Al-Qurtubi - Al-An'aam : 119
وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ قَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْهِ١ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَهْوَآئِهِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ
وَمَا لَكُمْ : اور کیا ہوا تمہیں اَلَّا تَاْكُلُوْا : کہ تم نہ کھاؤ مِمَّا : اس سے جو ذُكِرَ : لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : نام اللہ کا عَلَيْهِ : اس پر وَ : حالانکہ قَدْ فَصَّلَ : وہ واضح کرچکا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے مَّا حَرَّمَ : جو اس نے حرام کیا عَلَيْكُمْ : تم پر اِلَّا : مگر مَا : جس اضْطُرِرْتُمْ : تم لاچار ہوجاؤ اِلَيْهِ : اس کی طرف (اس پر) وَاِنَّ : اور بیشک كَثِيْرًا : بہت سے لَّيُضِلُّوْنَ : گمراہ کرتے ہیں بِاَهْوَآئِهِمْ : اپنی خواہشات سے بِغَيْرِ عِلْمٍ : علم کے بغیر اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تیرا رب هُوَ : وہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والوں کو
اور سبب کیا ہے کہ جس چیز پر خدا کا نام لیا جائے تم اسے نہ کھاؤ ؟ حالانکہ جو چیز اس نے تمہاے لئے حرام ٹھہرادی ہیں وہ ایک ایک کرکے بیان کردی ہیں (بیشک ان کو نہیں کھانا چاہئے) مگر اس صورت میں کہ ان کے (کھانے کے) لیے ناچار ہوجاؤ اور بہت سے لوگ بےسمجھے بوجھے اپنے نفس کی خواہشوں سے لوگوں کو بہکار ہے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ایسے لوگوں کو جو (خدا کی مقرر کی ہوئی) حد سے باہر نکل جاتے ہیں تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے
قولہ تعالیٰ : آیت : ومالکم الا تاکلو مما ذکر اسم اللہ علیہ اس کا معنی ہے تمہارے لیے کون سی شی مانع ہے اس کو کھانے سے جس پر تم نے اپنے رب کا نام لیا ہے اگرچہ تم نے اسے اپنے ہاتھوں سے مارا ہے۔ وقد فضل یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال اور حرام کو واضح طور پر بیان کردیا ہے اور تم سے التباس اور شک کو زائل کردیا گیا ہے اور ما استفہامیہ تقریر کو متضمن ہے۔ اور تقدیر کلام ہے : وای شی لکم فی الا تکلوا ( اور اس میں تمہارے لیے کون سی شی ہے کہ تم اسے نہیں کھاتے) اور ان بتقدیر حرف جر عمل جر میں ہے۔ اور اس بنا پر محل نصب میں ہونا بھی صحیح ہے کہ حرف جر مقدر نہ ہو اور نصب دینے والا عامل اس فعل کا معنی ہو جو مالکم میں ہے اور اس کی تقدیر ہے ما یمنعکم ( کونسی شی تمہیں روکتی ہے) پھر استثنا کی اور فرمایا آیت : الا ما اضظررتم الیہ اس میں مراد وہ سب ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کیے ہیں مثلا مردار وغیر جیسا کہ سورة البقرہ میں گزر چکا ہے۔ اور یہ استثنا منقطع ہے۔ اور نافع اور یعقوب نے آیت : وقد فصل لکم ما حرم دونوں فعلوں کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ابو عمر، ابن عامر اور ابن کثیر نے دونوں میں ضمہ پڑھا ہے۔ (یعنی فصل اور حرم) اور کو فیوں نے فصل کو فتحہ کے ساتھ اور حرم کو ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور عطیہ العوفی نے فصل تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اس کا معنی ہے جدا کرنا اور ظاہر کرنا، جیسا کہ اس آیت میں پڑھا گیا ہے۔ آیت : الٓر کتٰب احکمت ایتۃ ثم فصلت (ہود : 1) ای استبانت (یعنی ظاہر کردیں) ۔ ابو عبید نے اہل مدینہ کی قرأت کو اختیار کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فصل کا معنی بین (بیان کرنا، واضح کرنا) ہے اور یہ وحی ہے جو سورة المائدہ میں اس ارشاد کے تحت مذکور ہے : آیت : حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر (المائدہ : 3) میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ بھات محل نظر ہے، کیونکہ سورة الانعام مکی ہے اور سورة المائدہ مدنی سورت ہے تو یہ کیسے اس کا بیان بن سکتی ہے جو ابھی تک نازل ہی نہیں ہوئی ؟ سوائے اس صورت کے کہ فصل بمعنی یفصل ہو۔ واللہ اعلم قولہ تعالیٰ : آیت : وان کثیرا لیضلون اور قراء کوفہ نے اسے یصلون، اضل سے پڑھا ہے۔ آیت : باھوآئھم بغیر علم یعنی مشرکین نے جب کہا : جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی چھری کے ساتھ ذبح کیا ہے وہ اسے سے بہتر ہے جنہیں تمہیں تم اپنی چھریوں کے ساتھ ذبح کرتے ہو۔ بغیر علم یعنی بغیر علم کے جو وہ ذبح کے معاملہ میں جانتے ہیں، کیونکہ اس میں حکمت اس خون کا نکلنا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہم پر حرام قرار دیا ہے بخلاف اس جانور کے جو دم گھٹنے سے مر جائے۔ اسی لیے محل مخصوص سے ذبح کو مشروع کیا گیا ہے تاکہ اس میں ذبح جانور سے تمام خون کے نکلنے کا سبب بن جائے بخلاف کسی اور عضو کے ( کیونکہ وہاں سے سارے خون کا نکلنا ممکن نہیں ہوتا ٰ ) واللہ اعلم
Top