بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Qalam : 1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ
نٓ : ن وَالْقَلَمِ : قسم ہے قلم کی وَمَا يَسْطُرُوْنَ : اور قسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں
ن قلم کی اور جو (اہل قلم) لکھتے ہیں اس کی قسم
ن والقلم ابوبکر، مفضل، ہبیرہ، ورش، ابن محیصن، ابن عامر، کسائی اور یعقوب نے دوسری نون کو وائو میں مدغم کیا ہے باقی قراء نے اظہار کیا ہے۔ عیسیٰ بن عمر نے اس کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، گویا فعل کو مضمر مانا ہے۔ حضرت ابن عباس، نصر اور ابن ابی اسحاق نے حرف قسم کو مضمر ماننے کے ساتھ اسے مسکور پڑھا ہے۔ ہ اور ن، محمد بن سمیقع اور معاویہ بن قرہ نے مبنی ہونے کی وجہ سے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اپنے باپ سے وہ نبی کریم ﷺ سے مرفوع روایت نقل کرتے ہیں کہ فرمایا، ن نور کی ایک لوح ہے “ (2) ثابت بنانی نے روایت کیا ہے کہ ن سے مراد دوات ہے (3) یہ حضرت حسن بصری اور قتادہ کا قول ہے۔ ولید بن مسلم نے روایت کی ہے کہ مالک بن انس، سمی سے جو ابوبکر کے غلام ہیں (4) وہ ابو صالح سمان سے وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :” اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا پھر نون کو پیدا کیا، یہ دوات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان : ن والقلم سے یہی مراد ہے پھر اسے فرمایا، لھک ! اس نے عرض کی : میں کیا لکھوں ؟ فرمایا : جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ قیامت تک ہنے والا ہے سب لکھو، خواہ وہ عمل ہو، اجل ہو، رزق ہو یا اثر ہ۔ قیامت تک جو ہونے والا تھا، حکم اس میں جاری ہوگیا ہے۔ پھر قلم کے منہ پر لہر لگا دی گئی پھر اس نے نہ کچھ لکھا اور نہ قیامت تک لکھے گا۔ پھر عقل کو پیدا کیا گیا۔ جبار نے ارشاد فرمایا، میں نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو تجھ سے بڑھ کر مجھے پسند ہو۔ میری عزت و جلال کی قسم میں جس سے محبت کرتا ہوں گا اس میں تجھے مکمل کروں گا اور جس سے ناراض ہوں گا۔ اس میں تجھے ناقص رکھوں گا۔ “ پھر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اکمل الناس عقلاً اطوعھم للہ و اعملھم بطاعتہ (1) لوگوں میں سے از روئے عقل کے سب سے کامل وہ ہیں جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے ہیں اور اس کی طاعت میں زیادہ عمل کرنے والے ہیں۔ مجاہد نے کہا، ن سے مراد وہ چھلی ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے اور قلم سے مراد وہ قلم ہے جس کے ساتھ ذکر لکھا گیا ہے، اسی طرح مقاتل، مرہ ہمدانی، عطا خراسانی، سدی اور کلبی نے کہا، نون سے مراد وہ مچھلی ہے جس پر سات زمینیں قائم ہیں۔ ابوظیبان نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے (2) سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا تو جو کچھ ہونے والا تھا اس نے وہ لکھ دیا، پھر پانی کے بخار کو اٹھایا تو اس سے آسمان کو بنایا پھر مچھلی کو پیدا کیا تو اس کی پشت پر زمین کو بچھا دیا۔ زمین جھک گئی تو اسے پہاڑوں کے ساتھ مضبوط کردیا، بیشک پہاڑ زمین پر فخر کرتے ہیں پھر حضتر ابن عباس نے کہا : ن والقلم کی قرت کی۔ کلبی اور مقاتل نے کہا : اس مچھلی کا نام بہموت ہے۔ راجز نے کہا : مالی اراکم کلکم سکوتا واللہ ربی خلق البھموت کیا وجہ ہے میں تم سب کو خاموش دیکھتا ہوں اللہ تعالیٰ میرا رب ہے اس نے بہموت کو پیدا کیا ہے۔ ابوظبیان اور واقدی نے اس کا نام لیوث لیا ہے (3) کعب نے کہا، اس کا نام لو ثوث ہے۔ کہا : اس کا کام بلہموث ہے۔ کعب نے کہا، ابلیس مچلھی میں داخل ہوگیا جس مچھلی پر زمینیں ہیں اس نے مچھلی کے دل میں وسوسہ اندازی کی۔ کہا : اے لوثوث ! کیا تو جانتی ہے تیری پشت پر چوپائوں، درختوں اور زمینوں وغیرہ میں سے کیا کچھ ہے اگر تو انہیں پھینکنا چاہے تو تو ان سب کو اپنی پشت سے نیچے پھینک دے۔ لثوث نے اس طرح کرنے کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف ایک جانور بھیجا و اس مچھلی کے نتھنے میں داخل ہو اور اس کے دماغ تک جا پہنچا۔ مچھلی نے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی حضور آہ وزاری کی اللہ تعالیٰ نے اس جانور کو اجاجزت دے دی تو وہ جانور نکل گیا۔ کعب نے کہا : اللہ کی قسمچ بیشک اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتا اور مچھلی اس کی طرف دیکھتی اگر اللہ اس میں سے کسی چیز کا ارادہ کرتا تو جس طرح وہ پہلے تھی اسی طرح ہوجاتی۔ ضحاک نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ ن لفظ رحمن کا آخری حرف ہے فرمایا : الرحمن مجموعہ رحمن ہے ان حروف کو ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا ہے۔ ابن زید نے کہا، یہ قسم ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ قسم اٹھائی ہے (4) ابن کیسان نے کہا، سورت کا آغاز ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ سورت کا نام ہے۔ عطا اور ابوالعالیہ نے کہا، یہ اس کے اسماء نصیر، نور اور ناصر کا آغاز ہے (5) محمد بن کعب نے کہا : اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھائی کہ وہ مومنوں کی مدد فرمائے گا۔ یہ حق ہے۔ اس کی وضاحت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے، وکان حقا علینا نصر المومنین۔ (الروم) امام جعفر صادق نے کہا : یہ جنت کی نہروں میں سے ایک نہر ہے جسے نون کہتے ہیں (1) ایک قول یہ کیا : یہ حروف معجم میں سے ایک ہے کیونکہ اگر یہ کوئی اور چیز ہوتی تو یہ معرب ہوتا ہے۔ ابو نصر عبدالرحیم قشیری نے اسے پسند کیا ہے۔ فرمایا : ن حرف ہے اس پر اعراب نہیں۔ اگر یہ مکمل قلم ہوتا تو اس پر اسی طرح اعراب وہتا جس طرح قلم پر اعراب دیا جاتا ہے یہ حرف تہجی ہے جس طرح باقی ستونوں کے آغاز میں ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے : یہ سورت کا نام ہے یعنی یہ سورة نون ہے پھر فرمایا : والقلم قلم کی قسم اٹھائی کیونکہ اس کے ذریعے ہی وضاحت کی جاتی ہے جس طرح زبان کے ساتھ وضاحت کی جاتی ہے۔ اس کا اطلاق ہر اس حکم پر ہوتا ہے جس کے ساتھ لکھ جاتا ہے وہ آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو۔ اسی معنی میں ابو الفتح بستی کا قول ہے : کفی قلم الکتاب عزا و رفعۃ مدی الدھر ان اللہ اقسم بالقلم کاتبوں کے قلم کے لئے طویل زمانہ تک یہ عزت و رفعت میں کافی ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم اٹھائی ہے۔ شعراء کے بیشمار ایسے الفاظ ہیں جن میں قلم کو تلوار پر فضیلت دی گی ہے۔ جس کو ہم نے ذکر کیا ہے وہ ان سب سے اعلیٰ ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا، یہ اس قلم کی قسم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا تو قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا اس نے وہ لکھ دیا۔ : یہ قلم نور کا ہے اس کی لمبائی اتنی ہے جتنی آسمان اور زمین کے درمیان مسافت ہے (2) یہ کہا جاتا ہے : اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا پھر اس کی طرف دیھکا تو اس میں شق پیدا ہوگیا فرمایا : چل پڑ۔ قلم نے عرض کی : اے میرے رب ! میں کس کے ساتھ جاری ہوں ؟ فرمایا، قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس کو لکھنے کے ساتھ چل پڑ۔ تو وہ لوح محفوظ پر جاری ہوگیا۔ ولید بن عبادہ بن صامت نے کہا، میرے والد نے اپنے وصال کے موقع پر وصیت کی اور کہا : اے بیٹے ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جان لو ! تو کبھی بھی متقی نہیں بنے گا اور علم تک نہیں پہنچ سکے گا یہاں تک کہ تو اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لائے، اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے (3) میں نے بنی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ” اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا ہے اسے فرمایا، لکھ۔ اس نے عرض کی : میں کیا لکھوں ؟ فرمایا : تقدیر لکھ، قلم اس لمحہ لکھنے لگی جو کچھ ہوچکا تھا اور ہمیشہ کے لئے جو کچھ ہونے والا تھا۔ “ حضرت ابن عباس نے کہا : اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا اور اسے حکم دیا جو کچھ ہونے والا ہے اسے لکھتا جائے اس نے جو کچھ لکھا اس میں یہ بھی لکھا تبت یدآ ابی لھب قتادہ نے کہا، قلم بندوں پر اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اول قلم کو پیدا کیا جو کچھ ہونے والا تھا اس نے لکھ دیا (4) اسے اپنے عرش پر اپنے پاس رکھ دیا، پھر دوسرے قلم کو پیدا کیا تاکہ اس کے ساتھ زمین میں لکھے جس کی وضاحت سورة اقرا بسم ربک میں آرہی ہے۔ ومایطرون۔ اور جو وہ لکھتے ہیں، مراد فرشتے ہیں جو انسانوں کے اعمال لکھتے ہیں، یہ حضرت ابن عبسا کا قول ہے (1) ایک قول یہ کیا گیا ہے : جسے لوگ لکھتے ہیں اور سج کے ذریعے ایک دوسرے کی بات سمجھتے ہیں۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے : وما یسطرون۔ کا معنی ہے جو وہ جانتے ہیں ما موصولہ ہے یا مصدریہ ہے مراد مسطور ہے یا سطر ہے، مراد ہوگا جو کوئی لکھتا ہے یا جسے حفظہ فرشتے لکھتے ہیں۔ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ ما انت بنعمۃ ربک بمجنون۔ یہ جواب قسم ہے اور جملہ منفیہ ہے۔ مشرک نبی کریم ﷺ کے بارے میں کہا کرتے تھے : یہ مجنون ہے، اس کا ایک شیطان ہے نعوذ باللہ (2) وہ ان کا یہ قول تھا، یا یھا الذین نزل علیہ الذکر انک لمجنون۔ (الحجر) اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے اور ان کی قول کی تکذیب کرتے ہوئے اس آیت کو نازل فرمایا۔ یہاں نعمت رحمت کے معنی میں ہے یعنی آپ ﷺ اپنے رب کی رحمت کے ساتھ مجنون نہیں۔ دوسری تاویل یہ ہو سکتی ہے کہ یہاں نعمت قسم کے معنی میں ہو تقدیر کلام یہ ہوگی تیرے رب کی رحمت کے ساتھ مجنون نہیں۔ دوسری تاویل یہ ہوس کتی ہے کہ یہاں نعمت قسم کیم عنی میں ہو تقدیر کلام یہ ہوگی تیرے رب کی نعمت کی قسمچ آپ مجنوں نہیں کیونکہ وائو اور باء حروف قسم میں سے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ کلام اسی طرح ہے جس طرح تو کہتا ہے : ماانت بمجنن وا لحمد اللہ (3) ایک قول کا یہ معنی ہے مانت بمجنون والنعمۃ لربک جس طرح ان کا قول ہے، سبحانک اللھم و بحمد یعنی والحمد للہ۔ اسی معنی میں لبید کا یہ شعر ہے : وافردت فی الدین بفقد عشیرتی وفارقنی جاز باربد نافع اس شعر میں باربد، وھواربد کے معنی میں ہے۔ نابغہ کا شہر ہے : لم یحرموا حسن الغذاء وامھم طفحت علیک بناتق مذکار اس میں ب ھی بناتق، ھوناتق کے منی میں ہے۔ بنعمۃ ربک مجنون کے متعلق ہے جس کی نفی کی گی ہے جس طرح کلام مثبت میں غافل کے متعلق ہے۔ تیرا قول ہے : انت بنمۃ ربک غافل اس کا محل نصب ہے۔ یہ حال ہے گویا فرمایا : ماانت بمجنون منعما علیک بذلک وان لک لاجراً آپ کے لئے ثواب ہے کیونکہ آپ نبوت کے بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ غیر ممنون۔ وہ نہ ختم ہوگا اور نہ اس میں کمی کی جائے گی۔ یہ جملہ بوالا جاتا ہے : مننت الحبل جب تو رسی کو کاٹ دے حبل منین جب وہ مضبوط نہ ہو۔ شاعر نے کہا : غبساً کو اسب لایمن طعامھا یہاں بھی لایمن، لایقطع کے معنی میں ہے۔ ان کا کھانا ختم نہیں ہوتا۔ مجاہد نے کہا : غیر ممنون۔ کا معنی ہے اس کا کوئی حسا ب نہ ہوگا (4) حضرت حسن بصری نے کہا : اسے احسن جتلا کر گدلا نہ کیا جائے گا۔ ضحاک نے کہا، بغیر علم کے اجر ہوگا (5) ایک قول یہ کیا یا ہے : بغیر اندازہ کے ہوگا (6) یہ فضل و احسان ہے کیونکہ جزا اندازے سے ہوتی ہے اور فضل و احسان اندازے کے بغیر ہوتا ہے، ماوردی نے اسے ذکر کیا ہے، یہ مجاہد کے قول کا معنی ہے۔
Top