بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 1
الٓمّٓصٓۚ
الٓمّٓصٓ : المص
المص
آیت نمبر 1۔ 2 قولہ تعالیٰ : المص سورة البقرہ کے شروع میں ان حروف کی بحث گزر چکی ہے۔ اور یہ مبتدا ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے۔ اور کتب اس کی خبر ہے، گویا کہ یہ فرمایا : المص حروف آیت : کتٰب انزل الیک ( یہ حروف ایک کتاب ہے جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے) اور کسائی نے کہا ہے : ای ھذا کتاب ( یہ کتاب ہے) ( اس میں کتاب خبر مبتدا محذوف کی ہے جو کہ ھذا ہے۔ ) قولہ تعالیٰ : آیت : فلا یکن فی صدرک حرج منہ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ قولہ تعالیٰ : حرج، ای ضیق ( تنگی) یعنی آپ کا سینہ تبلیغ کے سبب تنگ نہ ہو، کیونکہ آپ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : انی اخاف ان یثلغوا راسی فیدعوہ خبزۃ ( صحیح مسلم، کتاب الجنتۃ وصفۃ نعیمھا، جلد 2، صفحہ 385) (مجھے خوف ہے کہ وہ میرا سر کچل دیں اور اسے نشیبی جگہ میں پھینک دیں) الحدیث۔ اسے مسلم نے روایت کہا ہے۔ الکیاطبری نے کہا ہے : ظاہر میں یہ کلام نہی ہے، لیکن اس کا معنی آپ ﷺ سے تنگی کی نفی کرتا ہے، یعنی لا یضیق صدرک الا یومنوا بہ ( آپ کا سینہ تنگ نہ ہو کہ وہ اس کے ساتھ ایمان نہیں لائے) بلا شبہ آپ پر تبلیغ کرنا لازم ہے اور اس کے ساتھ ڈرانے کے سوا ان کے ایمان یا کفر میں سے کوئی شے آپ پر لازم نہیں، اور اسی کی مثل یہ ارشاد گرامی ہے : آیت : فعللک باخع نفسک الآیہ ( الکہف : 6) (تو کیا آپ ( فرط غم سے) تلف کردیں گے اپنی جان کو) اور مزید فرمایا : آیت : لعلک باخع نفسک الا یکونوا مومنین (الشعرائ) ( اے جان عالم ! ) شاید آپ ہلاک کردیں گے اپنے آپ کو اس غم میں کہ وہ ایمان نہیں لا رہے) ۔ اور حضرت مجاہد اور قتادہ کا مذہب یہ ہے کہ یہاں حرج کا معنی شک ہے (تفسیر طبری، جلد 10، صفحہ 54 ) ، لیکن یہ کفر کا شک نہیں بلکہ تنگی کا شک ہے۔ اور اسی طرح قول باری تعالیٰ ہے : آیت : ولقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون (الحجر) ( اور ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کا دل تنگ ہوتا ہے ان باتوں سے جو وہ کیا کرتے ہیں) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ خطاب حضور نبی رحمت ﷺ کو ہے اور مراد آپ کی امت ہے۔ اور اس (قول میں) بہت بعد ہے۔ اور منہ میں ہا ضمیر قرآن کے لیے ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ یہ انداز کے لیے ہے، یعنی انزل الیک الکتاب لتنذر بہ فلا یکن فی صدرک حرج منہ ( آپ کی طرف کتاب نازل کی گئی تاکہ آپ اس کے ساتھ ڈرائیں ُ س آپ کے سینے میں اس سے کوئی تنگی نہ ہو) پس کلام میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اس تکذیب کے لیے ہے جو آۃ پ کو قوت کلام عطا کر رہی ہے یعنی فلا یکن فی صدرک ضیق من تکذیب المکذبین لہ ( آپ کے سینے میں اسے جھٹلانے والوں کی تکذیب سے کوئی تنگی نہ ہو) مسئلہ نمبر 2۔ قولہ تعالیٰ : آیت : وذکری اس کے لیے جائز ہے کہ یہ محل رفع، محل نصب اور محل خفض ( جر) میں ہو۔ پس رفع کی دو وجہیں ہیں۔ بصریوں نے کہا ہے : یہ مبتدا مضمر کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ اور کسائی نے کہا ہے : اس کا عطف کتٰب پر ہے ( لہٰذا یہ مرفوع ہے) اور نصب کی بھی دو وجہیں ہیں : ایک مصدر ( یعنی مفعول مطلق) ہونے کی بنا پر، یعنی وزکر بہ ذکری یہ بصریوں کا قول ہے۔ اور امام کسائی نے کہا ہے : اس کا عطف انزلناہ کہ ہا ضمیر ہے ( لہٰذا یہ منصوب ہے) اور محل جر اس بنا پر ہے کہ اسے لتنذر بہ کے محل پر محمول کیا جائے۔ اور انذار (ڈرانا) کافروں کے لیے ہے اور نصیحت مومنوں کے لیے ہے، کیونکہ یہی اس سے نفع اٹھاتے ہیں۔
Top