Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 189
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا١ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
هُوَ
: وہ
الَّذِيْ
: جو۔ جس
خَلَقَكُمْ
: پیدا کیا تمہیں
مِّنْ
: سے
نَّفْسٍ
: جان
وَّاحِدَةٍ
: ایک
وَّجَعَلَ
: اور بنایا
مِنْهَا
: اس سے
زَوْجَهَا
: اس کا جوڑا
لِيَسْكُنَ
: تاکہ وہ سکون حاصل کرے
اِلَيْهَا
: اس کی طرف (پاس)
فَلَمَّا
: پھر جب
تَغَشّٰىهَا
: مرد نے اس کو ڈھانپ لیا
حَمَلَتْ
: اسے حمل رہا
حَمْلًا
: ہلکا سا
خَفِيْفًا
: ہلکا سا
فَمَرَّتْ
: پھر وہ لیے پھری
بِهٖ
: اس کے ساتھ (اسکو)
فَلَمَّآ
: پھر جب
اَثْقَلَتْ
: بوجھل ہوگئی
دَّعَوَا اللّٰهَ
: دونوں نے پکارا
رَبَّهُمَا
: دونوں کا (اپنا) رب
لَئِنْ
: اگر
اٰتَيْتَنَا
: تونے ہمیں دیا
صَالِحًا
: صالح
لَّنَكُوْنَنَّ
: ہم ضرور ہوں گے
مِنَ
: سے
الشّٰكِرِيْنَ
: شکر کرنے والے
وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا۔ اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اسکے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا کا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر کچھ بوجھ معلوم کرتی (یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا) ہے تو دونوں (میاں بیوی) اپنے پروردگار خدائے عزوجل سے التجا کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں صحیح وسالم (بچہ) دیگا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔
آیت نمبر :
189
۔
190
اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبرا : قولہ تعالیٰ : آیت : ھو الذی خلقکم من نفس واحدۃ جمہور مفسرین نے کہا ہے : اس میں نفس واحد ( ایک نفس) سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔ آیت : وجعل منھا زوجھا) اور بنایا اس نے جوڑا) یعنی حواء (علیہا السلام) سے۔ آیت : لیسکن الیھا تاکہ وہ اس سے انس حاصل کریں اور اطمینان پائیں اور یہ سب جنت میں ہوا۔ پھر دوسری حالت کا آغاز ہوا جو ان دونوں کے زمین پر اترنے کے بعد دنیا میں پیش آئی۔ پس فرمایا : آیت : فلما تغشھا یہ جماع سے کنایہ ہے۔ آیت : حملت حملا خفیفا ہر وہ شے ہے جو پیٹ میں ہو یا درخت کے اوپر ہو تو وہ حمل کہلاتی ہے ( یعنی اس میں حا مفتوح ہے) اور جب وہ (بوجھ) پیٹھ پر ہو یا سر پر تو وہ حمل کہلاتا ہے ( یعنی اس میں حا مکسور ہوتی ہے) یعقوب نے حمل النخلۃ بالکسر بیان کیا ہے۔ اور ابو سعید سیرافی نے کہا ہے : عورت کے حمل کے بارے میں حمل اور رحمل دونوں کہے جاتے ہیں، یہ ایک بار اپنے مخفی اور پوشیدہ ہونے کی وجہ سے عورت کے حمل کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے اور ایک بار اپنے واضح اور ظاہر ہونے کی وجہ سے حمل الدابۃ ( چوپائے کا بوجھ) کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔ اور حمل مصدر بھی ہے جب کوئی کسی پر حملہ کرے تو کہا جاتا ہے : حمل علیہ، یحمل حملا۔ فمرت بہ یعنی پھر وہ منی کے ساتھ چلتی پھرتی رہتی ہے، یعنی اس ہلکے سے حمل کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ وہ فرما رہا ہے : وہ کھڑی ہوتی ہے، بیٹھتی ہے اور ادھر ادھر رہتی ہے، کروٹ بدلتی رہتی ہے اور وہ اپنے حمل کے بوجھل اور بھاری ہونے تک کوئی پرواہ نہیں کرتی۔ یہ معنی حسن اور مجاہد (رح) وغیرہ سے منقول ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے فاستمر بھا الحمل (پس اس کے ساتھ حمل قائم رہتا ہے) پس اس میں قلب کیا گیا ہے، جیسا کہ آپ کہتے ہیں : ادخلت القلنسوۃ فی راسی ( میں نے ٹوپی سر میں داخل کی) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اسے فمارت بہ الف اور تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ مار، یمور سے ہے جب کوئی آئے، جائے اور تصرف کرے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور یحییٰ بن یعمر ؓ نے فمرت بہ تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ المریۃ سے ماخوذ ہے، یعنی وہ اس بارے میں شک میں پڑجاتی ہے جو اسے لاحق ہوتا ہے کہ کیا یہ حمل ہے یا بیماری ہے ؟ یا اسی طرح کے اور شکوک و شبہات۔ مسئلہ نمبر
2
۔ قولہ تعالیٰ : آیت : فلما اثقلت پھر جب وہ بوجھل ہوجاتی ہے، جیسے آپ کہتے ہیں : اثمر النخل ( درخت پھل دار ہوگیا) اور بعض نے کہا ہے : جب وہ بوجھ میں داخل ہوجاتی ہے، جیسے آپ کہتے ہیں : اصبح وامسی ( اس نے صبح کی اور شام کی) دعواللہ ربھما، دعوا میں ضمیر حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حواء (علیہما السلام) کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اور یہ اس قول کی بنا پر ہے جو اس آیت کے قصص میں روایت کیا گیا ہے کہ حضرت حواء (علیہما السلام) جب پہلی بار حاملہ ہوئیں تو آپ نے جانتی تھیں کی یہ کیا ہے ؟ اور یہ اس کی قراءت کو تقویت دیتا ہے جس نے فمرت بہ تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے تو آپ اس سے گھبرا گئیں۔ چناچہ ابلیس نے آپ کی طرف موقع پالیا۔ حضرت کلبی (رح) نے کہا ہے : بیشک ابلیس ایک آدمی کی صورت میں حضرت حواء (علیہما السلام) کے پاس آیا جب آپ پہلے حمل کے ساتھ بوجھل ہوئیں اور کہا : تمہارے پیٹ میں یہ کہا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں نہیں جانتی۔ اس نے کہا : مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں یہ چوپایہ ہو۔ پس آپ نے یہ بات حضرت آدم (علیہ السلام) کو بتائی، تو وہ دونوں اس وجہ سے پریشان رہنے لگے۔ پس وہ (ابلیس) دوبارہ آپ کے پاس گیا اور کہنے گا : وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے خاص مقام و مرتبہ رکھتا ہے۔ پاس اگر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں تو تو انسان کو جنم دے گی کیا تو اس کا نام میری نسبت سے رکھے گی ؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔ اس نے کہا : پس میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں۔ پس جب آپ نے بچے کو جنم دیا تو وہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا : اس کا نام میرے نام پر رکھو۔ تو آپ نے پوچھا : تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا : حارث۔ اگر وہ آپ کو اپنا نام بتاتا تو یقینا آپ اسے پہچان لیتی۔ پس آپ نے بچے کا نام عبد الحارث رکھا۔ اسی طرح ضعیف حدیث سے یہ واقعہ ذکر کیا گیا ہے، یہ ترمذی وغیرہ میں ہے اور اسرائلیات میں کثیر واقعات ہیں جو ثابت نہیں۔ اور کوئی بھی صاحب دل ان کی اعتماد نہیں کرتا۔ بلاشبہ حضرت آدم اور حضرت حواء (علیہما السلام) اگرچہ اس نے ان دونوں کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں دھوکہ میں مبتلا کیا ہے لیکن مومن ایک بل سے دوبارہ دھوکہ دیا ایک جنت میں دھوکہ دیا اور ( ایک بار) زمین میں دھوکہ دیا “ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، جلد
