Al-Qurtubi - Al-Hadid : 11
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ كَرِیْمٌۚ
مَنْ ذَا الَّذِيْ : کون ہے جو يُقْرِضُ اللّٰهَ : قرض دے گا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ فَيُضٰعِفَهٗ : پھر وہ دوگنا کرے گا اس کو لَهٗ : اس کے لیے وَلَهٗٓ اَجْرٌ : اور اس کے لیے اجر ہے كَرِيْمٌ : عزت والا
کون ہے جو خدا کو (نیت) نیک (اور خلوص سے) قرض دے ؟ تو وہ اس کو اس سے دگنا ادا کرے اور اس کے لئے عزت کا صلہ (یعنی) جنت ہے
( من ذالذی یقرض۔۔۔۔۔۔۔ ) من ذالذی یعرض اللہ قرضا حسنا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ سورة بقرہ میں اس بارے میں گفتگو گزر چکی ہے جو آدمی بھی کوئی اچھا عمل کرے عرب اس کے بارے میں کہتے ہیں : قد اعرض : شاعر نے کہا 1 ؎۔ مجمع الزوائد، کتاب الادب، توقیر الکبیر، جلد 8، صفحہ 33، حدیث 12610 2 ؎۔ جامع ترمذی، کتاب البروا لصلۃ، ما جاء ل الجلال الکبیر، جلد 2، صفحہ 23 واذا جو ریت قرضافا جزہ (1) جب تیرے ساتھ حسن سلوک کیا جائے تو اس کا بدلہ دے۔ اسے قرض کا نام دیا گیا کیونکہ قرض بدل واپس لینے کے لیے دیا جاتا ہے یعنی جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا بدل عطاء فرماتا ہے۔ کلبی نے کہا : قرض سے مراد صدقہ ہے، حسنا سے مراد وہ دل سے ثواب کی نیت رکھتا ہے وہ احسان جتلانے اور اذیت دینے کا کوئی ارادہ نہ رکھتا ہو۔ فیضعفہ یعنی سات گنا سے سات سو گنا تک جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے (2) قرض حسن سے مراد ہے کہ وہ اپنی زبان سے یہ کہے سبحان اللہ، الحمد اللہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، یہ سفیان نے ابو حیان سے روایت نقل کی۔ زید ابن اسلم نے کہا : مراد اپنے گھر والوں پر مال خرچ کرتا ہے (3) حضرت حسن بصری نے کہا : مراد نفلی عبادت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد عمل خیر ہے (4) عرب کہتے ہیں : لی عند فلان قرض و قرض سوء۔ قشیری نے کہا : قرض حسن سے مراد ہے صدقہ کرنے والا، سچی نیت اور پاکیزہ نفس سے صدقہ کرے وہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلب ہو وہ ریاکاری اور شہرت کا خواہش مند نہ ہو، وہ مال حلال کا ہو۔ قرض حسن یہ ہے کہ وہ ردی چیز کا قصد نہ کرے وہ اسے صدقہ کر دے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون ( البقرہ : 267) وہ اس وقت صدقہ کرے جب اسے زندگی کی امید ہو کیونکہ نبی کریم ﷺ سے بہترین صدقہ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا :” تو صدقہ کرے جب کہ تو صحت مند ہو، بخل موجود ہو، تو زندگی کی امید رکھتا ہو، تو اسے موخر نہ کیے رکھ یہاں تک کہ سانس ہنسلی کی ہڈی تک آپہنچے تو کہے فلاں کے لیے اتنا، فلاں کے لیے اتنا (5) وہ اپنے صدقہ کو مخفی رکھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” لا تبطلوا صدقتکم بالمن والاذی ( البقرہ : 264) وہ جو کچھ دے رہا ہے اسے حقیر جانے کیونکہ تمام دنیا قلیل ہے، جو مال دے وہ اس کا محبوبہ ترین مال ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ” لن تنالو البر حتیٰ تفقوا مما تحبون “ ( آل عمران : 92) وہ بہت زیادہ ہو کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” بہترین غلام وہ ہے جس کی قیمت زیادہ ہو اور مالکوں کے نزدیک زیادہ نفیس ہو “ (6) فیضعفہ ابن کبیر اور ابن عامر نے فیضعفہ پڑھا ہے یعنی الف کو ساقط کردیا مگر ابن عامر اور یعقوب نے فاء کو نصب دی ہے۔ نافع اور اہل کوفہ اور اہل بصرہ نے فیضاعفہ پڑھا ہے یعنی الف کے ساتھ اور عین کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے مگر عاصم نے فاء کو نصب دی ہے باقی قراء نے اسے موفوع پڑھا ہے یہ یقرض پر معطوف ہے۔ نصب کی صورت میں یہ استفہام کا جواب ہے۔ سورة بقرہ میں اس بارے میں قول مفصل گزر چکا ہے۔ ولہ اجر کریم۔ اس سے مراد جنت ہے۔ 1۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 472 2۔ ایضاً 3۔ ایضاً 4۔ ایضاً 5۔ صحیح بخاری، کتاب الزکوۃ، فضل صدقۃ الشیخ الصحیح، جلد 1، صفحہ 191، 190 6۔ موطا امام مالک، الصتق والولاء فضل عتق الرقاب و عتق الزانیۃ، صفحہ 542
Top