Al-Qurtubi - Al-Hadid : 22
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌۚۖ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ : سے مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ : اور نہ تمہارے نفسوں میں اِلَّا : مگر فِيْ كِتٰبٍ : ایک کتاب میں ہے مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ نَّبْرَاَهَا ۭ : کہ ہم پیدا کریں اس کو اِنَّ ذٰلِكَ : بیشک یہ بات عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : بہت آسان ہے
کوئی مصیبت ملک پر اور خود تم پر نہیں پڑتی مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے (اور) یہ (کام) خدا کو آسان ہے
ما اصاب من مصیبۃ فی الارض مقاتل نے کہا، مصیبت سے مراد قحط، نباتات اور پھلوں کی قلت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کھیتی میں آفات ہیں۔ ولا فی انفسکم مراد جو تمہیں ب یماریاں لاحق ہوتی ہیں، یہ قتادہ کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد حدود کا قائم کرنا ہے، یہ ابن حبان کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد معاش کی تنگی ہے۔ یہ وہ معنی ہے جسے ابن جریج نے روایت کیا ہے۔ الا فی کتب مراد لوح محفوظ ہے۔ من قبل ان نبراھا ھا ضمیر نفوس، الارض، المصائب یا سب کی طرف لوٹ رہی ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : معنی ہے قبل اس کے کہ وہ مصیبت کو پیدا کرے۔ سعید بن جبیر نے کہا : اس سے قبل کہ وہ زمین اور نفس کو پیدا کرے۔ ان ذلک علی اللہ یسیر۔ یعنی ان تمام چیزوں کو پیدا کرنا اور ان کی حفاظت کرنا اللہ تعالیٰ پر آسان ہے۔ ربیع بن سالم نے کہا، جب حضرت سعید بن جبیر کو پکڑ لیا گیا تو میں رونے لگا انہوں نے فرمایا : کس چیز نے تجھے رلایا ہے ؟ میں نے کہا، میں آپ کے ساتھ جو سلوک دیکھتا ہوں اور جس کی طرف آپ جا رہے ہیں اس کو دیکھ کر رو رہا ہوں۔ فرمایا : نہ رو اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ ایسا ہوگا کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتب من قبل ان نبراھا ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہا یٓت ماقبل کے ساتھ متصل ہے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اس امر کو آسان کردیا جو انہیں جہاد میں قتل اور زخم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس امر کی وضاحت کی کہ اموال کی مخافظت جو انہیں جاد سے روکتی ہے اور ان اموال میں جو نقصان وہا ہے سب مکتوب و مقدر ہے اس کو روکنے والا کوئی نہیں، بندے کے ذمہ امر کی اطاعت ہے۔ پھر انہیں ادب سکھایا تو یہ ارشاد فرمایا : لکیلا تا سوا علی مافاتکم یعنی تم سے جو رزق فوت ہوا ہے اس پر تم غمگین نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ جاتنے ہیں کہ رزق کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے تو ان کے ہاتھ سے جو چیز نکل چکی ہے اس پر وہ غمگین نہ ہوں گے۔ حضرت ابن مسعود سے روایت مروی ہے : لایجد احد کم طعم الایمان حتی یعلم ان ماصابہ لم یکن یخطئہ وما اخطاہ لم یکن لیصیبہ تم میں سے کوئی آدمی ایمان کا ذائقہ نہیں پا سکتا یہاں تک کہ وہ ہو یہ جان لے کہ اسے جو مصیبت پہنچی ہے وہ چھوٹنے والی نہ تھی اور جو نہیں پہنچی وہ پہنچنے والی نہ تھی۔ پھر لکیلاتا سوا علی مافاتکم کی قرأت کی۔ یعنی دنیا میں سے جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکل چکی ہے اس پر غمگین نہ ہو کیونکہ یہ تمہارے حق میں مقدر نہ تھی اگر تمہارے حق میں مقدر ہوتی تو وہ تم سے فوت ہوتی۔ ولاتفرجوا بما اتکم یعنی دنیا میں سے جو چیز تمہیں ملتی ہے اس پر خوش نہ ہو، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ حضرت سعید بن جبیر نے کہا : جو تمہیں عافیت اور خوشحلای ملی ہے۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے : کوئی آدمی نہیں مگر وہ غمگین بھی وہتا ہے اور خوش بھی ہوتا ہے۔ لیکن مومن اپنی مصیبت کو صبر اور غنیمت کو شکر بنا دیتا ہے۔ حزن اور خوش جن سے منع کیا گیا ہے وہ دونوں ایسی چیزیں ہیں جن میں ایسی چیز کی طرف تجاوز کیا جاتا ہے جو جائز نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : واللہ لایحب کل مختال فحور۔ اسے دنیا میں سے جو عطا کیا گیا ہے اس کے ساتھ تکبر کرنے والا ہے اور اس کے ذریعے لوگوں پر فخر کرتا ہے۔ عام قرأت آتاکم ہے یعنی الف مد کے ساتھ ہے یعنی اس نے تمہیں دنیا میں سے جو چیز عطا کی، ابو حاتم نے اسے پسند کیا ہے۔ ابوالعالیہ، نضر بن عاصم اور ابو عمرو نے اتاکم الف کے قصر کے ساتھ اسے پڑھا ہے ابوعبید نے اسے پسند کیا ہے معنی ہے جو تمہارے پاس آئے۔ یہ اتاکم، فاتکم کا معادل ہے۔ اسی وجہ سے افاتکم نہیں فرمایا۔ حضرت جعفر بن محمد صادق رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کا : اے انسان ! تجھے کیا ہوگیا ہے تو مفقود چیز پر غمگین ہوتا ہے یہ غم کرنا فوت شدہ چیز کو تیری طرف واپس نہیں لوٹائے گا اور موجود چیز پر خوش نہ ہو کیونکہ موت اسے تیرے ہاتھ میں نہ چھوڑے گی۔ بزر جمہر سے کہا گیا : اے حکیم ! تجھے کیا ہوگیا ہے تو فوت ہونے والی چیز پر غمگین نہیں ہوتا اور حاصل ہونے والی چیز پر خوش نہیں ہوتا ؟ اس نے جواب دیا : فوت ہونے والی چیز آنسوئوں سے نہیں ملتی اور آنے والی چیز خوشی سے باقی نہیں رہتی۔ حضرت فضیل بن عیاض نے اسی بارے میں کہا، دنیا ہلاک کرنے والی اور فائدہ پہنچانے والی ہے جس کو ہلاک کر دے وہ چیز لوٹنے والی نہیں اور جس کا فائدہ پہنچائے تو اس کے کوچ کا اعلان کرتی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : مختال اسے کہتے ہیں جو اپنی ذات کی طرف افتخار کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور فخورا سے کہتے ہیں جو لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ دو مشرک خفی ہیں فخور مصر اۃ کی طرح ہے جس کے تھنوں کو باندھا جاتا ہے تاکہ ان میں دودھ جمع ہوجائے اور مشتری کو وہم ہو کہ یہی اس کا معمول ہے اسی طرح وہ شخص جو اپنے اندرز ینت و جمال دیکھتا ہے اس کے ساتھ وہ اس کا دعویٰ بھی کرتا ہے تو اسے فخور کہتے ہیں۔
Top