Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 130
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے فرعونیوں کو قحطوں اور میووں کے نقصان میں پکڑا تاکہ نصیحت حاصل کریں۔
آیت نمبر :130 قولہ تعالیٰ : آیت : ولقد اخذنا ال فرعون بالسنین سنین سے مراد قحط سالی ہے اور لغت میں یہ معنی معروف ہے۔ کہا جاتا ہے : اصابتھم سنہ، ای جدب ( انہیں قحط سالی آپہنچی) اور تقدیر ہے جدب سنۃ اور حدیث مبارکہ میں ہے : اللھم اجعلھا علیھم سنین کسنی یوسف (صحیح بخاری، الاستسقاء، جلد 1، صفحہ 136) ( اے اللہ ! ان پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ کے قحط کی طرح قحط مسلط کر دے) عربوں میں سے کچھ ہیں جو سنین کے نون کو اعراب دیتے ہیں۔ فراء نے شعر بیان کیا ہے : اری مر السنین اخذن منی کما اخذ السرار من الھلال نحاس نے کہا ہے : سیبویہ نے یہ شعر نون کے فتحہ کے ساتھ بیان کیا ہے، لیکن اس بارے میں وہ کہا ہے جو کسی اور کے نزدیک جائز نہیں ہے اور وہ یہ قول ہے : وقد جاوزت راس الاربعین ( یعنی اس اربعین کی نون کو کسرہ دیا ہے) فراء نے بنی عامر سے بیان کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : اقمت عندہ سنینا یا ھذا، اس میں سنین منصرف ہے۔ اور بنو تمیم اسے غیر منصرف پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں : مضت لہ سنین یا ھذا اور سنین سنۃ کی جمع ہے اور یہاں سنۃ بمعنی قحط سالی ہے بمعنی حول ( سال) نہیں۔ اور اسی سے اسنت القوم ہے یعنی وہ قحط میں مبتلا ہوگئے۔ عبداللہ بن زبعری نے کہا ہے : عمروا لعلا ھشم الژید لقومہ ورجال مکۃ مسنیتون عجاف آیت : لعلھم یذکرون تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ان کے دل نرم ہوجائیں۔
Top