Al-Qurtubi - Al-An'aam : 42
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَآ : تحقیق ہم نے بھیجے (رسول) اِلٰٓى : طرف اُمَمٍ : امتیں مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَاَخَذْنٰهُمْ : پس ہم نے انہیں پکڑا بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَضَرَّعُوْنَ : تاکہ وہ عاجزی کریں
اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے (پھر انکی طرف نافرمانیوں کے سبب) ہم انھیں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے تاکہ عاجزی کریں۔
آیت نمبر 42 :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : ولقد ارسلنا الی امم من قبلک یہ آیت نبی کریم ﷺ کے لیے بطور تسلی ہے اس میں اضمار ہے یعنی آیت : ارسلنا الی امم من قبلک رسلا اور اس میں دوسرا اضمار بھی ہے جس پر دلالت کرتا ہے اس کی تقدیر یہ ہے فکذبوا فاخذناھم یہ آیت ما قبل سے متصل ہے جس طرح ایک حالت اپنی سے قریب حالت سے متصل ہوتی ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ یہ لوگ بھی اپنے نبی کی مخالفت کرنے میں پہلے لوگوں کے مسلک پر چلے جنہوں نے اپنے انبیاء کی مخالفت کی تھی پس یہ اس مصیبت اور بلا میں گرفتاری کے مقام پر ہیں جو ان سے پہلے لوگوں پر نازل ہوئی۔ بالباساء کا معنی اموال میں مصائب والضراء بدنوں میں مصیبت۔ یہ اکثر علماء کا قول ہے۔ کبھی یہ ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مصائب، تکالیف اور دوسرے ذرائع سے جو چاہتا ہے، تربیت فرماتا ہے لا یسعل عما یفصل (الانبیائ : 23 ) ابن عطیہ نے کہا ؛ عبادت گزار (صوفیائ) اپنے نفسوں کو اموال کی تفریق کر کے اور جسموں پر بھوک اور بغیر لباس کے رہ کر مشقت برداشت کر کے نفسوں کا استدلال کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوںـ: یہ اس کی جہالت ہے جو ایسا کرتا ہے اور جس نے اس آیت کو اس کی اصل بنایا ہے یہ اس شخص کے لیے اللہ کی طرف سے عقوبت ہے جن کو وہ ان کے ساتھ امتحان میں مبتلا کرنا چاہے، ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم اپنے نفسوں کو خود امتحان میں ڈالیں اور اس پر قیاس کرتے ہوئے تکلیف برداشت کریں، کیونکہ نفس سواری ہیں جس پر سوار ہو کر دارالکرامتہ تک پہنچنا ہے اور ان کے ذریعے قیامت کے دن کی ہولناکیوں سے نجات پانا ہے قرآن حکیم میں ہے آیت : یا یھا الرسل کلوا من الطیبت واعملوا صالحا (المومنون : 51) اے (میرے) پیغمبرو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے کام کرو۔ اور فرمایا : یا یھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم (بقرہ : 267) اے ایمان والو ! خرچ کیا کرو عمدہ چیزوں سے جو تم نے کمائی ہیں۔ اور فرمایا : آیت : یا یھا الذین امنوا کلوا من طیبت ما رزقنکم (بقرہ : 172) اے ایمان والو ! کھائو پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مومنین کو اس چیز کا حکم دیا جس کے ساتھ مرسلین کو خطاب کیا، رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ پاکیزہ چیزیں کھاتے تھے اور خوبصور لباس پہنتے تھے اور ان سے زینت حاصل کرتے تھے، اسی طرح تابعین کرتے تھے، جیسا کہ سورة مائدہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے اور سورة اعراف میں لباس وغیرہ کا حکم آئے گا۔ اگر معاملہ اس طرح ہوتا جس طرح یہ کہتے ہیں اور استدلال کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ذروع، جنات، پھل، نباتات اور جانور جن کو مسخر فرمایا اور جن کو ہمارے لیے کھانا حلال کیا اور جن کے دودھ استعمال کرنے اور ان کی کھال سے گرمی حاصل کرنے کو بطور احسان ذکر نہ فرماتا۔ اگر ان کا نظریہ درست ہوتا اور اس میں فضیلت ہوتی تو رسول اللہ ﷺ صحابہ کر امؓ اور تابعین و علماء اس پر زیادہ عمل کرتے۔ سورة بقرہ میں مال کی فضیلت، منفعت اور جو اس کو جمع کرنے کا انکار کرتا ہے اس کا رد گزر چکا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جسموں پر کمزوری کے خوف سے صوم وصال سے نہی فرمائی اور مال کو ضائع کرنے سے نہی فرمائی، جاہل اغنیاء کا رد کرتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : لعلھم یتضرعون وہ پکاریں اور عجز کا اظہار کریں۔ یہ الضراعتہ سے مشتق ہے جس کا معنی ذلت ہے، کہا جاتا ہے : ضرع فھو ضارع
Top