1
، صفحہ
204
) ۔ اور اس کی تائد سلمی کی قراءت اتشرکون تا کے ساتھ سے کی گئی ہے۔ اور صالحا کا معنی ہے کہ وہ صحت مند اور تندرست بچہ چاہتا ہے۔ آیت : فلما اتھما صالحا جعلا لہ شرکاء فیما اتھما وہ شرک جو حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا (علیہما السلام) کی طرف منسوب ہے اس کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے اور وہ یہ ہے : مسئلہ نمبر
3
۔ مفسرین نے کہا ہے : یہ تسمیہ اور صفت میں شرک تھا، نہ کہ عبادت اور ربوبیت میں۔ اہل معانی نے کہا : بلاشبہ دونوں نے یہ نظریہ اختیار نہیں کیا کہ حار ان دونوں کا رب ہے اس وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹے کا نام عبدالحار رکھا ہے، بلکہ یہ قصد کیا کہ حارث بیٹے کی نجات کا سبب ہے اس لیے اس کا نام اس کے نام کے ساتھ رکھا جیسا کہ کوئی آدمی انتہائی عاجزی اور خضوع کی بنا پر اپنے آپ کو عبدضیفہ پکارنے لگے، نہ کہ اس بنا پر کہ ضعیف ( مہمان) اس کا رب ہے، جیسا کہ حاتم نے بھی کہا ہے : وانی لعبد الضیف مادام ثاویا وما فی الا تیک من شیبۃ العبد اور ایک قوم نے کہا ہے : بیشک یہ آدموں کی جنس کی طرف راجع ہے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے مشرکین کے حال کی وضاحت اور بیان ہے اور یہ وہ ( معنی) ہے جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ پس قول باری تعالیٰ ؛ آیت : جعلا لہ میں مراد مذکر اور مونث کفار ہیں اور اس سے دونوں جنسیں مراد لی گئی ہے۔ اور اس پر لیل فتعلی اللہ عما یشرکون ہے۔ اس میں یشرکان نہیں کہا ہے۔ یہ قول حسن ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے آیت : ھو الذی خلقکم من نفس واحدۃ وہ ہے جس نے تمہیں ایک شکل سے پیدا کیا ہے۔ آیت : وجعل منھا زوجھا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنا دیا۔ آیت : فلما تغشھا یعنی دونوں جنسوں نے ( جب ایک دوسرے کو ڈھانپ لیا) اس قول کے مطابق آیت میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حواء (علیہما السلام) کا ذکر نہیں ہوگا۔ پس جب اللہ تعالیٰ انہیں صحیح سالم صحت مند لڑکا عطا فرما دیتا ہے جیسے وہ اس کی خواہش رکھتے ہیں تو پھر وہ دونوں اسے فطرت سے شرک کی طرف پھیر دیتے ہیں، یہ مشرکین کا فعل ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” کوئی نومولود بچہ نہیں مگر وہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے “۔ اور ایک روایت میں ہے ” وہ اس ملت پر پیدا کیا جاتا ہے، ( پھر) اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی اور مجوسی بنا دیتے ہیں “۔ عکرمہ نے کہا ہے : حضرت آدم (علیہ السلام) اس کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد تمام مخلوق کے لیے عام قرار دیا ہے۔ حسین بن فضل نے کہا ہے : اہل فکر ونظر کے نزدیک یہ زیادہ عجیب ہے، کیونکہ پہلے قول میں عظائم کو اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اہل مدینہ اور حضرت عاصم نے توحید اور مفرد کی بنا پر شرکا پڑھا ہے۔ اور ابو عمرو اور تمام اہل کوفہ نے صیغہ جمع کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ فعلاء کے وزن پر ہے اور شریک کی جمع ہے۔ اخفش سعید نے پہلی قراءت کا انکار کیا ہے۔ اور یہ قراءت صحیح ہے اس سے پہلے مضاف محذوف ہے یعنی جعلا لہ ذا شرک جیسا کہ آیت : وسئل القریۃ ( یوسف :
