Al-Qurtubi - Al-An'aam : 76
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًا١ۚ قَالَ هٰذَا رَبِّیْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَنَّ : اندھیرا کرلیا عَلَيْهِ : اس پر الَّيْلُ : رات رَاٰ : اس نے دیکھا كَوْكَبًا : ایک ستارہ قَالَ : اس نے کہا هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَ : غائب ہوگیا قَالَ : اس نے کہا لَآ : نہیں اُحِبُّ : میں دوست رکھتا الْاٰفِلِيْنَ : غائب ہونے والے
(یعنی) جب رات نے ان کو (پردہ تاریکی سے) ڈھانپ لیا تو (آسمان میں) ایک ستارا نظر پڑا۔ کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ جب وہ غائب ہوگیا تو کہنے لگے کہ مجھے غائب ہوجانیوالے پسند نہیں۔
قولہ تعالیٰ : آیت : فلما جن علیہ الیل یعنی جب رات نے اسے اپنی تاریکی کے ساتھ ڈھانپ لیا، الجنۃ، الجنۃ، الجنۃ، الجنین، المجن اور الجن تمام الفاظ بمعنی ستر ( ڈھانپنا) ہیں اور جنان اللیل کا معنی رات کا سخت تاریک ہونا اور اس کا ڈھانپ لینا ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : ولولا جنان اللیل ادرک رکضنا بذی الرمث والارطی عیاض بن ناشب اور کہا جاتا ہے : جنون اللیل بھی اسی معنی میں ہے۔ اور کہا جاتا ہے : جنۃ اللیل واجنہ اللیل (رات نے اسے ڈھانپ لیا) اس میں یہ دونوں لغتیں ہیں۔ (صحاح مادہ جنن) راکو کبا یہ دوسرا قصہ ہے اور یہ آپ پر ملکوت پیش کرنے کے قصہ کے سوا ہے۔ کہا گیا ہے : آپ نے اس چٹان کو شق ہوتے دیکھا جو آپ کے تہہ خانہ کے منہ پر رکھی ہوئی تھی۔ اور یہ قول بھی ہے کہ جب آپ کے باپ نے آپ کو تہہ خانہ سے نکالا وہ سورج غروب ہونے کا وقت تھا تو آپ نے اونٹ، گھوڑے اور بکریاں دیکھیں اور فرمایا : ان کے لیے رب کا ہونا ضروری ہے اور آپ نے مشتری یا زہرہ کو دیکھا، پھر چاند کو دیکھا اور سورج کو اور یہ سب مہینے کے آخر میں ہوا۔ اور محمد بن اسحاق نے کہا ہے : اس وقت آپ کی عمر پندرہ برس تھی اور سترہ برس عمر ہونے کا بھی قول ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : جب آپ نمرود پر غالب آئے اس وقت آپ کی عمر سترہ برس تھی۔ قولہ تعالیٰ : آیت : قال ھذا ربی اس کے معنی میں مختلف اقوال ہیں اور کہا گیا ہے : آپ کا یہ قول نظر و فکر کی مہلت، عہد طفولیت میں اور حجت قائم ہونے سے پہلے کی حالت میں تھا۔ اور اس حال میں نہ کفر ہوتا ہے اور نہ ہی ایمان (تفسیر طبری، جلد 9، صفحہ 360 ) ۔ یہ قول کرنے والوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو علی بن ابی طلحۃ عن ابن عباس کی سند سے مروی ہے۔ فرمایا : آیت : فلما جن علیہ الیل راکوکبا قال ھذا ربی تو آپ نے اس کی پوجا کی یہاں تک کہ وہ آپ سے غائب ہوگیا۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : یہ صحیح نہیں ہے اور انہوں نے کہا ہے : یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی رسول ہو اس پر اوقات میں سے کوئی ایسا وقت آئے مگر یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنے والا اور اسے پہنچاننے والا ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر معبود سے بری ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے : کیونکر یہ صحیح ہو سکتا ہے کہ اس کا وہم اس کے بارے کیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اس سے بچا لیا ہے اور اس سے پہلے ہی اس کی ہدایت اور رہنمائی فرما دی ہے اور اسے اپنی بادشاہی دکھا دی ہے تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے (تفسیر طبری، جلد 9، صفحہ 359 ) ۔ یہ جائز نہیں ہے کہ اسے معرفت سے خالی تصور کیا جائے بلکہ اس نے پہلی نظر میں رب کریم کا عرفان حاصل کرلیا۔ زجاج نے کہا ہے : میرے نزدیک یہ جواب غلط ہے اور جس نے یہ کہا ہے اس نے غلطی کی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا : آیت : واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام (ابراہیم 25) (اور بچا لے مجھے اور میرے بچوں کو کہ ہم پوجا کرنے لگیں بتوں کی) اور اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا : آیت : اذ جآء ربہ بقلب سلیم (الصافات۔۔ ) (جب وہ حاضر ہوئے اپنے رب کے دربار میں قلب سلیم کے ساتھ) یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کبھی کسی کو شریک نہیں کیا۔ زجاج نے کہا : میرے نزدیک جواب یہ ہے کہ انہوں نے کہا : (کیا) تمہارے قول کے مطابق یہ میرا رب ہے ؟ کیونکہ وہ بتوں، سورج اور چاند کی عبادت کرتے تھے۔ اور اسی قول کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : این شرکآءی (القصص : 62) (میرے شرکاء کہاں ہیں) حالانکہ وہ تو وحدہ لا شریک ہے۔ تو اس کا معنی یہ ہے : تمہارے قول کے مطابق جو میرے شریک ہیں وہ کہاں ہیں ؟ این شرکآئی علی قولکم۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تہہ خانے سے نکلے تو آپ نے ستارے کی روشنی دیکھی اور آپ اپنے رب کے طالب تھے، تو آپ کو گمان ہوا کہ یہ نور اور روشنی اسی کی ہے، تب آپ نے یہ کہا : آیت : ھذا ربی یعنی وہ مجھے اپنا نور دکھا رہا ہے۔ آیت : فلما افل لیکن جب وہ ڈوب گیا تو آپ نے جان لیا کہ یہ ان کا رب نہیں ہے۔ آیت : فلماا را القمر بازغا پھر جب آپ نے چاند کو چمکتے ہوئے دیکھا اور اس کی روشنی پر آپ کی نظر پڑی۔ آیت : قال ھذا ربی فلما افل قال لئن لم یھدنی ربی لا کونن من القوم الضآلین (تو کہا (کیا) یہ میرا رب ہے ؟ پھر جب وہ (بھی) غروب ہوگیا تو آپ نے کہا : اگر نہ ہدایت دیتا مجھے میرا رب تو ضرور ہوجاتا میں بھی گمراہ قوم سے) پھر جب سورج کو چمکتے ہوئے دیکھ تو کہا : (کیا) یہ میرا رب ہے ؟ اور یہ شرک نہیں ہے۔ بلاشبہ آپ نے اس روشنی اور نور کی نسبت اپنے رب کی طرف کی ہے، لیکن جب آپ نے اسے زائل ہوتے ہوئے دیکھا تو علم نے آپ کی رہنمائی کی کہ وہ اس کا مستحق نہیں ہے، تو آپ نے اپنے دل سے اس کی نفی کردی اور یہ یقین کرلیا کہ یہ مربوب ہے رب نہیں ہے۔ اور یہ قول بھی کیا گیا ہے کیہ آپ نے ھذا ربی کے الفاظ اپنی قوم پر حجت پختہ کرنے کے لیے کہے، پس (پہلے) آپ نے ان کے ساتھ موافقت ظاہر کی، لیکن جب ستارہ ڈوب گیا تو حجت مکمل اور پختہ ہوگئی اور فرمایا : جو شئی متغیر ہوجائے وہ رب نہیں بن سکتی۔ اور وہ لوگ ستاروں کی تعظیم بجا لاتے تھے۔ ان کی پرستش کرتے تھے اور ان کے ساتھ حکم لگاتے تھے۔ اور نحاس نے کہا ہے ؟ اس بارے میں حسین ترین قول وہ ہے جو حضرت ابن عباس ؓ سے صحیح مروی ہے۔ انہوں نے قول باری تعالیٰ : آیت : نور علی نور (النور : 35) کے بارے کہا ہے : اسی طرح بندہ مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرتا ہے، اور اس پر اپنے دل سے استدلال کرتا ہے اور جب وہ اسے پہچان لیتا ہے تو وہ نور پر نور کا اضافہ کردیتا ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی اور اس پر اپنے دلائل سے استدلال کیا، تو آپ کو یقین ہوگیا کہ آپ کا رب اور خالق ہے، پھر جب اللہ عزوجل نے اپنی ذات کے بارے میں آپ کو عرفان عطا فرمایا تو معرفت میں اور اضافہ ہوگیا، تب آپ نے فرمایا : آیت : اتحآجوٓنی فی اللہ وقد ھدائن (کیا تم جھگڑتے ہو مجھ سے اللہ کے بارے میں حالانکہ اس نے مجھے ہدایت دے دی ہے۔ ؎ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قول ان کے فعل اور عمل کا انکار کرتے ہوئے استفہام اور زجرو توبیخ کے معنی میں ہے اور معنی یہ ہے : اھذا ربی کیا یہ میرا رب ہے یا کیا اس کی مثل رب ہو سکتا ہے ؟ پھر ہمزہ کو حذف کردیا گیا ہے اور قرآن کریم میں ہے : آیت : افائن مت فھم الخلدون (الانبیائ : 34) یعنی افھم الخالدون۔ اور ہذلی نے کہا ہے : رَفُونی وقالو یا خویلد لا ترع فقلت وانکرت الوجوہ ھم ھم ایک دوسرے نے کہا : لعمرک ما ادری وان کنت داریا بسبع رمین الجمر ام بثمان (یہ دونوں شعروں میں ہمزہ استفہام محذوف ہے) اور یہ قول بھی ہے کہ اس کا معنی ہیـ: آیت : ھذا ربی علی زعمکم (تمہارے گمان کے مطابق یہ میرا رب ہے) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : این شرکآءی الذین کنتم تزعمون (القصص) ( کہاں ہیں وہ شریک جنہیں تم (میرا شریک) گمان کیا کرتے تھے۔ ) اور مزید فرمایا : آیت : ذق انک انت العزیز الکریم (الدخان : 49) ای عند نفسک (یعنی اپنے نفس کا ذائقہ چکھ) لو چکھو، تم بڑے معزز و مکرم ہو) اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے : اور تم کہتے ہو یہ میرا رب ہے۔ اس میں قول کو مضمر کردیا گیا ہے اور قرآن کریم میں قول کا اضمار کثیر ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ھذا ربی میں یہ معنی ہے ای ھذا دلیل علی ربی (یہ میرے رب پر دلیل ہے)
Top