Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 199
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
خُذِ : پکڑیں (کریں) الْعَفْوَ : درگزر وَاْمُرْ : اور حکم دیں بِالْعُرْفِ : بھلائی کا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لیں عَنِ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
(اے محمد ﷺ عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو۔
آیت نمبر : 199 اس میں تین مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : 1 یہ آیت تین کلمات پر مشتم ہے، جو مامورات اور منہیات میں قواعد شریعت کو متضمن ہیں۔ پس قول باری تعالیٰ : خذ العفو میں قطع تعلقی کرنے والوں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا، گنہگاروں سے معذرت قبول کر کے انہیں معاف کرنا، مومنین کے ساتھ نرمی کا برتاو کرنا اور علاوہ ازین اطاعت شعاروں کے اخلاق داخل ہیں۔ اور قول باری تعالیٰ : آیت : وامر بالعرف میں رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا، حلال و حرام کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، آنکھوں کو نیچا رکھنا اور دار آکرت کے لیے تیاری کرنا داخل ہے۔ اور قول باری تعالیٰ : آیت : واعرض عن الجھلین میں علم کے ساتھ تعلق قائم کرنے پر ابھارنا، ظلم کرنے والوں سے اعراض کرنا، احمقانہ جھگڑوں سے پرہیز کرنا، کند ذہن جہلاء کی مساوات سے بچنا اور دیگر اخلاق حمیدہ او افعال رشیدہ داخل ہیں۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : یہ خصال شرح وبسیط کی محتاج ہیں، تحقیق رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر بن سلیم کے لیے ان تمام کو جمع کیا۔ حضرت جابر بن سلیم ابو جری (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 823) نے بیان کیا ہے : میں اپنی سواری پر سوار ہوا پھر مکہ مکرمہ آیا اور رسول اللہ ﷺ کو تلاش کیا، میں نے اپنی سواری مسجد کے دروازے پر بٹھائی۔ تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میری رہنمائی کی، آپ ﷺ وہاں تشریف فرما تھے آپ اپنے اوپر سرخ دھاری دار اونی چادر لیے ہوئے تھے، میں نے عرض کی : السلام علیک یا رسول اللہ، تو آپ نے فرمایا : ” وعلیک السلام “۔ پھر میں نے عرض کی : بیشک ہم ( دیہاتی) جنگل میں رہنے والے لوگ ہیں، ایسی قوم ہیں کہ ہم میں جفا اور زیادتی وافر ہے، سو آپ مجھے ایسے کلمات سکھا دیں جن کے سبب اللہ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے۔ آپ نے فرمایا : ” قریب آ “ ، آپ نے یہ تین بار فرمایا، چناچہ میں قریب ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” میری طرف توجہ کر “ میں آپ کی طرف متوجہ ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا :” تو اللہ تعالیٰ سے ڈر اور کسی نیکی کو بھی حقیر نہ جان ( اگرچہ) وہ تیرا اپنے بھائی کو متبسم چہرے کے ساتھ ملنا ہی ہو اور یہ کہ تو پانی طلب کرنے والے کے برتن میں اپنا ڈول مکمل طور پر انڈیل دے اگر کوئی آدمی تجھے ایسے سبب سے گالیاں دیتا ہے جسے وہ تجھ میں نہیں جانتا تو تو اسے اس وجہ سے گالیاں نے دے جسے تو اس میں جانتا ہے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسے تیرے لیے اجر بنا دے گا اور اس پر اسے بوجھ بنا دے گا اور تو ان ( چیزوں) میں سے کسی شے کو بھی برا بھلا نہ کہہ جو اللہ تعالیٰ نے تجھے عطا فرمائی ہیں “۔ ابو جری نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! میں نے اس کے بعد کسی بکری اور کسی اونٹ کو بھی گالیاں نہیں دیں۔ اس کو اس معنی کے ساتھ ابوبکر البزار نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے۔ (سنن ابی داؤد، باب ما جاء فی اسیال الذوار، حدیث نمبر 3562، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو سعید مقبری نے اپنے باپ کے واسطہ سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے حدیث روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” بلاشبہ تم لوگوں کو اپنے مالوں کے ساتھ وسعت نہیں دے سکتے البتہ تمہاری طرف سے چہرے کی کشادگی اور حسن اخلاق انہیں وسعت عطا کرسکتا ہے “۔ اور حضرت ابن زبیر ؓ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے یہ آیت محض لوگوں کے اخلاق کے بارے میں نازل فرمائی ہے۔ امام بخاری (رح) نے ہشام بن عروہ عن ابیہ عن عبد اللہ بن زبیر ؓ (صحیح بخاری، سورة اعراف، جلد 2، صفحہ 669) کی حدیث سے قول باری تعالیٰ : آیت : خذالعفو وامر بالعرف کے بارے ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت محض لوگوں کے اخلاق کے بارے نازل فرمائی ہے۔ حضرت سفیان بن عیینہ نے حضرت شعبی (رح) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 823) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : بیشک حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) حضور نبی مکرم ﷺ پر نازل ہوئے، تو حضور نبی مکرم ﷺ نے انہیں فرمایا :” اے جبرائیل یہ کہا ہے ؟ “ تو انہوں نے عرض کی : میں نہیں جانتا یہاں تک کہ میں عالم ( جاننے والے) سے پوچھ لوں۔ ایک روایت میں ہے : ” میں نہیں جانتا یہاں تک کہ میں اپنے رب سے پوچھ لوں “۔ چناچہ وہ گئے اور تھوڑی ہی دیر گزری کہ وہ واپس لوٹ آئے اور بتایا : بیشک اللہ تعالیٰ آپ کو حکم فرمارہا ہے کہ آپ اسے معاف فرما دیں جو کوئی آپ سے ظلم و زیادتی کرے اور اسے عطا فرمائیں جو آپ کو محروم رکھے او اس سے صلہ رحمی کریں جو آپ سے قطع تعلقی کرے “۔ کسی شاعر نے اسے نظم کیا ہے اور اس نے کہا ہے : مکارم الاخلاق فی ثلاثۃ من کملت فیہ فذالک الفتی اعطاء من تحرمہ ووصل من تقطعہ والعفو عمن اعتدی امام جعفر صادق ؓ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے نبی مکرم ﷺ کا مکارم اخلاق کے بارے حکم ارشاد فرمایا ہے، قرآن کریم میں اس آیت سے زیادہ مکارم اخلاق کی جامع کوئی آیت نہیں ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا : آ ” میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں “۔ شاعر نے کہا ہے : کل الامور تزول عنک وتنقضی الا الثناء فانہ لک باقی ولو اننی خیرت کل فضیلۃ ما اخترت غیر مکارم الاخلاق اور سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ نے طور سینا پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمائی۔ آپ سے کہا گیا : کون سی شے کے بارے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نصیحت فرمائی ؟ تو آپ نے فرمایا : نو چیزوں کے بارے، سرا اور جہرا اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، حالت رضا اور غضب میں کلمہ حق کہنا، حالت فقر اور غنا میں میانہ روی اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس سے صلہ رحمہ کروں جو مجھ سے قطع تعلقی کرے اور اسے عطا کروں جو مجھے محروم رکھے اور اس سے درگزر کروں جو مجھے پر زیادتی کرے اور یہ کہ میرا ابو لنا ذکر ہو، میری خاموشی فکر ہو اور میرا دیکھنا عبرت ہو۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : تحقیق ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : ” میرے رب نے مجھے نو چیزوں کا حکم ارشاد فرمایا ہے سرا اور علانیۃ، اخلاص اختیار کرنا، حالت رضا اور غضب میں عدل کرنا، غنی اور فقر کی حالت میں میانہ روی اپنانا اور یہ کہ میں اس سے درگزر کروں جو مجھ پر ظلم و زیادتی کرے اور اس سے صلہ رحمی کروں جو مجھ سے قطع تعلقی کرے اور اسے عطا کروں جو مجھے محروم رکھے اور یہ کہ میرا بولنا ذکر ہو، میری خاموشی ہو اور میری نظر عبرت ہو “۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قول باری تعالیٰ : خذالعفو سے مراد زکوۃ ہے، کیونکہ زکوۃ کثیر مال میں سے تھوڑی سی ہوتی ہے۔ اور یہ معنی مراد لینے میں انتہائی بعد ہے، کیونکہ یہ عفا سے ہے جب وہ مٹ جائے ( یعنی نام ونشان ختم ہوجائے) تحقیق کہا جاتا ہے : خذالعفو منہ، یعنی تو اس پر تنقیص نہ کر اور اس سے درگزر کرلے۔ اور سبب نزول اس کی تردید کرتا ہے۔ واللہ اعلم کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مشرکین پر حجت قائم کرنے کے بارے حکم ارشاد فرمایا ہے تو اس نے مکارم اخلاق پر آپ کی رہنمائی فرمائی ہے، کیونکہ یہی مشرکین کو ایمان کی طرف کھینچ لانے کا سبب ہے، یعنی لوگوں کے اخلاق میں سے جو مٹ چکے ہیں آپ ان کیساتھ ان سے پیش آئیں اور انہیں آسان بنا دیں۔ تو کہتا ہے : اخذت حقی عفوا صفوا، ای سھلا یعنی میں نے اپنا حق آسانی سے لے لیا۔ مسئلہ نمبر 2۔ قولہ تعالیٰ : آیت : وامربالعرف یہ عرف بمعنی معروف ہے یعنی آپ نیکی کا حکم دیجئے۔ عیسیٰ بن عمر نے العرف دو ضموں کے ساتھ پڑھا ہے، جیسے حلم ہے اور یہ دونوں لغتیں ہیں۔ العرف، المعروف اور العارفۃ سے مراد ہر وہ اچھی خصلت ہے جسے عقول پسند کرتی ہیں اور اس کے ساتھ دل اطمینان پاتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے : من یفعل الخیر لا یعدم جو زیہ لا یذھب العرف بین اللہ والناس اور حضرت عطا نے کہا ہے : وامر بالعرف سے مراد لا الہ الا اللہ ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ قولہ تعالیٰ : آیت : واعرج عن الجھلین یعنی جب آپ ان پر حجت قائم کردیں اور انہیں نیکی کا حکم دیں پھر وہ آپ پر جہالت اور نادانی کا اظہار کریں تو ان سے اعراض فرما لیں، ان کے خلاف اپنی حفاظت کے لیے اور ان کے جواب سے اپنے درجہ اور مقام کو بلند رکھتے ہوئے۔ یہ اگرچہ خطاب حضور نبی مکرم ﷺ کو ہے لیکن مقصود اپنی تمام مخلوق کو ادب سکھانا ہے۔ ابن زید اور عطا رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے : یہ آیت آیۃ السیف سے منسوخ ہے۔ حضرت مجاہد اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے : یہ محکم ہے۔ اور یہی صحیح ہے، کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ عیینہ بن حصن بن حذیفہ بن بدر آیا اور وہ اپنے بھتیجے حربن قیس ابن حصن کے پاس آکر اترا اور یہ ان لوگوں میں سے تھا جنہیں حضرت عمر ؓ قریب رکھتے تھے اور قراء حضرت عمر ؓ کی مجالس اور آپ کی مشاورت کے اصحاب تھے، وہ بوڑھے تھے یا جوان، تو عیینہ نے اپنے بھتیجے کو کہا : اے بھتیجے ! کیا تیرا اس امیر کے پاس کوئی تعلق اور ذریعہ ہے کہ تو میرے لیے اس کے پاس داخل ہونے کی اجازت لے لے۔ اس نے جواب دیا : میں عنقریب تمہارے لیے ان سے اجازت لے لوں گا۔ چناچہ اس نے عیینہ کے لیے اجازت طلب کی۔ پس جب وہ داخل ہوا تو کہا : اے ابن خطاب ! قسم بخدا ! تو ہمیں زیادہ نہیں عطا کرتا اور نہ تو ہمارے درمیان عدل سے فیصلے کرتا ہے۔ راوی نے بیان کیا : پس حضرت عمر ؓ غصے ہوگئے یہاں تک کہ آپ نے اسے سزا دینے کا قصد کرلیا۔ تو حر نے کہا : اے امیر المومنین ! بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو فرمایا : آیت : خذالعفو وامر بالعرف واعرض عن الجھلین بلاشبہ یہ جاہلوں میں سے ہے۔ تو قسم بخدا، حضرت عمر ؓ نے اسی وقت اس سے تجاوز کرلیا ( اور اعراض برت لیا) جونہی انہوں نے آپ پر یہ آیت تلاوت کی اور آپ اللہ عزوجل کی کتاب سے خوب واقف تھے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : پس حضرت عمر ؓ کا اس آیت کے مطابق عمل کرنا اور حضرت حر کا اس سے استدلال کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں۔ اور اسی طرح اسے حضرت حسن بن علی بن ابو طالب ؓ نے بھی استعمال کیا، اس کا بیان آگے آئے گا۔ اور جب جفا اور زیادتی سلطان کے خلاف عمدا اور اس کے حق کو حقیر جانتے ہوئے ہو تو اس کے لیے اس پر تعزیر ہے۔ اور جب اس کے سوا ہو تو پھر اعراض، درگزر اور عفو ہے، جیسا کہ خلیفہ عادل نے کیا۔
Top