Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 157
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ١٘ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ١ۙ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَّبِعُوْنَ : پیروی کرتے ہیں الرَّسُوْلَ : رسول النَّبِيَّ : نبی الْاُمِّيَّ : امی الَّذِيْ : وہ جو۔ جس يَجِدُوْنَهٗ : اسے پاتے ہیں مَكْتُوْبًا : لکھا ہوا عِنْدَهُمْ : اپنے پاس فِي : میں التَّوْرٰىةِ : توریت وَالْاِنْجِيْلِ : اور انجیل يَاْمُرُهُمْ : وہ حکم دیتا ہے بِالْمَعْرُوْفِ : بھلائی وَيَنْهٰىهُمْ : اور روکتا ہے انہیں عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَيُحِلُّ : اور حلال کرتا ہے لَهُمُ : ان کے لیے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَيُحَرِّمُ : اور حرام کرتا ہے عَلَيْهِمُ : ان پر الْخَبٰٓئِثَ : ناپاک چیزیں وَيَضَعُ : اور اتارتا ہے عَنْهُمْ : ان کے بوجھ اِصْرَهُمْ : ان کے بوجھ وَالْاَغْلٰلَ : اور طوق الَّتِيْ : جو كَانَتْ : تھے عَلَيْهِمْ : ان پر فَالَّذِيْنَ : پس جو لوگ اٰمَنُوْا بِهٖ : ایمان لائے اس پر وَعَزَّرُوْهُ : اور اس کی رفاقت (حمایت کی) وَنَصَرُوْهُ : اور اس کی مدد کی وَاتَّبَعُوا : اور پیروی کی النُّوْرَ : نور الَّذِيْٓ : جو اُنْزِلَ : اتارا گیا مَعَهٗٓ : اس کے ساتھ اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
وہ جو (محمد رسول اللہ ﷺ کی جو نبی امی ہیں پیروی کرتے ہیں۔ جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں اور پاک چیزوں کو ان کے لئے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام تھیراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سے) پر (اور گلے میں) تھے اتار تے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی وہی مراد پانے والے ہیں۔
آیت نمبر : 157 اس میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : 1 یحییٰ بن ابی کثیر نے نوف بکالی حمیری (تفسیر طبری، جلد 9، صفحہ 101) سے روایت بیان کی ہے : جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کی وعدہ ملاقات کے لیے اپنی قوم کے ستر افراد چن لیے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا کہ میں تمہارے لیے زمین کو مسجد اور پاکیزہ بنا دوں تم نماز پڑھ سکو گے جہاں تمہیں نماز کا وقت آپہنچے سوائے غسل خانہ یا حمام یا قبرستان کے اور یہ کہ میں تمہارے دلوں میں سکینہ رکھ دوں اور میں تمہیں اس طرح بنا دوں کہ تم تو رات حفظ اور ازبر پڑھنے لگو، تم میں سے مرد و عورت، آزاد و غلام اور صغیر وکبیر سبھی اسے پڑھ سکیں گے۔ تو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اسے کے بارے اپنی قوم کو بتایا، تو انہوں نے کہا : ہم نہیں چاہتے کہ ہم گرجا گھروں کے بغیر نماز پڑھیں اور نہ ہم اپنے دوں میں سکینہ اٹھانے کی استطاعت رکھتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ سکینہ اس طرح ہو جیسے پہلے اور تابوت میں تھی اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہم تورات کو دیکھے بغیر پڑھیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : فساکتبھا للذین یتقون ویوتون الزکوۃ والذین ھم بایتنا یومنون۔۔ تا اولئک ھم المفلحون۔۔ پاس اسے اس امت کے لیے بنا دیا۔ تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی : اے میرے پروردگار، تو مجھے ان کا نبی بنا دے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ان کا نبی ان میں سے ہو کا۔ پھر عرض کیا : اے میرے رب ! مجھے ان میں سے بنا دے۔ فرمایا : تم انہیں ہر گز نہ پا سکے گے۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی : اے میرے رب ! میں تیرے پاس بنی اسرائیل کا وفد لے کر آیا ہوں، تو نے ہمارے وفد کا تحفہ ہمارے سوا دوسروں کو عطا فرما دیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا : آیت : ومن قوم موسیٰ امۃ یھدون بالحق وربہ یعدلون ( اور موسیٰ کی قوم سے ایک گروہ ہے جو راہ بتاتا ہے حق کے ساتھ اور اسی حق کے ساتھ عدل کرتا ہے) پس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس پر راضی ہوگئے۔ نوف نے کہا (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 461) ہے : پس تم اس اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرو جس نے بنی اسرائیل کا تحفہ تمہیں عطا فرمایا ہے۔ ابو نعیم نے بھی یہ قصہ امام اوزاعی (رح) کی حدیث سے ذکر کیا ہے انہوں نے فرمایا : ہمیں یحییٰ بن ابی عمرو شیبانی نے بتایا ہے انہوں نے کہا مجھے نوف بکالی نے بیان کیا ہے جب انہوں نے وعظ ونصیحت شروع کیا فرمایا : کیا تم اپنے اس رب کی حمد وثنا بیان نہیں کرو گے جس نے تمہاری حالت غیوبت میں تمہاری حفاظت کی اور اس نے تمہیں تمہارے نصیب کے بعد بھی مزید عطا کیا اور قوم بنی اسرائیل کو دیا جانے والا تحفہ تمہارے لیے رکھ چھوڑا۔ وہ یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کا وفد لے کر حاضر ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا : بلاشبہ میں نے تمہارے لیے زمین کو مسجد بنا دیا ہے اس طرح کہ اس میں جہاں بھی تم نماز پڑھوگے میں تماہری نماز قبول کرلوں گا سوائے تین جگہوں کے جس نے ان میں نماز پڑھی میں اس کی نماز قبول نہیں کروں گا اور وہ قبرستان، حمام اور غسلخانہ ہے۔ تو انہوں نے کہا : نہیں مگر پانی کے ساتھ۔ فرمایا : اور میں نے تمہیں اس طرح بنا دیا ہے کہ جس نے اکیلے نماز پڑھی تو میں اس کی نماز قبول کرلوں گا۔ انہوں نے کہا : نہیں، مگر جماعت کے ساتھ۔ مسئلہ نمبر 2 قولہ تعالیٰ : آیت : الذین یتبعون الرسول النبی الامی ان الفاظ نے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 462) یہود ونصار کو اس اشتراک سے خارج کردیا ہے جو اس قول آیت : فساکتبھا للذین یتقون میں ظاہر ہوتا ہے اور یہ وعدہ حضور نبی مکرم ﷺ کی امت کے لیے خاص ہوگیا۔ یہ قول حضرت ابن عباس اور ابن جبیر ؓ وغیرہما نے کہا ہے۔ اور یتبعون کا مفہوم ہے یعنی وہ لوگ جو آپ ﷺ کی شریعت، آپ کی دین اور آپ کے لائے ہوئے احکام کی اتباع کرتے ہیں۔ رسول اور نبی دو اہم ہیں اور دو معنوں کے لیے ہیں، کیونکہ رسول بنی کی نسبت اخص ہوتا ہے اور لفظ رسول کی مونی رسالت کے اہتمام کے لیے مقدم کیا گیا ہے، ورنہ معنوی اعتبار سے نبوت مقدم ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرت براء ؓ کا رد کیا جب انہوں نے یہ کہا : وبرسولک الذی ارسلت تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا : قل آمنت بنبیک الذین ارسلت یعنی کہو میں تیرے اس نبی کے ساتھ ایمان لایا جسے تو نے مبعوث فرمایا) یہ صحیح میں مذکور ہے۔ اور یہ بھی کہ ان کے قول : وبرسولک الذی ارسلت میں رسالت کا ذکر مکر رہے۔ اور اس کا معنی ایک ہے پس یہ ایسی زیادتی کی مثل ہوجائے گا جس میں کوئی فائدہ نہیں، بخلاف اس قول کے وبنبیک الذی ارسلت کیونکہ نبوت و رسالت میں کوئی تکرار نہیں ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 461 ) ۔ اس بنا پر ہر رسول نبی ہے، لیکن ہر نبی رسول نہیں، کیونکہ رسول اور نبی دونوں امر عام میں مشرتک ہیں اور وہ ہے النباء ( خبر دینا مراد نبوت ہے) اور امر خاص میں دونوں علیحدہ علیحدہ ہیں اور وہ ہے رسالت۔ پس جب تو نے کہا : حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہیں تو یہ اس معنی کو بھی متضمن ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہیں۔ او اسی طرح آپ ﷺ کے سوا دیگر انبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم کے بارے میں بھی ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ قولہ تعالیٰ : آیت : الامی یہ امۃ امیۃ کی طرف منسوب ہے، وہ جو اپنی ولادت کی اصل حالت پر ہو، نہ وہ لکھنا سیکھے اور نہ ہی پڑھنا۔ یہ ابن عزیز (رح) نے کہا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : تمہارے نبی ﷺ امی تھے نہ وہ لکھتے ہیں، نہ پڑھتے ہیںٰ اور نہ وہ حساب لگاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : وما کنت تتلوا من قبلہ من کتب و لا تخطہ بیمینک ( العنکبوت : 48) ( اور نہ آپ پڑھ سکتے تھے اس سے پہلے کوئی کتاب اور نہ ہی اسے لکھ سکتے تھے اپنے دائیں ہاتھ سے) اور صحیح میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : انا امۃ امیۃ لا نکتب ولا نحسب الحدیث (صحیح ملسم، کتاب القیام، جلد 1، صفحہ 347) ( بیشک ہم امی امت ہیں نہ ہم لکھتے ہیں اور نہ شمار کرتے ہیں) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حضور نبی مکرم ﷺ کی مکہ ام القری کی طرف نسبت ہے ( اس وجہ سے آپ کو امی کہا گیا ہے) اسے نحاس نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ قولہ تعالیٰ : آیت : الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورۃ والانجیل امام بخاری (رح) نے روایت بیان کی ہے کہ ہمیں محمد بن سنان نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں فلیع نے بیان کیا انہوں نے کہا ہمیں ہلال نے عطا بن یسار سے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 462) سے ملاقات کی اور میں نے کہا : تورات میں رسول اللہ ﷺ کی صفت کے بارے میں مجھے بتائیے۔ تو انہوں نے فرمایا : ہاں قسم بکدا ! بیشک تورات میں آپ ﷺ کی بعض وہ صفات بیان کی گئی ہیں جو قرآن کریم میں مذکور ہیں : آیت : یایھا النبی انا ارسلنٰک شاھدا ومبشرا ونذیرا (الاحزاب) اے نبی ! بیشک ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا) اور امیوں کے لیے پناہ گاہ بنا کر بھیجا، آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں، میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے، آپ اکھڑ مزاج اور تند خو نہیں ہیں اور نہ آپ بازاروں میں شور مچانے والے ہیں، آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے ہیں بلکہ معاف فرما دیتے ہیں اور بخش دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر کز آپ کی روح قبض نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ ان کے سبب ٹیڑھی ملت کو سیدھا کر دے۔ اس طرح کہ وہ لا الہ الا اللہ کہنے لگیں اور وہ اس کے ساتھ اندھی آنکھوں کو، بہرے کانوں کو اور بنددلوں کو کھول دے۔ ( بخاری کے علاوہ دوسری کتب میں ہے) حضرت عطا نے بیان کیا : پھر میں حضرت کعب ؓ جیسا جواب دیا) مگر یہ کہ حضرت کعب ؓ نے اپنی زبان میں فرمایا : قلوبا غلوفیا واذانا صمومیا واعینا عمومیا۔ ابن عطیہ (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 462) نے کہا ہے : میں یہ گمان کرتا ہوں کہ یہ وہم ہے یا عجمہ ہے۔ تحقیق حضرت کعب ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے یہ الفاظ کہے : قلوبا غلوفا وآذانا صموما واعینا عمومیا۔ علامہ طبری نے کہا ہے : یہ قبیلہ حمیر کی لغت ہے۔ اور حضرت کعب ؓ نے حضور نبی کریم ﷺ کی صفات میں میزدی یہ بیان کیں ؛ آپ کا مولد شریف مکہ مکرمہ ہے۔ اور آپ کی ہجرت گاہ طابہ ہے اور آپ کا ملک شام ہے۔ آپ کی امت حمد اور تعریف بیان کرنے والی ہے وہ ہر حال اور ہر منزل میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کریں گے، وہ اپنے اعضاء کو وضو میں دھوئیں گے اور اپنی پنڈلیوں کے نصف تک چادریں باندھیں گے، دھوپ کو پسند کرنے والے ہوں گے اور وہ وہیں نماز پڑھیں گے جہاں انہیں نماز نے آلیا اگرچہ جھاڑو مارتے ہوئے۔ میدان جہاد میں ان کی صف نماز میں ان کی صف کی مثل ہوگی۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ آیت : ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کا نھم بنیان مرصوص ( الصف) ( بیشک اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ان (مجاہدوں) سے جو اس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پرا باندھ کر گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے) مسئلہ نمبر 5۔ قولہ تعالیٰ : آیت : یامرھم بالمعروف وینھھم عن المنکر حضرت عطا نے بیان کیا ہے : آیت : یامرھم بالمعروف یعنی وہ انہیں شرک چھوڑنے، مکارم اخلاق اپنانے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ آیت : وینھھم عن المنکر اور وہ انہیں منکر یعنی بتوں کی عبادت کرنے اور قطع تعلقی سے منع کرتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : 6 قولہ تعالیٰ : آیت : ویحل لھم الطیبت امام مالک (رح) کا مذہب یہ ہے کہ طیبات سے مراد محللات ( حلال چیزیں) ہیں۔ تو گویا آپ نے محللات کو طیب کی صفت سے متصف کیا ہے، کیونکہ یہ ایسا لفظ ہے جو مدح و تشریف کو متضمن ہے۔ اور اس اعتبار سے خبائث کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ ان سے مراد محرمات ( حرام چیزیں) ہیں اسی وجہ سے حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : خبائث سے مراد خنزیر کا گوشت اور سود وغیرہ ہے۔ اور اس بنا پر امام مالک (رح) نے متقذرات (ناپسندیدہ چیزیں) مثلا سانپ، بچھو، گبریلا وغیرہ کو حلال قرار دیا ہے۔ امام شافعی (رح) کا مذہب یہ ہے کہ طیبات وہ ہیں جو کھانے کے اعتبار سے طیب اور پاکیزہ ہوں مگر ان کے نزدیک یہ لفظ اپنے عموم پر نہیں ہے، کیونکہ کھانے اور ذائقے کے اعتبار سے اس کا عموم شراب اور خنزیر کو حلال کرنے کا تقاضا کرتا ہے، بلکہ آپ اسے ان چیزوں کے ساتھ مختص قرار دیتے ہیں جنہیں شریعت نے حلال قرار دیا ہے۔ اور آپ لفظ خبائث کو عام قرار دیتے ہیں اور یہ ان تمام چیزوں کو شامل ہے جو شرعا محرمات ہیں یا متقذرات ہیں۔ پس وہ بچھوؤں، گبریلوں اور چھپکلی اور ان جیسی دیگر چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ پس لوگوں کے یہی دونوں نظریے ہیں اور سورة البقرہ میں یہ معنی پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 7 قولہ تعالیٰ : آیت : ویضع عنھم اصرھم، الاصر کا معنی ثقل اور بوجھ ہے (جامع ترمذی، باب سورة التوبہ، حدیث نمبر 3010، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ حضرت مجاہد، قتادہ اور ابن جبیر نے یہی کہا ہے۔ اور اصر سے مراد عہد بھی ہے۔ یہ حضرت ابن عباس، ضحاک اور حسن ؓ نے کہا ہے۔ اور یہ آیت دونوں معنوں کو جامع ہے، کیونکہ بنی اسرائیل سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ بوجھل اور بھارئی اعمال کے ساتھ قائم رہیں، پس اللہ تعالیٰ نے حضور نبی مکرم ﷺ کے سبب ان سے وہ عہد اور ان اعمال کا بوجھ اتار لیا، جیسا کہ پیشاب کو دھونا اور مال غنیمت کو حلال کردینا، حائضہ عورت کے ساتھ بیٹھنا، اس کے ساتھ مل کر کھانا اور اس کے ہمراہ لیٹنا وغیرہ، کیونکہ ان میں سے اگر کسی کے کپڑے پر پیشاب لگ جاتا تو وہ اسے کاٹ دیتا۔ اور یہ روایت بھی ہے کہ اگر ان کی جلد پر پیشاب لگ جاتا اور جب وہ مال غنیمت جمع کرتے تو آسمان سے ایک آگ نازل ہوتی اور وہ اسے کھا جاتی (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 463) اور جب کوئی عورت حائضہ ہوتی تو وہ اس کے قریب نہ جاتے۔ علاوہ ازیں بھی اسی طرح احکام تھے جو حدیث صحیح وغیرہ میں ثابت ہیں۔ مسئلہ نمبر : قولہ تعالیٰ : آیت : والاغلل التی کا نت علیھم، پس اغلال ( زنجیریں) انہیں بوجھوں کے لیے مجازا ذکر کیا گیا ہے۔ اور ان بوجھوں میں سے ہفتے کے دن کاروبار چھوڑنا بھی ہے، کیونکہ یہ روایت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہفتے کے دن ایک آدمی کو گھاس ( کا نے) اٹھائے ہوئے دیکھا تو اس کر گردن ماردی۔ یہ جمہور مفسرین کا قول ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 463 ) ۔ اور ان میں دیت نہ تھی، البتہ قصاص تھا۔ اور ان کی توبہ کی علامت کے طور پر انہیں حکم دیا گیا کہ وہ آپس میں قتال کریں، علاوہ ازیں بھی احکام تھے۔ پس انہیں بھی اغلال کے ساتھ تشبیہ دی گئی، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : فلیس کھعد الدار ام مالک ولکن احاطت بالرقاب السلاسل (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 464 ) وعاد الفتی کالکھل لیس بقائل سوی العدل شیا فاستراح العواذل پس حدود اسلام اور ممنوعات کی طرف قدت بڑھانے کے موانع کو ایسی زنجیروں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو گردنوں کو گھیرے ہوئے ہوں۔ اور اس معنی میں ابو احمد بن جحش کا ابو سفیان کے لیے قول ہے : اذھب بھا اذھب بھا طوق تھا طوق الحمامہ یعنی اس کی عار تجھے لازم ہے۔ کہا جاتا ہے : طوق فلان کذا جب وہ اسے لازم پکڑلے۔ مسئلہ نمبر : 9 اگر کہا جائے : اغلال جو کہ جمع ہے اس کا عطف اصر پر کیسے ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ مفرد ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصر مصدر ہے اور اس کا اطلاق کثرت پر ہوتا ہے۔ اور ابن عامر نے تو آصارھم جمع کے ساتھ پڑھا ہے، جیسا اعمالھم ہے۔ اور اس کی جمع گناہوں کی اقسام ہونے کے اعتبار سے ہے۔ اور باقیوں نے اسے واحد پڑھا ہے، کیونکہ یہ مصدر ہے اور اس کا اطلاق اپنی جنس کے قلیل و کثیر افراد پر ہوتا ہے اس کے باوجود کہ یہ لفظ مفرد ہے۔ اور ارشاد باری تعالیٰ : آیت : ولا تحمل علینا اصرا ( البقرہ : 7) آیت : لا یرتد الیھم طرفھم ( ابراہیم : 43) اور آیت : من طرف خفی ( الشوری : 45) یہ تمام الفاظ جمع کے معنی میں ہیں۔ مسئلہ نمبر : 10 قولہ تعالیٰ : آیت : فالذین امنوا بہ وعزروہ یعنی انہوں نے آپ کی عزت و توقیر کی اور آپ کی مدد کی۔ اخفش نے کہا : جحدری اور عیسیٰ نے تخفیف کے ساتھ وعزروہ پڑھا ہے اور اسی طرح عزرتموھم میں بھی کہا جاتا ہے : عزروہ یعزرہ ویعزرہ اور النور سے قرآن کریم اور الفلاح سے مراد مطلوب کو پانے میں کامیاب ہونا ہے۔ اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔
Top