Al-Qurtubi - Al-An'aam : 43
فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
فَلَوْلَآ : پھر کیوں نہ اِذْ : جب جَآءَهُمْ : آیا ان پر بَاْسُنَا : ہمارا عذاب تَضَرَّعُوْا : وہ گڑگڑائے وَلٰكِنْ : اور لیکن قَسَتْ : سخت ہوگئے قُلُوْبُهُمْ : دل ان کے وَزَيَّنَ : آراستہ کر دکھایا لَهُمُ : ان کو الشَّيْطٰنُ : شیطان مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے۔ مگر ان کے تو دل ہی سخت ہوگئے تھے۔ اور جو کام وہ کرتے تھے شیطان ان کو (اُنکی نظروں میں) آراستہ کر دکھاتا تھا۔
آیت نمبر 43 تا 45 :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فلو لا اذ جائھم باسنا تضرھو، لولا یہ تحضیض کے لیے ہے یہ وہ ہوتا ہے جو فعل کے ساتھ ملا ہوتا ہے بمعنی ھلا ہوتا ہے، یہ دعا کے ترک پر عتاب ہے اور ان کے متعلق خبر ہے کہ عذاب کے نزول کے وقت انہوں نے دعا نہیں کی۔ یہ بھی جائز ہے کہ انہوں نے دعا کی ہو لیکن غیر مخلص کی طرح کی ہو یا اس وقت دعا کی ہو جب عذاب نازل ہوچکا ہو۔ اور ان تمام صورتوں میں دعا غیر نافع ہے۔ دعا کا حکم حالت خوشحالی اور شدت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : ادعونی استجب لکم (غافر : 60) مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ اور فرمایا : آیت : ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم دخرین (غافر) بیشک جو لوگ عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے ذلیل و خوار ہو کر۔ یہ سخت وعید ہے۔ آیت : ولکن قست قلوبھم یعنی ان کے دل سخت ہوگئے، یہ کفر اور مصیبت پر اصرار سے عبارت ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے ہیں۔ آیت : زین لھم الشیطن ما کانوا یعملون شیطان نے انہیں گناہوں کے ذریعے اغوا کیا اور گناہوں پر برانگیختہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فلما نسوا ما ذکروا بہ کہا جاتا ہے : ان کی نسیان پر کیوں مذمت کی گئی جب کہ یہ ان کے فعل سے نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نسوا معنی ترکوا ہے یعنی انہوں نے جب ترک کردیں وہ نصیحتیں جو انہیں کی گئی تھیں۔ یہ حضرت ابن عباسؓ اور ابن جریج سے مروی ہے اور یہی ابوعلی کا قول ہے جو شخص کسی شئے سے اعراض کرتے ہوئے اسے چھوڑدیتا ہے تو وہ اس شخص کے قائم مقام ہوجاتا ہے جو بھول چکا ہو جیسے کہا جاتا ہے : ترکہ فی النسی۔ اس نے اسے بل کل بھلا دیا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو نسیان کے لیے پیش کیا اس لیے مذمت جائز ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کی سزا کے موجب کاموں پر مذمت جائز ہے۔ آیت : فتحنا علیھم ابواب کل شیء یعنی نعمتیں اور خیرات کے دروازے کھول دیئے یعنی ہم نے نعمتوں کی کثرت کردی۔ اہل عرب کے نزدیک اس کی تقدیر یہ ہے کہ ہر دروازہ جو بند تھا وہ ان پر کھول دیا۔ آیت : حتی اذا فرحوا بما اوتوا حتی کہ جب وہ اکڑے اور خوش ہوئے اور یہ گمان کرنے لگے یہ نعمتیں اور مال ہمیشہ رہے گا، یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی دلیل ہے۔ آیت : اخذنھم بغتت ہم نے انہیں اچانک جڑ سے اکھیڑ دیا اور ہم نے ان پر غالب آگئے۔ بغتتہ کا معنی اچانک ہے یعنی کسی نشان کے بغیر غفلت پر پکڑ لینا۔ جب کوئی غافل ہو اور اسے پکڑا جائے تو کہتے ہیں : فقد اخذ بغتتہ کسی کو اچانک حملہ کر کے قتل کرنا۔ یہ البغت ست مشتق ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : تذکیر (نصیحت) جو پہلے گزر چکی ہے، اس سے انہوں نے اعراض کیا۔ اس کو علامت کے قائم مقام رکھا ہے واللہ اعلم۔ بغتتہ حال کی جگہ مصدر ہے۔ سیبویہ کے نزدیک اس پر قیاس نہیں کیا جائے گا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے استدراج ہے جیسے فرمایا : آیت : و املی لھم ان کیدی متین (القلم) میں انہیں مہلت دوں گا میری تدبیر بہت مضبوط ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی ناراضگی اور خفیہ تدبیر سے پناہ مانگتے ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جس نے اس آیت میں غور کیا آیت : حتی اذا فرحوا بما اوتوا اخذ نھم بغتتہ۔ محمد بن نضر حارثی نے فرمایا : اس قوم کو بیس سال مہلت دی گئی۔ حضرت عقبہ بن عامر نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :" جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو گناہوں کے باوجود انہیں وہ عطا کر رہا ہے جو وہ چاہتے ہیں تو وہ اس کی طرف ان کے لیے استدراج ہے، پھر یہ آیت پڑھی : فلما نسوا ماذکروابہ حسن نے کہا : اللہ کی قسم ! لوگوں میں سے کوئی ایسا نہیں اللہ نے اس کے لیے دنیا میں کشادگی کی ہو اور وہ نہ ڈرے کہ ہو سکتا ہے اس سے تدبیر کی گئی ہو مگر اس کا عمل کم ہو اور اس کی رائے عاجز ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے بندے سے جو روک لیا اور اس نے گمان نہ کیا وہ اس کے لیے بہتر ہے مگر اس کا عمل کم ہو اور اس کی رائے عاجز ہوئی خبر میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی فرمائی : جب تم فقر کو اہنی طرف آتا دیکھو تو نیک لوگوں کے شعار کو مرحبا کہو اور جب تم غنی کو اپنی طرف آتا دیکھو تو کہو : گناہ جس کی سزا جلدی دی گئی ہے۔ " اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فاذا ھم مبلسون المبلس مبہوت، غمگین اور خیر سے مایوس آدمی کو کہتے ہیں جو مایوسی بند نہیں ہوتی۔ یہ شدت کا جواب ہے جو ان پر نازل ہوئی۔ زجاج نے کہا : یا صاح ھل تعرف رسما مکرسا قال نعم اعرفہ وابلسا یعنی اس نے جو دیکھا اس کی ہولناکی کی وجہ سے حیران ہوا۔ اس سے ابلیس کا اسم مشتق ہے ہوا۔ ابلس الرجل یعنی آدمی خاموش ہوا۔ ابلست الناقتہ وھی مبلاس اونٹنی جب نر کی خواہش میں نہ بولے۔ ضبعت الناقتہ تقبع ضبعتہ و ضبعا جب اونٹنی کو نر چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فقطع دابر القوم الذین ظلموا، الدابر کا معنی ہے آخر۔ کہا جاتا ہے : دبرا لقوم یدبرھم دبراجو سب سے آخر میں آنے والا ہو۔ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے حدیث : من الناس من لا یاتی الصلاۃ الادبریا (1) (معانی القرآن للح اس) یعنی لوگوں میں سے جو نماز میں آخری وقت میں آتا ہے۔ یہاں معنی ہے ان کی نسل کاٹ دی انہیں بدل دیا اور ان میں سے کوئی باقی نہ چھوڑا۔ قطرب نے کہا : انہیں جڑ سے اکھیڑ دیا گیا اور انہیں ہلاک کیا گیا۔ امیہ بن صلت نے کہا : فاھلکوا بعذاب حض دابرھم مما استطاعوا لہ صرفا ولا انتصروا اسی التدبیر ہے، کیونکہ وہ امور کے انجام کو پختہ کرتا ہے۔ آیت : والحمدللہ رب العلمین بعض علماء نے فرمایا : ان کے ہلاک کرنے پر حمد ہے۔ بعض نے فرمایا : مومنین کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ کیسے حملہ کریں۔ یہ آیت اپنے ضمن میں ظلم کو وجوبا چھوڑنے پر حجت کو لیے ہوئے ہے، کیونکہ ظلم کے پیچھے جڑ کو ہی ختم کردینا اور دائمی عذاب تک پہنچانا ہے ہر حامد کی طرف حمد قطع کرنے والے کے استحقاق کے ساتھ۔
Top