Al-Qurtubi - Al-Hadid : 18
اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ اَجْرٌ كَرِیْمٌ
اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ : بیشک صدقہ کرنے والے مرد وَالْمُصَّدِّقٰتِ : اور صدقہ کرنے والی عورتیں وَاَقْرَضُوا اللّٰهَ : اور انہوں نے قرض دیا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ يُّضٰعَفُ : دوگنا کیا جائے گا لَهُمْ : ان کے لیے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے اَجْرٌ كَرِيْمٌ : اجر ہے عزت والا
جو لوگ خیرات کرنے والے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی اور خدا کو (نیت) نیک (اور خلوص سے) قرض دیتے ہیں انکو دو چند ادا کیا جائے گا اور ان کے لئے عزت کا صلہ ہے
ان المصدقین و المصدقت ابن کثیر اور ابوبکر نے عاصم سے دونوں میں صاد کی تخفیف کے ساتھ کے ساتھ پڑھا ہے یہ تصدیق سے مشتق ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو نازل کیا اس کی وہ تصدیق کرتے ہیں باقی نے اسے تشدید کیساتھ پڑھا ہے۔ اصل میں یہ المتصدقین اور المتصدقات تھا تاء کو صاد میں مدغم کیا گیا ہے اسی وجہ سے فرمایا : واقرضوا اللہ قرضا حسناً صدقہ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے ساتھ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دیا۔ حضرت حسن بصری نے کہا، قرآن حکیم میں جہاں بھی قرض حسن کا ذکر ہے اس سے مراد نفل ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد عمل صالح ہے وہ صدقہ ہو یا کوئی اور صورت ہو جب کہ وہ ثواب کی نیت رکھتا ہو اور اپنی نیت میں سچا ہو۔ فعل کا عطف اسم پر کیا گیا ہے کیونکہ وہ اسم فعل کے حکم میں ہے مراد ہے ان الذین صدقوا و اقرضوا ہے۔ یضعف لھم انہیں اس کا کئی گنا عطا کیا جائے گا۔ عام قرأت عین کے فتحہ کے ساتھ ہے اور یہ فعل مجہول کا صیغہ ہے۔ اعمش نے اسے یضاعفہ پڑھا ہے۔ ابن کثیر، ابن عامر اور یعقوب نے یضعف پڑھا ہے۔ ولھم اجر کریم۔ مراد جنت ہے۔ (آیت) کے بارے میں اختلاف ہے کیا یہ مقابل سے مقطوع ہے یا متصل ہے ؟ مجاہد اور زید بن اسلم نے کہا، شہداء اور صدیقین ہیں مومنین ہیں اور یہ ماقل سے متصل ہے اسی کی ہم معنی روایت نبی کریم ﷺ سے مروی ہے۔ اس اعتبار سے الصدیقون پر وقف نہیں کیا جائے گا، آیت کی تاویل میں یہی حضرت ابن مسعود کا قول ہے۔ قشیری نے کہا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فائولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھدآء و الصلحین (النسائ : 69) صدیقین کا مرتبہ ہی انبیاء کے بعد ہوتا ہے، شہداء ہی وہ لوگ ہیں جو صدیقین کے بعد کا درجہ رکھتے ہیں اور صالحین کا درجہ شہداء کے بعد ہوتا ہے تو یہ جائز ہے کہ یہ آیت ان کے بارے میں ہو جنہوں نے رسولوں کی تصدیق کی میری مراد ہے والذین امنوا باللہ و رسولہ اولئک ھم الصدیقون والشھدآء تو شہداء کا معنی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیں۔ تو ایک صدیق دوسرے صدیق سے درجات میں بلند ہوگا جس طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” جنت اعلی کے مکین اپنے سے کم مرتبہ جنتیوں کو یوں دیکھیں گے جس طرح تم میں سے کوئی ستارے کو آسمان کے افق میں دیکھتا ہے ‘ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاورق ان میں سے اور فضیلت میں بڑھ کر ہیں۔ حضرت ابن مسعود اور مسروق سے روایت مروی ہے کہ شہداء صدیقین کے علاوہ ہیں۔ اس تاویل کی بناء پر شہداء ماقبل سے منفصل ہیں اور وقف اللہ تعالیٰ کے فرمان ال صدیقون پر اچھا ہے۔ والشھدآء عندربھم لھم اجرھم ونورھم کا معنی ہے ان کے لئے ان کے انفس کا اجر اور نور ہوگا۔ ان کے بارے میں دوق ول ہیں۔ (1) وہ رسل ہیں وہ اپنی امتوں کے بارے میں تصدیق اور تکذیب کی گواہی دیں گے۔ یہ کلبی کا قول ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے جئنابک علی ھولاً شھیداً ۔ (النسائ) (2) وہ رسولوں کی امتیں ہیں وہ قیامت کے روز تو گواہی دیں گے جس کے بارے میں گواہی دیں گے اس میں دو قول ہیں (1) وہ اپنے بارے میں گواہی دیں گے جو وہ طاعت و معصیت کا عمل کرتے رہے، یہ مجاہد کے قول کا معنی ہے (2) وہ انبیاء کے بارے میں گواہی دیں گے کہ انہوں اپنی امتوں کو رسالت کی تبلیغ کی، یہ کلبی کا قول ہے۔ مقاتل نے ایک تیسرا قول بھی کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے والے ہیں، اس کی مثل حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ نے اس سے مراد مومنوں کے شہید لئے ہیں۔ وائو ابتداء کی وائو ہے۔ اس قول کی بنا پر صیقین شہداء سے الگ ہیں ان کی تعیین میں اختلاف ہے۔ ضحاک نے کہا : وہ آٹھ افراد ہیں۔ حضرت ابوبر صدیق، حضرت علی شیر خدا، حضرت زید، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت حمزہ، حضرت عمر نے ان کی موافقت کی جب آپ نے نبی کریم ﷺ کی تصدیق کی اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے ساتھ ملا دیا۔ مقاتل بن حیان نے کہا، صدیقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو رسولوں پر ایمان لائے، آنکھ جھپکنے کے برابر بھی ان کی تکیذب نہ کی جس طرح آل فرعون کا مومن، صاحب آل یاسین، حضرت ابوبکر صدیق اور اصحاب اخدود (خندقوں والے) ۔ والذین کفرواو کذبوا بایتنا آیات سے مراد رسل اور معجزات ہیں اولئک اصحب الجحیم۔ ان کے لئے نہ اجر ہے اور نہ ہی نور ہے۔
Top