Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 200
وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِمَّا : اور اگر يَنْزَغَنَّكَ : تجھے ابھارے مِنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان نَزْغٌ : کوئی چھیڑ فَاسْتَعِذْ : تو پناہ میں آجا بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنَّهٗ : بیشک وہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کسی طرح کا وسوسہ پیدا ہو تو خدا سے پناہ مانگو بیشک وہ سننے والا (اور) سب کچھ جاننے والا ہے
آیت نمبر : 200 اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : 1 جب ارشاد باری تعالیٰ : آیت : خذ العفو نازل ہوا تو حضور ﷺ نے کہا : اے میرے رب ! کیسے غصہ سے بچ سکتا ہوں ؟ تب یہ آیت نازل ہوئی آیت : واما ینزغنک اور نزغ الشیطان سے مراد اس کے وساوس ہیں۔ اس میں دو لغتیں ہیں : نزغ اور نغز۔ کہا جاتا ہے : ایاک والنزاغ والنغاز وساوس سے بچ، درآنحالیکہ وہ ( فساد پر) بھڑکانے اور ابھارنے والے ہیں۔ زجاج نے کہا ہے : النزغ سے مراد تھوڑی سی حرکت ہوتی ہے اور شیطان کی طرف سے ادنی سا وسوسہ ہوتا ہے۔ حضرت سعید بن مسیب ؓ نے بیان فرمایا : میں حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ کے پاس حاضر تھا اور ان کے درمیان شیطان کی جانب سے وسوسہ پیدا ہوگیا تو ان میں سے کسی ایک نے اپنے ساتھی کیلیے کوئی شے باقی نہ رکھی، پھر وہ دونوں آپس میں جدا نہیں ہوئے یہاں تک کہ انمیں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کے لیے استغفار کیا اور مغفرت طلب کی۔ اور ینزغنک کا معنی ہے : غصے کے وقت تجھے ایسا وسوسہ پہنچے اور عارض آئے کہ اس کے سبب وہ غصہ نہ اترے۔ آیت : فاستعذ باللہ تو اس بارے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کر۔ پس اللہ تعالیٰ نے حکم ارشاد فرمایا کہ اس سے التجا کرنے اور اس کی پناہ طلب کرنے کے سبب وہ وسوسہ کو دور کرے اور اللہ تعالیٰ اعلی صفات کا مالک ہے۔ پس کتوں سے پناہ طلب نہیں کی جائے گی مگر کتوں کے رب کی پناہ طلب کی جائے گی۔ اسلاف میں سے کسی سے یہ حکایت منقول ہے کہ انہوں نے اپنے شاگرد کو کہا : تو شیطان کے بارے کیا کرے گا جب وہ تیرے لیے گناہوں کو مزین اور آراستہ کرے ؟ تو اس نے جواب دیا : میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔ اس نے پھر پوچھا : پھر اگر وہ لوٹ آئے ؟ اس نے جواب دیا : میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔ اس نے پوچھا : اگر وہ پھر آگیا ؟ اس نے جواب دیا : میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔ اس نے کہا : یہ تو طویل ہوجائے گا، تیرا کیا خیال ہے اگر تو تیرا گزر کسی ریوڑ کے پاس سے ہو اور اس کا کتا تجھے بھونکنے لگے اور تجھے آگے بڑھنے سے روک دے تو تو کیا کرے گا ؟ اس نے جواب دیا : میں اس کی تکلیف کو برداشت کروں گا اور اپنی ہمت کے ساتھ اسے واپس لوٹا دوں گا۔ اس نے کہا : یہ تو معاملہ تجھ پر طویل ہوجائے گا، البتہ تو ریوڑ کے مالک سے مدد طلب کر تو وہ اسے تجھ سے روک لے گا۔ مسئلہ نمبر 2 : النغز والنزغ والھمز والوسوسۃ یہ تمام الفاظ معنی میں برابر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : وقل رب اعوذ بک من ھمزت الشیٰطین ( المومنون) ( اور کہیے میرے رب ! میں پناہ طلب کرتا ہوں تیری شیطانوں کے وسوسوں سے) اور مزید فرمایا : آیت : من شرالوسواس الخناس ( الناس) ( بار بار وسوسہ ڈالنے والے، بار بار پسپا ہونے والے کے شر سے) نزغ کا اصل معنی فساد برپا کرنا ہے، کہا جاتا ہے : نزغ بیننا یعنی اس نے ہمارے درمیان فساد برپا کردیا۔ اور اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : نزغ الشیطن بینی وبین اخوتی (یوسف : 100) یعنی میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان شیطان نے فساد برپا کردیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کہا النزغ کا معنی الاغواء ( گمراہ کرنا) اور الاغراء ( بھڑکانا، ابھارنا) ہے اور یہ معنی میں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں اس آیت کی نظیر وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 79) اور اسے کہتا ہے فلاں فلاں شے کو کس نے پیدا کیا یہاں تک کہ وہ اسے یہ کہہ دیتا ہے تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ پس جب وہ اس تک پہنچ جائے تو اسے (آدمی کو) چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے اور اس ( میں فکر کرنے) سے رک جائے ( باز آجائے) “۔ اور اس بارے میں حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا : حضور نبی مکرم ﷺ سے وسوسہ کے بارے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ محض۔۔۔ ہے “ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے :” وہ صریح ایمان ہے “۔ اور صریح سے مراد خالص ہے ( یعنی وہ خالص ایمان ہے) اور یہ اپنے ظاہر ( معنی) پر نہیں، کیونکہ یہ صحیح نہیں ہے کہ وسوسہ بذات خود ایمان ہو، کیونکہ ایمان تو یقین ہے، بلاشبہ یہ اشارہ اس خوف الہٰی کی طرف ہے جو انہوں نے اپنے دلوں میں پایا کہ انہیں اس پر سزا دی جائے گی جو ان کے دلوں میں واقع ہوا ہے۔ تو گویا آپ نے یہ فرمایا : تمہارا اس ( وسوسہ) سے ڈرنا محض ایمان اور خالص ایمان ہے، کیونکہ تمہارا ایمان صحیح ہے اور تمہیں وسوسہ کے فساد کے بارے علم ہے۔ پس آپ ﷺ نے وسوسہ کو ایمان کا نام دیا، کیونکہ اس کا دفاع، اس سے اعراض کرنا، اس کو رد کرنا، اسے قبول نہ کرنا اور اس سے ڈرنا ایمان کے سبب ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اور رہا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پناہ طلب کرنے کا حکم فرمایا ہے تو یہ اس لیے کہ وہ وساوس شیطان کے آثار اور علامات میں سے ہوتے ہیں۔ اور رہی اس معاملہ کی انتہا تو وہ ان کی طرف مائل ہونا اور ان کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ پس جو صحیح الایمان ہو اور اس نے اس کے مطابق عمل کیا جس کے بارے اسے اس کے رب اور اس کے نبی ﷺ نے حکم ارشاد فرمایا تو اس نے اسے نفع دیا اور اس نے اس سے نفع حاصل کیا۔ اور رہا وہ جسے شبہ لاحق ہوگیا اور اس پر احساس غالب آگیا اور وہ اس سے علیحدگی پر قادر نہ ہوسکا تو پھر اس کی تشفی کے لیے دلیل عقلی کا ہونا ضروری ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی کو فرمایا جسے اجرب اونٹ کے بارے شبہ لاحق ہوگیا تو اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا : لا عدوی ( متعدی مرض نہیں ہے) اور اعرابی نے کہا : اونٹوں کو کیا ہوا جو صحرا میں ہوتے ہیں تو ہرن کی مثل ہوتے ہیں پس جب ان میں اجرب اونٹ داخل ہوا تو اس نے انہیں اجرب کردیا ؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا : فمن اعدی الاول تو پہلے کو بیماری کس نے لگائی ؟ تو آپ کے اس ارشاد نے شبہ کو جڑ سے نکال دیا۔ پس جب شیطان حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب کے بارے میں انہیں اکسانے اور گمراہ کرنے سے مایوس ہوگیا، تو وہ وقتا فوقتا ان وساوس کے ذریعے ان میں تشویش پیدا کرنے لگ گیا۔ وساوس سے مراد باطل احساسات ہیں۔ پس ان کے دل ان سے نفرت کرنے لگے اور ان کے نزدیک ان کا وقوع ان پر بڑھ گیا پس وہ حاضر خدمت ہوئے، جیسا کہ صحیح میں ہے۔ اور عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ بلا شبہ ہم اپنے نفسوں میں وہ پاتے ہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی اسے اس سے بڑا سمجھ رہا ہے کہ وہ اس کے بارے کلام کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیا تم اسے پاتے ہو “ ؟ عرض کی : جی ہاں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ذالک صریح الایمان رغما للشیطان حسب ما نطق بہ القرآن فی قولہ : ان عبادی لیس لک علیھم سلطن ( حجر : 42) ( وہ صریح ( خالص) ایمان ہے شیطان کے لیے ذلت اور خاک ہے جیسا کہ اس کے بارے قرآن نے فرمایا : بیشک میرے بندے ان پر تجھے کوئی غلبہ نہیں ہوگا) پس دل میں اٹھنے والے ایسے خیالات جو پختہ نہ ہوں اور نہ وہ کسی شبہ کے سبب پیدا ہوئے ہوں تو یہ وہ ہیں جن سے اعراض کرلینے کے سبب انہیں دور کیا جاسکتا ہے۔ اور انہی کی مثل پر اسم وسوسہ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ یہ معنی سورة البقرہ کے آخر میں گزر چکا ہے، والحمد للہ
Top