Al-Qurtubi - Al-Hashr : 14
لَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ جَمِیْعًا اِلَّا فِیْ قُرًى مُّحَصَّنَةٍ اَوْ مِنْ وَّرَآءِ جُدُرٍ١ؕ بَاْسُهُمْ بَیْنَهُمْ شَدِیْدٌ١ؕ تَحْسَبُهُمْ جَمِیْعًا وَّ قُلُوْبُهُمْ شَتّٰى١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَۚ
لَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ : وہ تم سے نہ لڑینگے جَمِيْعًا : اکھٹے، سب مل کر اِلَّا : مگر فِيْ قُرًى : بستیوں میں مُّحَصَّنَةٍ : قلعہ بند اَوْ مِنْ وَّرَآءِ : یا پیچھے سے جُدُرٍ ۭ : دیواروں کے بَاْسُهُمْ : ان کی لڑائی بَيْنَهُمْ : ان کے آپس میں شَدِيْدٌ ۭ : بہت سخت تَحْسَبُهُمْ : تم گمان کرتے ہو انہیں جَمِيْعًا : اکھٹے وَّقُلُوْبُهُمْ : حالانکہ ان کے دل شَتّٰى ۭ : الگ الگ ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لئے کہ وہ قَوْمٌ : ایسے لوگ لَّا : نہیں يَعْقِلُوْنَ : وہ عقل رکھتے
یہ سب جمع ہو کر بھی تم سے (بالمواجہہ) نہیں لڑسکیں گے مگر بستیوں کے قلعوں میں (پناہ لے کر یا دیواروں کی اوٹ میں (مستعور ہو کر) ان کا آبس میں بڑا رعب ہے۔ تم شاید خیال کرتے ہو کہ یہ اکٹھے (اور ایک جان) ہیں مگر ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔ یہ اس لئے کہ یہ بےعقل لوگ ہیں۔
آیات۔ 14 تفسیر لا یقاتلونکم جمیعا وائو ضمیر سے مراد یہودی ہیں۔ الا فی قری محصنۃ وہ دیواروں اور گھروں کی اوٹوں میں رہتے ہوئے تم سے جنگ کریں گے وہ گمان کرتے ہیں کہ یہ دونوں چیزیں انہیں تم سے محفوظ رکھیں گی۔ اومن وراء جدر (دیواروں کے پچھے وہ وہ بزدلی اور خوف کی وجہ سے ان کے پیچھے چھپے ہیں۔ عام قرأ ت جدر ہے جو جمع کا صیغہ ہے ؛ یہ ابو عبیدہ اور ابو حاتم کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : فی قری محصنۃ کی طرح ہے۔ اور قری جمع کا صیغہ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد، ابن کثیر، ابن محیصن اور ابو عمرو نے جدار واحد کا صیغہ پڑھا ہے۔ مکہ کے ایک قاری نے اسے جدر پڑھا ہے یہ بھی جدار میں ایک لغت ہے یہ بھی جائز ہے کہ اس کا معنی ہو وہ اپنے باغوں اور درختوں کی اوٹ سے لڑیں۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : اجدر النخل جب موسم بہار میں کھجور کی کونپلیں پھوٹین جدر سے مراد بوٹی ہے، اس کی واحد جدرہ ہے اسے جدر پڑھا گیا ہے۔ جو جدار کی جمع ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس کے واحد میں الف اس طرح ہو جس طرح کتاب میں الف ہے اور جمع میں الف اس طرح ظراف میں الف ہے۔ اس کی نقل ناقۃ ھجان ونوق ھجان ہے کیونکہ تثنیہ میں ھجانان ہے پھر واحد اور جمع کا لفط لفظاً ایک دوسرے کے مشابہ اور معنی میں مختلف ہیں ؛ یہ ابن جنی نے قول کیا ہے۔ بایھم بینھم شدید یعنی ان کی ایک دوسرے کے حق میں عداوت شدید ہے۔ مجاہد نے کہا : معنی ہے وہ سخت گفتگو کرتے ہیں اور یوں دھمکیاں دیتے ہیں۔ لنفعلن کذا اسدی نے کہا : مراد ان کے دلوں کا اختلاف ہے وہ ایک امر پر متفق نہیں ہوتے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب دشمن سے ملاقات نہیں ہوتی تو وہ اپنے آپ کو شدت اور باس کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن جب دشمن سے ملاقات ہوتی تو شکست کھاجاتے ہیں۔ تحسبھم جمیعا وقلوبھم شی مراد یہود و منافقین ہیں ؛ یہ مجاہد کا قول ہے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد منافقین ہیں۔ ثوری نے کہا : مراد مشرک اور اہل کتاب ہیں۔ قتادہ نے کہا : تم ان کے بارے میں گمان کرو گے کہ وہ ایک امر اور رائے پر مجتمع ہیں جبکہ ان کے دل مختلف ہیں۔ اہل باطل کی آراء مختلف ہیں ان کی شہادتیں مختلف ہیں، ان کی خواہشات مختلف ہیں اور وہ اہل حق کی عداوت میں مجتمع ہیں۔ مجاہد سے یہ بھی مروی ہے : یہ ارادہ کیا کہ منافقین کا دین، یہودیوں کے دین کے خلاف ہے۔ یہ اس لئے واضح کیا تاکہ ان کے خلاف مومنوں کے دل قوی ہوجائیں : شاعر نے کہا : ھی الیوم شتی وھی امس جتمع وہ آج مختلف ہے اور وہ کل مجتمع تھی۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی قرأت میں وقلوبھم اثبت ہے یعنی ان کے دل اختلاف میں بہت شدید ہیں۔ ……۔ ان میں یہ اختلاف اور کفر اس وجہ سے ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے، اس کی مدد سے اللہ تعالیٰ کے امر کو نہیں سمجھتے۔
Top