82
) میں ہے پس معنی اس طرف راجع ہوگا کہ انہوں نے اس کے شریک بنا لیے۔ مسئلہ نمبر
4
۔ آیت اس پر دلیل ہے کہ حمل امراض میں سے ایک مرض ہے۔ ابن القاسم اور یحییٰ نے مالک سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا ہے : حمل کی ابتدا آسانی اور سرور ہے (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
820
) اور اس کا آخر بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے۔ یہ وہ ہے جو امام مالک (رح) نے کہا ہے : انہ مرض من الامراض قول باری تعالیٰ : آیت : دعواللہ ربھما کا ظاہر اس کی تائید کرتا ہے اور یہ وہ حالت ہے جس کا مشاہدہ حاملہ عورتوں میں کیا جاتا ہے۔ امر کے عظیم ہونے اور خطاب کے شدید ہونے کی وجہ سے ہی اس موت کو شہادت قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث طیبہ میں موجود ہے (سنن ابی داؤد، کتاب الجنائز، باب فی فصل من مات فی الطاعون، حدیث نمبر
2704
۔ ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اور جب یہ ظاہر آیت سے ثابت ہے، تو پھر حاملہ کی حالت افعال میں مریض کی حالت کی مثل ہے۔ علماء امصار کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ مریض کا فعل کسی کو ہبہ اور عطیہ دینے کے بارے اپنے ( مال کے) ثلث ( تہائی حصہ میں جاری ہوتا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے : بلاشبہ یہ حاملہ میں آزادی آدمی کی حالت کی مثل جاری ہوگا اور ہا اس سے قبل تو وہ اس طرح نہیں ہوتا۔ اور انہوں نے اس سے استدلال کیا ہے کہ حمل ایک عادت ہے اور اس میں غالب گمان سلامتی کا ہوتا ہے۔ ہم نے کہا ہے : اس طرح اکثر بیماریوں میں غالب گمان سلامتی کا ہوتا ہے اور کبھی وہ مرجاتا ہے جو مریض نہیں ہوتا۔ مسئلہ نمبر
5
۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : جس دن سے عورت حاملہ ہوئی اس دن سے جب اس کے چھ مہینے گزر جائیں تو پھر اس کا اپنے مال میں سوائے ثلث کے کوئی فیصلہ کرنا جائز نہیں۔ اور جس نے اپنی بیوی کو طلاق بائد دی درآنحالیکہ وہ حاملہ تھی تو جب اس پر چھ ماہ گزر گئے تو اس نے اس کی طرف رجوع کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے لیے یہ صحیح نہیں، کیونکہ وہ عورت مریضہ ہے اور مریضہ کا نکاح صحیح نہیں ہوتا۔ مسئلہ نمبر
6
۔ یحییٰ نے کہا ہے : میں نے حضرت امام مالک (رح) کو ایسے آدمی کے بارے میں جو قتال میں حاضر ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جب وہ جنگ کے لیے صف میں موجود ہو تو پھر اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مال کے تیسرے حصہ کے سوا میں کسی شے کا فیصلہ کرے، بلاشبہ وہ حاملہ عورت اور ایسے مریض کے قائم مقام ہے جس پر اس کی حالت کے سبب ( موت کا) خوف غالب ہوتا ہے۔ اور اسی حکم میں وہ بھی شامل ہے جسے قصاصا قتل کرنے کے لیے قید کیا گیا ہو۔ اس بارے میں امام اعظم ابوحنیفہ اور امام شافعی وغیرہ رحمۃ اللہ علیہما نے اختلاف کیا ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
