال ہے کہ خیموں میں بند اعلی و افضل ہیں۔ مجاہد نے کہا، مقصورت سے مراد یہ ہے انہیں اپنے خاوند تک محدود کردیا گیا ہے وہ ان کے علاوہ کا ارادہ نہیں کریں۔ صحاح میں ہے : قصرت الشی اقصرہ قصرا میں نے اسے محبوس کردیا۔ اسی سے لفظ مقصورۃ الجامع ہے۔ قصرت الشی علی کذایہ اس وقت بولتے ہیں جب تو اسے اسی چیز تک محدود کر دے غیر کی طرف تو اسے متجاوز نہ کرے۔ امراۃ قصیرۃ وقصورۃ مراد وہ عورت جو کمرے میں بند ہو اسے باہر نکلنے کی اجازت نہ ہو۔ حضرت انس سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں جنت میں ایک نہر کے پاس سے گزرا جس کے کناروں پر مر جان کے قبے تھے اس سے مجھے ندا کی گئی : السلام علیک یا رسول اللہ ! میں نے پوچھا : اے جبرئیل یہ کون ہیں ؟ حضرت جرئیل امین نے جواب دیا : یہ حورعین میں سے نوجوان عوتریں ہیں، انہوں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ وہ آپ کو سلام کہیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اجازت دے دی۔ انہوں نے کہا : ہم ہمیشہ رہیں گی، ہم کبھی بھی نہیں مریں گی، ہم نرم اندام ہیں، ہم سخت گیر نہیں، ہم راضی رہنے والیاں ہیں، ہم کبھی ناراض نہ ہوں گی۔ ہم معزعز خاوندوں کی بیویاں ہیں “ پھر نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی حور مقصورت فی الخیام۔ یعنی ہم محبوس ہیں یہ جس حفاظت اور کرامت کے لئے ہے۔ حضرت اسماء بنت یزید اشہلیہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی عرض کی : یا رسول اللہ ! ہم عورتیں ہیں محصور رہتی ہیں تمہارے گھروں کا سہارا ہیں، تمہاری اولادوں کو اپنے پیٹوں میں اٹھانے والی ہیں کیا ہم اجر میں تمہارے ساتھ شریک ہیں ڈ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’ دجب تم اپنے خاوندوں کے ساتھ حسن معاملہ کرو اور ان کی رضا کی طالب ہو۔ “
Top