Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 142
وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً١ۚ وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ
وَوٰعَدْنَا
: اور ہم نے وعدہ کیا
مُوْسٰي
: موسیٰ
ثَلٰثِيْنَ
: تیس
لَيْلَةً
: رات
وَّاَتْمَمْنٰهَا
: اور اس کو ہم نے پورا کیا
بِعَشْرٍ
: دس سے
فَتَمَّ
: تو پوری ہوئی
مِيْقَاتُ
: مدت
رَبِّهٖٓ
: اس کا رب
اَرْبَعِيْنَ
: چالیس
لَيْلَةً
: رات
وَقَالَ
: اور کہا
مُوْسٰي
: موسیٰ
لِاَخِيْهِ
: اپنے بھائی سے
هٰرُوْنَ
: ہارون
اخْلُفْنِيْ
: میرا خلیفہ (نائب) رہ
فِيْ قَوْمِيْ
: میری قوم میں
وَاَصْلِحْ
: اور اصلاح کرنا
وَلَا تَتَّبِعْ
: اور نہ پیروی کرنا
سَبِيْلَ
: راستہ
الْمُفْسِدِيْنَ
: مفسد (جمع)
اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کی میعاد مقرر کی۔ اور دس (راتیں) اور ملا کر اسے پورا (چلہ) کردیا تو اس کے پروردگار کی چالیس رات کی میعاد پوری ہوگئی۔ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میرے (کوہ طور پر جانے کے) بعد تم میری قوم میں میرے جانشین ہو (ان کی) اصلاح کرتے رہنا اور شریروں کے راستہ نہ چلنا۔
آیت نمبر :
142
قولہ تعالیٰ : آیت : ووعدنا موسیٰ ثلثین لیلت واتممنھا بعشر فتم میقات ربہ اربعین لیلۃ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : قولہ تعالیٰ : آیت : ووعدنا موسیٰ ثلثین لیلۃ اس میں ذکر کیا گیا ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عزت و تکریم عطا فرمائی۔ پس اللہ تعالیٰ کا آپ کے ساتھ ہمکلام ہونے کا وعدہ فرمانا ان کے لیے باعث عزت و تکریم تھا۔ آیت : واتممنھا بعشر حضرت ابن عباس ( تفسیر طبری، جلد
9
، صفحہ
59
) ، حضرت مجاہد اور حضرت مسروق ؓ نے بیان فرمایا : یہ ذوالقعدہ اور ذوالحج کے دس دن تھے۔ آپ کو حکم ہوا کہ ایک مہینہ کے روزے رکھیں اور آپ اس میں اس عبادت کے ساتھ منفرد ہوں گے، پس جب آپ نے روزے رکھے تو آپ نے اپنے منہ کی بو کو ناپسند کیا اور مسواک کی۔ کہا گیا ہے کہ آپ نے خرنوب کی لکڑی سے مسواک کی، تو ملائکہ نے کہا : بلاشبہ ہم آۃ پ کے منہ سے کستوری کی خوشبو سونگھتے تھے تو آپ نے مسواک کے ساتھ اسے فاسد کردیا ہے۔ پس آپ پر ذوالحجہ کی دس راتیں اور بڑھا دی گئیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : جب آپ نے مسواک کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی : ” اے موسیٰ ! میں تجھ سے کلام نہیں کروں گا یہاں تک کہ تیرا منہ اس حالت پر واپس لوٹ آئے جس پر پہلے تھا۔ کیا تو جانتا نہیں ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو میرے نزدیک کستوری کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے “ (زاد المسیر، جلد
2
، صفحہ
195
) ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے مزید دس دن آپ کو روزے رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمکلام ہونے کا شرف یوم نحر ( دسویں ذوالحج) کی صبح کو حاصل ہوا جس وقت حضرت اسماعیل (علیہ السلام) قربانی کے عوض ذبح ہونے سے محفوظ رہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضور نبی رحمت ﷺ کے لیے حض مکمل کیا۔ عشر کے لفظ کے آخر سے ہا کو اس لیے حذف کردیا گیا، کیونکہ معدود مونث ہے۔ اور قول باری تعالیٰ : آیت : فتم میقات ربہ اربعین لیلۃ کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے یہ معلوم ہوگیا ہے کہ ثلاثین اور عشرۃ سے مراد چالیس ہے، تاکہ یہ وہم نہ ہو کہ مراد یہ ہے کہ ہم نے تیس دن انہیں میں سے دنوں کے ساتھ مکمل کیے۔ پس یہ واضح کردیا کہ وہ دس تیس کے سوا ہیں۔ اور اگر کہا جائے کہ سورة بقرہ میں اربعین ( چالیس) کہا ہے اور یہاں ثلاثین ( تیس) فرمایا ہے، پس یہ نیا کلام ہوجائے گا۔ تو کہا گیا ہے : اس طرح نہیں ہے۔ تحقیق فرمایا : آیت : واتممنھا بعشر تو اربعون، اور ثلاثون وعشرۃ یہ ایک ہی قول ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ( کیونکہ دونوں کا معنی چالیس ہے) پس اللہ تعالیٰ نے تفصیل و تالیف کے طریقہ پر دو قول ارشاد فرمائے۔ پس قول مرکب میں اربعین فرمایا، اور پھر فرمایا ثلاثین، یعنی مسلسل ایک مہینہ اور دس دن۔ سب کا معنی چالیس ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : عشرواربع۔۔۔۔ یعنی چودہ، چاند کی رات۔ اور یہ کلام عرب میں جائز ہے۔۔۔ مسئلہ نمبر
2
۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ کسی معاہدہ کی مدت مقرر کرنا سنت ماضیہ ہے اور قدیمہ معنی ہے اسے اللہ تعالیٰ نے قضایا ( فیصلوں) میں بنیاد ہے اور اس کے ساتھ امتوں کے فیصلے فرمائے ہیں اور اس کے ساتھ انہیں اعمال میں تاخیر کرنے کی مقدار پر آگاہ کیا ہے، پس پہلی مدت جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے وہ چھ دن ہے جن میں اس نے تمام مخلوقات کو تخلیق فرمایا ہے۔ آیت : ولقد خلقنا السموت والارض وما بینھما فی ستۃ ایام وما مسنا من لغوب ( ق) ( اور ہم نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں۔ اور ہمیں تھکن نے چھوا تک نہیں) ہم اس کا منعی اس سے قبل اسی سورة میں آیت : ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض فی ستۃ ایام (الاعراف :
54
) کے تحت بیان کرچکے ہیں۔ اب عربی (رح) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
790
) نے بیان فرمایا ہے : جب کسی معنی ( مقصد) کے لیے مدت مقرر کردی جائے تو اس میں موجل کو حاصل کرنے کا قصد کیا جاتا ہے اور جب وہ مدت آجائے اور وہ شے میسر نہ ہو تو اس میں مزید غور وفکر کرنے کے لیے اور بطور عذر اضافہ کردیا جاتا ہے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے بیان فرمایا اور ان کے لیے تیس دن مقرر فرما دیے پر ان میں دس دن مزید بڑھا دیئے تاکہ چالیس مکمل ہوجائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دس دن اپنی قوم پر تاخیر کردی اور وہ اس تاخیر اور تاخر کے جواز کو نہ سمجھ سکے، یہاں تک کہ وہ کہنے لگے : بلاشبہ موسیٰ بہک گیا یا بھول گیا ( نعوذ باللہ من ذالک) اور انہوں نے اپنا عہد توڑ ڈالا۔ اور آپ کے بعد انہوں نے اپنا نظریہ بدل دیا اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور الٰہ کی عبادت کرنے لگے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : بیشک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو کہا : بلاشبہ میرے رب نے میرے ساتھ تیس راتوں کا وعدہ فرمایا کہ میں اس سے شرف ملاقات حاصل کروں اور میں تم میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کو نائب اور خلیفہ بنا رہا ہوں۔ پس جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کی طرف چلے گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر دس دنوں کا اضافہ کردیا۔ پس ان کا وہ فتنہ جس میں انہوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی انہی دس دنوں میں وقوع پذیر ہوا جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر زائد کیے تھے۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ پھر وہ زیادتی جو مقررہ مدت پر ہوتی ہے وہ اسی طرح مقدر ہوتی ہے جیسے وہ مقررہ مدت مقدر ہوتی ہے اور یہ نہیں ہو سکتی مگر حاکم کے ایسے اجتہاد کے ساتھ جو اس معاملہ سے متعلقہ معانی مثلا، حال اور عمل میں غور وفکر کرنے کے بعد ہو، پس یہ گزشتہ مدت کے ثلث ( تہائی) کے مثل ہو سکتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے مقرر فرمائی۔ اگر حاکم مناسب خیال کرے کہ وہ اپنے لیے اصل کو اجل اور زیادتی کو ایک ہی مدت میں جمع کرلے تو یہ جائز ہے، لیکن اس کے بعد انتظار ضروری ہے تاکہ انسان پر عذر طاری ہوجائے، یہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور بنی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے بندے کو معذور قرار دیا ہے اور اس کی مدت کو موخر کردیا ہے یہاں تک کو ہو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جائے “۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : یہ بھی حکام کے محکوم علیہ کو یکے بعد دیگر معذور قرار دینے کی اصل ہے اور یہ مخلوق کے ساتھ لطف و عنایت ہے اور چاہیے کہ طاقتور حکام ان پر حق نافذ کریں۔ کہا جاتا ہے : اعذر فی الامرای بالغ فیہ یعنی اس نے معاملہ میں حد درجہ کوشش کی اتنی کہ اس کے بعد کوئی کوشش نہیں ہو سکتی ( یعنی اس کے بعد کوئی عذر پیش نہیں کیا جاسکتا) اور بنی آدم کے لیے سب سے بڑی کوشش ان کی طرف رسولوں کو مبعوث فرمانا ہے تاکہ ان پر حجت مکمل ہوجائے۔ آیت : وماکنا معذبین حتی نبعث رسولا (الاسراء) ( اور ہم عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ہم نہ بھیجیں کسی رسول کو) اور فرمایا : آیت : وجآئکم النذیر ( فاطر :
37
) ( اور تشریف لے آیا تھا تمہارے پاس ڈرانے والا) کہا گیا ہے کہ یہ رسل (علیہ السلام) ہیں اور ابن عباس ؓ نے فرمایا : مراد بڑھاپا ہے، کیونکہ وہ کہولت کی عمر میں آجاتا ہے اور یہ بچپن کی عمر سے مفارقت اور جدائی کی علامت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ساٹھ برس کو عذر دور کرنے کی غایت اور انتہا قرار دیا ہے، کیونکہ ساٹھ برس بندوں کے اتنہائی تجربہ کار ہونے کے قریب ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات تاک میں ہوتی ہے۔ پس اس میں کوشش کے بعد کوشش ہے ( اور ڈراوے کے بعد ڈراوا ہے) پہلا ( ڈراوا) نبی مکرم ﷺ کے ساتھ اور دوسرا بڑھاپے کے ساتھ اور یہ چالیس برس مکمل ہونے کے وقت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : وبلغ اربعین سنۃ قال رب اوزعنی ان اشکر نعمتک ( الاحقاف :
15
) پس اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ جو آدمی چالیس برس کی عمر کو پہنچ جائے تو اب اس کے لیے وقت ہے کہ وہ اپنی ذات پر اور اپنے والدین پر اللہ تعالیٰ کے احکامات و احسانات کی مقدار کو جانے اور ان کا شکر ادا کرے۔ امام مالک (رح) نے بیان کیا : میں اپنے شہر کے اہل علم کو جانتا ہوں، وہ دنیا تلاش کرتے رہتے ہیں اور لوگوں میں مل جل کر رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کے چالیس برس پورے ہوجاتے ہیں، پس جب ان پر یہ وقت آجائے تو وہ لوگوں سے علیحدگی اور کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔ مسئلہ نمبر
3
۔ یہ آیت اس پر بھی دلیل ہے کہ تاریخ راتوں سے ( شمار) ہوتی ہے نہ کہ دنوں سے، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ثلٰثین لیلۃ ( تیس راتیں) کیونکہ راتیں ہی مہینوں کی ابتدا ہیں۔ اور انہی کے ساتھ صحابہ کرام ؓ ایام کے بارے خبر دیتے تھے، یہاں تک کہ مروی ہے کہ وہ کہتے تھے : سمنا خمسا مع رسول اللہ ﷺ ( ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پانچ روزے رکھے) ۔ اور عجمی اس میں مخالفت کرتے ہیں اور وہ دنوں کے ساتھ حساب لگاتے ہیں، کیونکہ ان کا اعتماد سورج پر ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : سورج کا حساب منافع ( بیع، شرا اور اجارہ وغیرہ) کے لیے ہے اور چاند کا حساب مناسک ( احکام) کے لیے ہے، اسی لیے فرمایا : آیت : ووعدناموسی ثلثین لیلۃ کہا جاتا ہے : ارخت تاریخا اور ورخت توریخا ( میں نے تاریخ بیان کی) اس میں یہ دونوں لغتیں ہیں۔ قولہ تعالیٰ : آیت : وقال موسیٰ لاں یہ ھرون اخلفنی فی قومی واصلح اس کا معنی ہے : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کی مناجات کے لیے جانے اور اسی میں اپنے آپ کو مشغول رکھنے کا ارادہ کیا تو آپ نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو فرمایا : تم میرے نائب اور خلیفہ ہو۔ پس یہی ارشاد اپنا نائب اور خلیفہ بنانے پر دلیل ہے۔ اور صحیح مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت علی کو فرماتے ہوئے سنا ہے جب آپ ﷺ نے انہیں ایک غزوہ کے وقت اپنا نائب بنایا : اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، جلد
2
، صفحہ
278
) ( کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ تو میرے لیے ایسے ہو جیسے ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نائب تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے) اس روایت سے روافض، امامیہ اور شیعہ کے تمام فرقوں نے اس پر استدلال کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت علی ؓ کو تمام امت پر خلیفہ اور نائب بنایا، یہاں تک کہ امامیہ نے صحابہ کرام کو کافر قرار دیا۔ قجہم اللہ ( اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے) نوٹ : اب ان کے مقتدر علماء اس قسم کے اقوال سے اجتناب کرتے ہیں اور خلفاء راشدین، امہات المومنین اور صحابہ کرام کے بارے میں تکریم کے الفاظ ذکر کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک انہوں نے اس عمل کو ترک کردیا ہے جو حضرت علی ؓ کی خلافت پر نص ہے۔ اور انہوں نے آپ کے سوا کسی اور کو اجتہاد کے ساتھ خلیفہ بنا لیا۔ اور ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے حضرت علی ؓ کو کافر قرار دیا جب آپ اپنے حق کے مطالبہ کے لیے نہ اٹھے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے اپنے کفر میں اور ان کے کفر میں جو ان کے قول کی اتباع اور پیروی کرتے ہیں کوئی شک نہیں۔ اور وہ یہ نہیں جانتے کہ زندگی میں کسی کو اپنا نائب اور خلیفہ بنانا اس وکالت کی طرح ہے جو موکل کے معزول کرنے یا اس کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے اور یہ اس کی وفات کے بعد تک باقی رہنے کا تقاضا نہیں کرتی، پس اس سے وہ مسئلہ حل ہوجائے گا جس کے ساتھ امامیہ وغیرہ کا تعلق ہے۔ اور حضور بنی مکرم ﷺ نے مدینہ طیبہ پر حضرت ابن مکتوم ؓ اور کئی دوسروں کو نائب اور خلیفہ بنایا ہے اور اس سے بالاتفاق ان کی خلافت کا دائمہ ہونا لازم نہیں۔ اور اس بنا پر بھی کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اصل رسالت میں شریک کیا گیا تھا، پس ان کے لیے اس میں اس پر کوئی دلیل نہیں ہے جو قصد انہوں نے کیا ہے۔ واللہ الموفق للہدایۃ قولہ تعالیٰ : آیت : واصلح یہ اصلاح سے امر ہے۔ ابن جریج (رح) نے کہا ہے کہ اصلاح میں سے یہ تھا کہ آپ سامری کو زجر وتوبیخ کرتے اور اسے بدل دیتے (المحرر الوجیز۔ جلد
2
، صفحہ
450
) ۔ اور بعض نے یہ کہا ہے : ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کریں اور ان کے امور کی اصلاح کریں اور اپنے آپ کی اصلاح کریں، یعنی مصلح ہوجائیں۔ آیت : ولاتتبع سبیل المفسدین یعنی آپ گنہگاروں اور نافرمانوں کی راہ نہ چلیں۔ اور نہ ہی ظالموں کے معاون و مددگار بنیں۔
Top