821
) نے کہا ہے : جب تو بنظر غائر دیکھے تو تجھے اس بارے میں کوئی شک نہ ہوگا کہ قتل کے لیے محبوس آدمی کی حالت مریض کی نسبت زیادہ شدید اور پریشان کن ہوتی ہے اور اس کا انکار نظروفکر میں غفلت کی علامت ہے، کیونکہ دونوں کے نزدیک موت کا سبب موجود ہے۔ جیسا کہ مرض موت کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : ولقد کنتم تمنون الموت من قبل ان تلقوہ فقد رایتموہ وانتم تنظرون ( ال عمران) ( اور تم تو آرزو کرتے تھے موت کی اس سے پہلے کہ تم اس سے ملاقات کرو سو اب دیکھ لیا تم نے اس کو اور تم (آنکھوں سے) مشاہدہ کر رہے ہو) اور روشد طائی نے کہا ہے : یا ایھا الراکب المزجی مطیتہ سائل بنی اسد ما ھذہ الصوت وقل لھم بدروا بالعذر والتمسوا قولا یبرئکم ان انا الموت اور جو اس پر دلالت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے آیت : اذ جاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکم واذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر ( الاحزاب :
10
) ( جب انہوں نے ہلہ بول دیا تھا تم پر اوپر کی طرف سے بھی اور تمہارے نیچے کی طرف سے بھی اور جب مارے دہشت کے آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آگئے) پس امام اعظم ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما کیسے کہتے ہیں کہ شدید ترین حالت بلاشبہ یہ مبارزت ( اور مقابلہ) کہ حالت ہے، درآنحالیکہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کے مقابل ہونے اور دونوں فریقوں کے ایک دوسرے کے ساتھ قریب ہونے کی اس عظیم حالت کے ساتھ خبر دی ہے جس میں دل نر خروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اور ( یہ) اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوء ظن رکھتے اور دلوں کے متزلزل اور ان کے اضطراب میں سے ہے، کیا یہ حالت تو مریض پر دیکھتا ہے یا نہیں ؟ یہ وہ حالت ہے جس میں کوئی انصاف کرنے والا شک نہیں کرسکتا۔ اور یہ اس کے لیے جو اپنے اعتقاد میں ثابت اور پختہ ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس طرح جہاد کرے جیسے جہاد کا حق ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آیات ومعجزات کی شہادت سے، پس یہ ہمارے بارے میں کیسے ہو سکتی ہے ؟ مسئلہ نمبر
7
۔ ہمارے علماء نے سمندر میں سفر کرنے والے کے بارے میں خوف کے وقت حکم میں اختلاف کیا ہے کہ کہا اس کا حکم صحیح اور تندرست آدمی کے حکم میں ہوگا یا کہ حاملہ کے حکم میں ؟ تو ابن القاسم نے کہا ہے : اس کا حکم صحت مند آدمی کے حکم کی طرح ہے۔ ابن وہب اور اشہب نے کہا ہے : اس کا حکم اس حاملہ کے حکم کی طرح ہے جس کے حمل کی مدت چھ ماہ ہوجائے۔ قاضی ابو محمد نے کہا ہے : ان دونوں کا قول زیادہ عمدہ اور اچھا ہے، کیونکہ وہ اپنے نفس پر خوف کی حالت میں ہے جیسا کہ بوجھ اٹھانے والے ( حالت خوف میں ہوتے ہیں) ۔ ابن عربی (رح) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
821
) نے کہا ہے : اب القاسم نے سمندر کا سفر نہیں کیا اور نہ اس نے عود پر کوئی کپڑا دیکھا۔ اور جو چاہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یقین رکھنے والے کا ان سے کوئی تعلق نہیں اور توکل اور تفویض کرنا ثابت ہوتا ہے پس چاہیے کہ وہ سمندر کا سفر کرے۔
Top