Al-Qurtubi - Al-An'aam : 94
وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ١ۚ وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِیْكُمْ شُرَكٰٓؤُا١ؕ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق جِئْتُمُوْنَا : آگئے تم ہمارے پاس فُرَادٰي : تنہا۔ اکیلے كَمَا : جیسا کہ خَلَقْنٰكُمْ : پیدا کیا تھا ہم نے تم کو اَوَّلَ : پہلی مَرَّةٍ : بار وَّتَرَكْتُمْ : اور چھوڑ آئے تھے تم مَّا : جو خَوَّلْنٰكُمْ : دیا ہم نے تم کو وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ ۚ : اپنی پیٹھوں کے پیچھے وَمَا نَرٰي : اور نہیں ہم دیکھتے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ شُفَعَآءَكُمُ : تمہارے سفارشیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جو زَعَمْتُمْ : گمان کیا کرتے تھے تم۔ زعم رکھتے تھے تم اَنَّهُمْ : بیشک وہ فِيْكُمْ : تم میں شُرَكٰٓؤُا ۭ : شریک ہیں لَقَدْ تَّقَطَّعَ : البتہ تحقیق کٹ گئے بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان سے وَضَلَّ : اور گم ہوگیا عَنْكُمْ : تم سے مَّا كُنْتُمْ : وہ جو تھے تم تَزْعُمُوْنَ : تم گمان کیا کرتے
اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے اکیلے ہمارے پاس آئے اور جو (مال و متاع) ہم نے تمہیں عطا فرمایا تھا وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے۔ اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے شفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم خیال کرتے تھے کہ وہ تمہارے (شفیع اور ہمارے) شریک ہیں۔ (آج) تمہارے آپس کے سب تعلقات منقطع ہوگئے اور جو دعوے تم کیا کرتے تھے سب جاتے رہے۔
آیت نمبر 94 قولہ تعالیٰ آیت : ولقد جئتمونا فرادٰی یہ حشر سے عبارت ہے اور فرادی حال ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے اور یہ غیر منصرف ہے، کیونکہ اس میں الف تانیث کا ہے۔ ابو حیوہ نے فرادا تنوین کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ بنی تمیم کی لغت ہے، اور وہ محل رفع میں فراد نہیں کہتے۔ احمد بن یحییٰ نے فراد بغیر تنوین کے بیان کیا ہے، انہوں نے کہا : یہ ثلاث اور رباع کی مثل ہے۔ اور فرادی، فردان کی جمع ہے جیسا کہ سکاری، سکران کی جمع ہے اور کسالی، کسلان کی جمع ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا واحد فرد ہے۔ اس میں را جمزوم ہے اور فرد را کے کسرہ کے ساتھ۔ اور فرد را کے فتحہ کے ساتھ اور فرید ہے۔ اور معنی یہ ہے : تم ہمارے پاس آگئے ہو اکیلے اکیلے، تم میں سے ہر ایک منفرد ہے گھر والوں، مال اور اولاد میں سے کوئی ساتھ نہیں، اور نہ ہی ان میں سے کوئی مددگار ہے جو گمراہی میں تمہارے مصاحب تھے، اور انہوں نے تمہیں کوئی نفع نہیں دیا جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا تم عبادت کرتے رہے۔ اعرج نے فردی بغیر الف کے پڑھا ہے جیسا کہ سکری اور کسلی ہیں۔ آیت : کما خلقنٰکم اول مرۃ یعنی جس طرح تم پہلی بار اکیلے اکیلے پیدا کیے گئے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ننگے بدن جیسا کہ تم اپنی ماؤں کے پیٹوں سے نکلے، ننگے پاؤں، غیر مختون، ایک رنگ (بےعیب) ان کے ساتھ کوئی شے نہ ہوگی۔ اور علماء نے کہا ہے : بندے کو کل ( قیامت کے دن) اٹھایا جائے گا اور اس کے وہ تمام اعضاء ہوں گے جو اس کی ولادت کے دن تھے۔ پس جس کا کوئی عضو کاٹ دیا گیا قیامت کے دن وہ اس پر لوٹا دیا جائے گا۔ یہی معنی ہے آپ کے قول غرلا کا یعنی غیر مختون، یعنی ختنہ کے وقت جو حصہ کاٹ دیا گیا تھا وہ ان پر واپس لوٹا دیا جائے گا۔ قولہ تعالیٰ : آیت : وترکتم ما خولنکم یعنی ہم نے تمہیں عطا کیا اور ہم نے تمہیں مالک بنایا۔ اور خول کا معنی ہے : وہ غلام اور دیگر نعمتیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہیں۔ آیت : ورآء ظھورکم یعنی تم اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو جو ہم نے تمہیں عطا فرمایا تھا۔ آیت : وما نری معکم شفعآء کم اور ہم نہیں دیکھتے تمہارے ساتھ ان سفارشیوں کو جن کی تم پرستش کرتے رہے اور جنہیں تم نے میرا شریک بنایا۔ مراد بت ہیں، اور مشرک کہتے تھے : بت اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں اور اس کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔ آیت : لقد تقطع بینکم نافع، کسائی اور حفص نے ظرف ہونے کی بنا پر اسے منصوب پڑھا ہے یعنی بینکم، معنی یہ ہے تحقیق تمہارے درمیان تمہارے رشتے ٹوٹ گئے۔ لقد تقطع وصلکم بینکم اور وصل کے حذف پر یہ قول دلیل ہے آیت : وما نری معکم شفعآء کم الذین زعمتم پس یہ ان کے درمیان اور ان کے شرکاء کے درمیان تعلق منقطع ہونے اور ایک دوسرے کو چھوڑنے پر دلیل ہے، جب کہ انہوں نے ان سے برأت اختیار کرلی اور وہ ان کے ساتھ نہ ہوئے۔ اور ان کے لیے ان کا مقاطعہ یہ ہے کہ انہوں نے ان سے اپنا رشتہ اور تعلق چھوڑ دیا۔ پس تقطع کے بعد الوصل کو مضمر کرنا اچھا ہے، کیونکہ کلام اس پر دلالت کرتی ہے۔ اور حضرت ابن مسعود رؓ کی قرأت میں ما نصب پر دلالت کرتا ہے یعنی لقد تقطع ما بینکم اور اس میں سوائے نصب کے کوئی اور جائز نہیں۔ کیونکہ تم نے جسے قطع کیا ہے اس کو ذکر کردیا ہے اور وہ ما ہے گویا کہ یہ کہا : لقد تقطع الوسل بینکم۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے لقد تقطع الامر بینکم ( معاملہ تمہارے درمیان کٹ گیا) ۔ دونوں معنی باہم متقارب ہیں۔ اور باقیوں نے بینکم رفع کے ساتھ پڑھا ہے اس لیے یہ اسم ظرف نہیں، پس فعل کو اس کی طرف مسنوف کیا گیا ہے لہٰذا اسے رفع دیا گیا۔ اور بین کے اسم ہونے کو یہ بات تقویت دیتی ہے کہ اس ارشاد گرامی میں اس پر حرف جر داخل ہے : آیت : ومن بیننا وبینک حجاب (فصلت : 5) اور آیت : ھذا فراق بینی وبینک (الکہف : 78) اور یہ بھی جائز ہے کہ نصب کی قرأت رفع کے معنی پر ہو، اور اسے نصب اس لیے دی گئی کیونکہ اس کا اکثر استعمال ظرف منصوب کی بنا پر ہے، حالانکہ یہ محل رفع میں ہے اور یہی اخفش کا مذہب ہے۔ پس اس اعتبار سے دونوں قرأتئیں ہم معنی ہیں، لہٰذا جس طرح چاہے قرأت کرو آیت : وضل عنکم اور تم سے کھو گئے۔ آیت : ما کنتم تزعمون ( وہ سب) جن کے ساتھ تم دنیا میں جھٹلاتے تھے۔ روایت ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور یہ بھی روایت ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پڑھا : آیت : ولقد جئتمونا فرادٰی کما خلقنکم اول مرۃ تو عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ! کتنا برا ہے کہ مردوں اور عورتوں کو اکٹھا اٹھایا جائے گا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھ رہے ہوں گے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اس دن ان میں سے ہر آدمی اپنی فکر میں ہوگا جو اسے مستغنی کر دے گی نہ مرد عورتوں کی طرف دیکھیں گے اور نہ عورتیں مردوں کی طرف دیکھیں گی، وہ ایک دوسرے سے مشغول (غافل) ہوں گے “۔ یہ حدیث صحیح میں ثابت ہے اور اسی کی ہم معنی روایت مسلم نے نقل کی ہے۔
Top