Al-Qurtubi - Al-An'aam : 55
وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ : اسی طرح ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلِتَسْتَبِيْنَ : اور تاکہ ظاہر ہوجائے سَبِيْلُ : راستہ طریقہ الْمُجْرِمِيْنَ : گنہگار (جمع)
اور اسی طرح ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں (تاکہ تم لوگ ان پر عمل کرو) اور اس لئے کہ گناہ گاروں کا راستہ ظاہر ہوجائے
آیت نمبر 55 :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : و کذلک نفصل الایت تفصیل سے مراد ایسا بیان ہے جس سے معانی ظاہر ہوجائیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے اس سورت میں ایسے دلائل اور مشرکین کے خلاف حجت کو بیان کیا ہے اسی طرح ہم تمہارے لیے آیات بیان کریں گے جب تمہیں دین کے معاملہ میں ضرورت پڑے گی ہم تمہارے لیے ہر حق کے بارے میں اپنے دلائل اور حجتیں پیش کریں گے اہل باطل جس کا انکار کریں گے۔ قتبی نے کہا : نفصل الایت مطلب ہے ہم ایک چیز کے بعد دوسری چیز لائیں گے ہم ایک دفعہ سارا قرآن نازل نہیں کریں گے۔ آیت ولتستبین سبیل المجرمین کہا جاتا ہے : یہ لام فعل کے متعلق ہے تو پھر وہ فعل کہاں ہے جس کے یہ متعلق ہے ؟ کو فیوں نے کہا : وہ مقدر ہے یعنی وکذلک نفصل الایات لنبین لکم ولتستبین نحاس نے کہا : اس حذف کی کوئی ضرورت نہیں۔ تقدیر یہ ہے نفصل الایات ولتستبین سبیل المجرمین فضلناھا، بعض علماء نے فرمایا : واو کا داخل ہونا معنی پر عطف کے لیے ہے یعنی تاکہ حق ظاہر ہوجائے اور واضح ہوجائے یا اور تا کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ سبیل کے لام پر رفع اور نصب پڑھے گئے ہیں۔ تا کی قرأت کی صورت میں خطاب نبی کریم ﷺ کو ہوگا یعنی اے محمد ﷺ ! تاکہ آپ مجرموں کا راستہ واضح کردیں۔ اگر کہا جائے کہ نبی کریم ﷺ تو اس کو واضح کرچکے تھے ؟ زجاج کے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے اور مراد امت ہے، معنی یہ ہے کہ تم مجرموں کا راستہ ظاہر کرو، مگر کہا جائے کہ سبیل المومنین ذکر کیوں نہیں کیا۔ اس کے دو جواب ہیں : ایک یہ کہ یہ اس طرح ہے آیت : سرابیل تقیکم الحر (النحل : 81) اس کا مطلب ہے وتقیکم البرد پھر اس کو حذف کیا گیا، اسی طرح یہ معنی بھی ہوگا ولتستبین سبیل المومنین پھر اس کو حذف کیا گیا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ کہا جاتا ہے : استبان الشیء و استنبتہ جب مجرموں کا راستہ ظاہر ہوا تو مومنین کا بھی راستہ ظاہر ہوا۔ السبیل کا لفظ مذکر اور مونث استعمال ہوتا ہے۔ تمیم مذکر اور اہل حجاز مونث استعمال کرتے ہیں۔ قرآن حکیم میں آیت : وان یروا سبیل الرشد (الاعراف : 146) میں مذکر اور آیت : لم تصدون عن سبیل اللہ (آل عمران : 99) میں مونث استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح و لتستبین کو یا اور تا کے ساتھ پڑھا گیا ہے تا کی صورت میں خطاب نبی کریم ﷺ کو ہوگا اور مراد آپ کی امت ہوگی۔
Top