Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 167
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ١ۖۚ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب تَاَذَّنَ : خبر دی رَبُّكَ : تمہارا رب لَيَبْعَثَنَّ : البتہ ضرور بھیجتا رہے گا عَلَيْهِمْ : ان پر اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مَنْ : جو يَّسُوْمُهُمْ : تکلیف دے انہیں سُوْٓءَ الْعَذَابِ : برا عذاب اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَسَرِيْعُ الْعِقَابِ : جلد عذاب دینے والا وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَغَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے (یہود کو) آگاہ کردیا تھا کہ وہ ان پر قیامت تک ایسے شخص کو مسلط رکھے گا جو انکو بری بری تکلیفیں دیتا رہے۔ بیشک تمہارا پروردگار جلد عذاب کرنے والا ہے۔ اور وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے۔
آیت نمبر : 167 یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے اسلاف کو آگاہ کیا کہ وہ اگر تبدیل نہ ہوئے اور وہ نبی امی ﷺ کے ساتھ ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسے شخص کو بھیج دے گا جو انہیں عذاب میں ڈال دے گا۔ او ابو علی نے کہا ہے : اذن مد کے ساتھ ہو تو بمعنی اعلم ( بنانا اور آگاہ کرنا) ہے اور اذن تشدید کے ساتھ ہو گو معنی نادی ( پکارنا، ندا دینا) ہے۔ اور ایک جماعت نے کہا ہے کہ آزن اور اذن دونوں بمعنی اعلم ہیں، جیسے ایقن اور تیقن کہا جاتا ہے۔ زہری نے کہا ہے : فقلت تعلم ان للصید غرۃ فالاتضیعھا فانک قاتلہ اور ایک دوسرے نے کہا ہے : تعلم ان شر الناس حی ینادی فی شعارھم یسار یعنی یہ بمعنی علم ہے اور یسومھم کا معنی ہے وہ انہیں چکھائے گا۔ اور یہ پہلے سورة البقرہ میں گزر چکا ہے۔ کہا گیا ہے : اس سے مراد بخت نصر ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عرب مراد ہیں۔ اور یہ قول بھی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کی امت مراد ہے۔ اور یہی اظہر ہے، کیونکہ یہ یوم قیامت تک باقی رہنے والے ہیں۔ واللہ اعلم حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : آیت : سوء العذاب یہاں ان سے جزیہ لینا مراد ہے۔ اور اگر کہا جائے : ان کی شکلیں تو مسخ کردی گئیں، تو پھر ان سے جزیہ کیسے لیا جاسکتا ہے ؟ تو جواب یہ ہے کہ وہ ان کے بیٹوں اور ان کی اولاد سے لیا جئاے گا۔ اور وہ ذلیل ترین قوم ہیں اور وہ یہودی ہیں۔ اور حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 168) کہ انہوں نے کہا : آیت : سوء العذاب سے مراد خراج ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہمارے نبی مکرم ﷺ کے سوا کسی نبی (علیہ السلام) نے کبھی خراج لازم نہیں کیا، سب سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہی خراج وضع کیا اور اسے تیرہ برس تک لاگو رکھا اور پھر روک دیا۔
Top