Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 204
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قُرِئَ : پڑھا جائے الْقُرْاٰنُ : قرآن فَاسْتَمِعُوْا : تو سنو لَهٗ : اس کے لیے وَاَنْصِتُوْا : اور چپ رہو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
آیت نمبر : 204 اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : 1 قولہ تعالیٰ : آیت : واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا کہا گیا ہے : بیشک یہ نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ حضرت ابن مسعود، حضرت ابوہریرہ ، حضرت جابر، زہری، عیبداللہ بن عمیر، عطابن ابی رباح اور حضرت سعید بن مسیب ؓ عنہھم سے مروی ہے۔ حضرت سعید نے کہا ہے : رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھتے تھے تو مشرکین آپ کے پاس آتے تھے اور مکہ میں وہ آپس میں ایک دوسرے کو کہتے تھے : آیت : لاتسمعوا لھذا القران والغوا فیہ (فصلت : 26) ( مت سنا کرو اس قرآن کو اور شور وغل مچا دیا کرو اس کی تلاوت کے درمیان) تو اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب کے لیے یہ آیت نازل فرمائی : آیت : واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا آلایہ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت خطبہ کے بارے نازل ہوئی ہے (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 238) ۔ حضرت سعید بن جبیر، مجاہد، عطا، عمروبن دینار، زید بن اسلم، قاسم بن مخیمرہ، مسلم بن یسار، شہر بن حوشب اور عبداللہ بن مبارک ؓ نے یہی کہا ہے۔ اور یہ قول ضعیف ہے، کیونکہ اس میں قرآن تھوڑا ہے۔ اور پورے خطبہ میں خاموش رہنا واجب ہوتا ہے۔ یہ ابن عربی نے کہا ہے : نقاش نے کہا ہے : یہ آیت مکی ہے اور مکہ مکرمہ میں نہ خطبہ تھا اور نہ ہی جمعہ۔ علامہ طبری نے حضرت سعید بن جبیر (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 494) سے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہ عید الاضحی، عید الفطر اور جمعہ کے دن کی نمازوں اور ان نمازوں میں خاموش رہنے کے بارے ہے جن میں امام بالجہر قراءت کرتا ہے پس یہ عام ہے۔ اور یہ قول صحیح ہے، کیونکہ یہ ان تمام کو جامع ہے جن میں اس آیت اور علاوہ ازیں سنت کے مطابق خاموش رہنا واجب ہے۔ نقاش نے کہا ہے : اہل تفسیر نے اس پر اجماع کیا ہے کہ اس میں استماع سے مراد نماز میں قرآن کریم کا سننا ہے چاہے وہ نماز فرض ہو یا غیر فرض۔ نحاس نے کہا ہے : لغوی طور پر تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خاموشی ہر شے (یعنی ہر حال) میں واجب ہوتی ہے، مگر یہ کہ کوئی دلیل کسی شے کے اختصاص پر دلالت کرے۔ اور زجاج نے کہا ہے : آیت : فاستمعوا لہ وانصتوا میں یہ مراد لینا بھی جائز ہے کہ تم اس کے مطابق عمل کرو جو اس میں ہے اور تم اس سے تجاوز نہ کرو۔ اور الانصات سے مراد ( قرآن کریم) سننے کے لیے، غوروفکر کے لیے اور پھر ( اس کے معنی کی) رعایت کے لیے خاموش رہنا ہے۔ اس کا باب انصت ینصت انصاتا ہے اور نصت بھی ( اسی معنی میں ہے) شاعر نے کہا ہے : قال الامام علیکم امر سیدکم فلم نخالف وانصتنا کما قالا اور کہا جاتا ہے : انصتوہ وانصتوا لہ ( تم اسے خاموش کرا دو ، اور تم اس کے لیے خاموش ہوجاؤ ) شاعر نے کہا ہے : اذا قالت حذام فانصتوھا فان القول ما قالت حذام آیت : فاستمعوا لہ وانصتوا کے بارے میں بعض نے کہا ہے : یہ حکم صرف رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص تھا تاکہ آپ کے صحابہ کرام ؓ آپ سے اسے یاد کرسکیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس میں بہت بعد ہے، صحیح قول وہی ہے جس میں عوموم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : لعلکم ترحمون اور تخصیص دلیل کی محتاج ہوتی ہے۔ عبدالجبار بن احمد نے فوائد القرآن میں اس کے بارے کہا ہے : بیشک مشرکین عناد اور سرکشی کی وجہ سے بہت زیادہ شعور وشغب کرتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں بطور حکایت بیان کیا ہے : آیت : وقال الذین کفروا لا تسمعوا لھذا القران والغوا فیہ لعلکم تعلمون ( فصلت) تو اللہ تعالیٰ نے اداء وحی کی حالت میں مسلمانوں کو اس حالت کے خلاف رہنے کا حکم دیا اور یہ کہ وہ غور سے سنیں اور اسی بنا پر جنون کی مدح اور تعریف بیان کی پس فرمایا : آیت : واذ صرفنا الیک نفرا من الجن یستمعون القران الآیہ (الاحقاف : 29) ( اور جس وقت ہم نے متوجہ کیا آپ کی طرف جنات کی ایک جماعت کو کہ وہ قرآن سنیں) اور محمد کعب قرظی ؓ نے بیان کیا ہے : رسول اللہ ﷺ جب نماز میں قرآن پڑھتے تو آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہونے والے اس کا جواب دیتے، جب آپ ﷺ پڑھتے : بسم اللہ الرحمن الرحیم تو وہ بھی آپ کے قول کی طرح کہتے۔ یہاں تک کہ آپ سورة الفاتحہ اور سوت پوری کردیتے۔ جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر یہ آیت نازل ہوئی : آیت : واذاقریء القران فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون بعد ازاں وہ خاموش ہوگئے۔ اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ انصات ( خاموش رہنا) سے مراد اس جہر ( آواز بلند کرنا) کو ترک کرنا ہے جو وہ رسول اللہ ﷺ کے جواب میں آواز بلند کرتے تھے۔ اور حضرت قتادہ نے اس آیت میں کہا ہے : ایک آدمی آتا تھا اس حال میں کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو وہ ان سے پوچھتا : تم نے کتنی نماز پڑھ لی ہے ؟ کتنی ابھی باقی ہے ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آیت : واذاقریء القران فاستمعوا لہ وانصتوا اور حضرت مجاہد (رح) سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ نماز میں اپنی حاجات و ضروریات کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے تھے۔ تب اللہ تعالیٰ کی یہ ارشاد نازل ہوا۔ آیت : لعلکم ترحمون سورة الفاتحہ میں قراءت خلف الامام کے بارے اختلاف گزر چکا ہے اور خطبہ کا حکم سورة الجمعہ میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ
Top