Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم قَدْ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر لِبَاسًا : لباس يُّوَارِيْ : ڈھانکے سَوْاٰتِكُمْ : تمہارے ستر وَرِيْشًا : اور زینت وَلِبَاسُ : اور لباس التَّقْوٰى : پرہیزگاری ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں اللّٰهِ : اللہ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : وہ غور کریں
اے بنی آدم ہم نے تم پوشاک اتاری کی تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے اور جو پرہیزگاری کا لباس ہے وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں
آیت نمبر : 26۔ اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 : قولہ تعالیٰ : آیت : یبنی ادم قد انزلنا علیکم لباسایواری سواتکم بہت سے علماء نے کہا ہے : یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ شرمگاہ کو ڈھانپنا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : یواری سواتکم اور ایک قوم ( گروہ) نے کہا ہے کہ اس میں اس پر کوئی دلیل نہیں ہے جو انہوں نے بیان کیا ہے، بلکہ اس میں فقط اس کے انعام ہونے پر دلیل ہے۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ اور من جملہ نعمتوں میں سے ایک شرمگاہ کو ڈھانپنا بھی ہے۔ پس یہ بیان کہا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کی اولاد کے لیے وہ کچھ پیدا فرمایا ہے جس کے ساتھ وہ اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپ سکتے ہیں اور یہ پردے کے امر پر دلیل ہے۔ اور لوگوں کی نگاہوں سے ستر عورت کے واجب ہونے میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ اس بارے میں ان کا اختلاف ہے کہ شرمگاہ کیا ہے ؟ تو ابن ابی ذئب نے کہا ہے : یہ مرد میں سے صرف اس کی شرمگاہ ہے، یعنی قبل اور دبر اس کے سوا کوئی حصہ نہیں۔ اور داؤد اہل ظاہر، ابن ابی مسلمہ اور طبری کا یہی قول ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : لباسایواری سواتکم، بدت لھما سواتھما، لیریھما سواتھما۔ اور بخاری میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، جلد 1، صفحہ 53 ) ۔ کہ رسول اللہ ﷺ خیبر کی گلیوں میں اپنی سواری پر چل رہے تھے۔ اور اس میں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے چادر اپنی رانوں سے اوپر چڑھالی یہاں تک میں نے نبی مکرم ﷺ کی ران کی سفیدی دیکھ لی۔ اور امام مالک رحمہا للہ علیہ نے کہا ہے : ناف شرمگاہ نہیں ہے اور آدمی کے لیے مکروہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے سامنے اپنی ران کھول دے۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ہے : گھٹنا شرمگاہ ہے اور یہی حضرت عطا (رح) کا قول ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : صحیح روایت کے مطابق ناف اور دونوں گھٹنے شرمگاہ میں سے نہیں ہے۔ اور ابو حامد ترمذی نے بیان کیا ہے کہ ناف کے بارے میں امام شافعی (رح) کے دو قول ہیں۔ اور امام مالک (رح) کی دلیل حضور ﷺ کا ارشاد ہے جو آپ نے جرہد کو فرمایا : (جامع ترمذی، کتاب الاستئذان والادب، جلد 2، صفحہ 103) غط فخذک فان الفخذ عورۃ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، جلد 1، صفحہ 53) ( اپنی ران کو ڈھانپ لے کیونکہ ران شرمگاہ ہے) اسے امام بخاری نے تعلیقا بیان کیا ہے۔ اور فرمایا : حضرت انس ؓ کی حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے اور حضرت جرہد کی حدیث میں زیادہ احتیاط ہے یہاں تک کہ وہ ان ( علماء) کے اختلاف سے نکل جائے۔ اور جرہد کی یہ حدیث اس کے خلاف دلالت کرتی ہے جو کچھ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے۔ اور یہ بھی روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضرت امام حسن بن علی ؓ کی ناف پر بوسہ دیا اور کہا : میں تمہیں اسی جگہ بوسہ دے رہا ہوں جہاں رسول اللہ ﷺ تمہیں بوسہ دیتے تھے (مسند امام احمد، جلد 2، صفحہ 255 ) ۔ پس اگر ناف شرمگاہ ہوتی تو حضرت ابوہریرہ ؓ وہاں بوسہ نہ دیتے اور نہ ہی حضرت امام حسن ؓ انہیں ان کی اجازت دیتے۔ اور جہاں تک آزاد عورت کا تعلق ہے تو اس کے چہرے اور ہتھیلیوں کے سوا اس کا سارابدن شرمگاہ ہے اور یہی نظریہ اکثر اہل علم کا ہے۔ تحقیق حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : من اراد ان یتزوج امراۃ فلینظر الی وجھھا وکفیھا (مسند امام احمد، جلد 2، صفحہ 299) ( جو آدمی کسی عورت سے شادی کرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے چہرے اور اس کے ہاتوں کو دیکھ لے) اور اس لیے بھی کہ احرام میں بھی چہرے کو ننگا کرنا واجب ہے۔ ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام نے کہا ہے : عورت کے اعضاء میں سے ہر عضو شرمگاہ ہے، یہاں تک کہ اس کے ناخن بھی۔ اور امام احمد بن حنبل (رح) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ اور رہی ام ولد ( ایسی کنیز جس سے آقا کی اولاد ہوجائے) تو اس کے بارے اثرم نے کہا ہے : میں نے امام احمد بن حنبل (رح) سے سنا ہے کہ ان سے ام ولد کے بارے پوچھا جار ہا تھا کہ وہ نماز کیسے پڑھے گی ؟ تو انہوں نے فرمایا : وہ اپنا سر اور اپنے پاؤں ڈھانپ لے گی، کیونکہ اسے بیچا نہیں جاسکتا اور وہ اسی طرح نماز پڑھے گی جیسے آزاد عورت پڑھتی ہے۔ اور جہاں تک لونڈی کا تعلق ہے تو اس کا وہ سارہ جسم شرمگاہ ہے جو پستانوں سے نیچے ہے اور اس کے لیے اپنے سر اور اپنی کلائیوں کو ننگا کرنا جائز ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ اس کا حکم مرد کے حکم کی مثل ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے لیے اپنے سر اور سینے کو ننگا کرنا مکروہ ہے۔ اور حضرت عمرؓ لونڈیوں کو اپنے سر ڈھانپنے پر سزا دیتے تھے اور فرماتے تھے : تم آزاد عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو۔ اور اصبغ نے کہا ہے : اگر اس کی ران ننگی ہوئی تو ہو وقت کے انر نماز کا اعادہ کرے۔ اور ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام نے کہا ہے کہ لونڈی کے اعضاء میں سے ہر عضو شرمگاہ ہے یہاں تک کہ اس کے ناخن بھی۔ اور یہ فقہاء کے اقوال سے خارج ہے، کیونکہ ان کا اس پر اجماع ہے کہ آزاد عورت کے لیے جائز ہے کہ فرض نماز پڑھے اور اس کے دونوں ہاتھ اور چہرہ مکمل طور پر ننگے ہوں اور وہ ان کے ساتھ زمین کو مس کر رہی ہو تو پھر لونڈی کے لیے بدرجہ اولی یہی حکم ہوگا اور ام ولد کی حالت لونڈی سے زیادہ گہری ہے۔ اور صغیر بچے کی شرمگاہ کی کوئی حرمت نہیں ہے۔ اور جب بچی اس حد کو پہنچ جائے کہ اسے آنکھ کا اشارہ ہو سکتا ہو اور اسے شہوت دلائی جاسکتی ہو تو پھر وہ اپنی شرمگاہ کو ڈھانپے۔ اور ابوبکر بن عبدالرحمن کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : یآیھا النبی قل لا زواجک وبنٰتک ونساء المومنین یدنین علیھن من جلابیبھن (الاحزاب : 59) (اے نبی مکرم ! آپ فرمائیے اپنی ازواج مطہرات کو، اپنی صاحبزادیوں کو اور جملہ اہل ایمان کی عورتوں کو کہ ( جب وہ باہر نکلیں) ڈال لیا کریں اپنے اوپر چادروں کے پلو) اور حضرت ام سلمہ ؓ کی حدیث ہے کہ ان سے پوچھا گیا : کون سے کپڑوں میں عورت نماز پڑھ سکتی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : وہ قمیص اور ایسی اوٹھنی میں جو اس کے پاؤں کے ظاہر کو ڈھانپ سکتی ہو نماز پڑح سکتی ہے (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، جلد 1، صفحۃ 94) ۔ اسے مرفوع روایت کیا گیا ہے اور جنہوں نے اسے حضرت ام سلمہ ؓ پر موقوف روایت کیا ہے وہ زیادہ ہیں اور زیادہ حافظ ہیں۔ ان میں مالک اور ابن اسحاق وغیرہ ہیں۔ ابو داؤد نے کہا ہے : عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے اسے محمد بن زید عن ام سلمہ ؓ کی سند سے مرفوع روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا۔ ابو عمر نے کہا ہے : ان کے نزدیک یہ عبدالرحمن ضعیف راوی ہے، مگر امام بخاری (رح) نے اس کی بعض احادیث کو روایت کیا ہے۔ اور اس باب میں اجماع خبر سے زیادہ قوی ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ قولہ تعالیٰ : آیت : انزلنا علیکم لباسا یعنی ہم نے تم پر وہ بارش برسائی جو روئی اور کتان ( السی کا پودہ جس سے کپڑے بنائے جاتے ہیں) اگاتی ہے اور ان جانوروں کو قائم رکھتی ہے جن سے اون اور بال وغیرہ حاصل ہوتے ہیں اور یہ مجازی مفہوم ہے اور اسی کی مثل یہ آیت ہے آیت : وانزل لکم من الانعام ثمٰنیۃ ازواج ( الزمر : 6) جیسے اس کا بیان آگے آئے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس انزال سے مراد لباس میں اس شے کو اتارنا ہے جو حضرت آدم اور حضرت مائی حواء (علیہما السلام) کے ساتھ تھی، تاکہ وہ اپنے غیر کے لیے مثال بن جائے۔ اور حضرت سعید بن جبیر نے کہا ہے : آیت : انزلنا علیکم یعنی ہم نے تمہارے لیے پیدا کیا، جیسے اس کا بیان آگے آئے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ہم نے تمہیں اسے بنانے کی کیفیت کے بارے الہام کیا ( یعنی تمہارے ذہنوں میں اسے بنانے کا طریقہ ڈال دیا) مسئلہ نمبر 3۔ قولہ تعالیٰ : آیت : وریشا ابو عبدالرحمن، حسن اور عاصم نے مفضل ضبی کی روایت سے، ابو عمرو نے حسین بن علی جعفی کی روایت سے وریاشا پڑھا ہے اور ابو عبید نے اسے حسن کے سوا کسی سے بیان نہیں کیا اور اس کے معنی کی تفسیر بیان نہیں کی۔ یہ ریش کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ زینت ہے جو مال اور لباس کے سبب ہو۔ اور فرائ (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 139) نے کہا ہے : ریش وریاش جیسے کہا جاتا ہے : لبس و لباس اور ریش الطائر ( پرندے کے پر) وہ ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے ڈھانپ دیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ اس سے مراد زندگی کی فراخی اور خوشحالی ہے۔ اور وہ معنی جسے اکثر اہل لغت نے بیان کیا ہے کہ ریش لباس یا معیشت میں سے وہ شی ہے جو ڈھانپ لے۔ اور سیبویہ نے کہا ہے : فریشی منکم وھوای معکم وان کا نت زیارتکم لماما (تفسیر ماوری، جلد 2، صفحہ 214) اور ابو حاتم نے ابو عبیدہ سے بیان کیا ہے : وھبت لہ دابۃ بریشھا اسے سواری لباس سمیت دی گئی، مراد وہ کپڑے ہیں جو اس پر تے ہیں۔ مسئلہ نمبر 4۔ قولہ تعالیٰ : آیت : و لباس التقوی ذلک خیر بیان فرمایا کہ تقوی بہترین اور اچھا لباس ہے۔ جیسے کسی نے کہا ہے : اذا المرء لم یلبس ثیابا من التقی تقلب عریانا وان کان کا سیا جب آدمی تقوی کالباس نہیں پہنتا تو وہ ننگا ہی لگتا ہے اگرچہ لباس پہنے ہوئے ہو۔ وخیر لباس المرء طاعۃ ربہ ولا خیر فیمن کان اللہ عاصیا اور آدمی کا بہترین لباس اپنے رب کی اطاعت ہے اور اس میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ اور قاسم بن مالک نے عوف سے اور انہوں نے معبد جہنی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : لباس التقوی تقوی کا لباس حیا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس سے مراد عمل صالح ہے۔ اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چہرے پر حسین خاموشی ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 389) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : مراد وہ ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی اور اس کے بارے رہنمائی فرمائی۔ اور یہ قول بھی ہے : لباس التقوی سے مراد اون اور کھدر کے کپڑے پہننے ہیں۔ یہ ان میں سے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تواضع و انکساری کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس کی عبادت کی جاتی ہے اور یہ دوسرے لباس سے بہتر ہے۔ اور زید بن علی نے کہا ہے : و لباس التقوی سے مراد زرہ اور خود، دو کائیاں اور دو پنڈلیاں ہیں، جن کے ساتھ جنگ میں اپنی حفاظت کی جاتی ہے (معالم التنزیل، جلد 2، صفحۃ 463 ) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے خوف کا احساس کرنا ہے ان تمام امور میں جن کے بارے حکم دیا گیا ہے اور جن سے منع کیا گیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہی صحیح ہے، اور اسی کی طرف حضرت ابن عباس اور حضرت عروہ ؓ کا قول راجع ہے۔ اور حضرت زید بن علی کا قول حسن اور اچھا ہے، کیونکہ انہوں نے جہاد پر ابھارا ہے۔ اور ابن زید نے کہا ہے : اس سے مراد شرمگاہ کو ڈھانپنا ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 389) ۔ اور یہ اس میں تکرار ہے، کیونکہ پہلے ارشاد فرمایا : آیت : قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم اور جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد کھدر کا لباس پہننا ہے، کیونکہ یہ تواضع اور ترک رعونت کے زیادہ قریب ہے تو یہ ایک دعوی ہے، حالانکہ علماء میں سے فضلاء تقوی کے حصول کے ساتھ ساتھ انتہائی قیمتی اور اعلی لباس پہنتے ہیں، جیسا کہ اس کا تفصیلی بیان آگے آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اہل مدینہ اور کسائی نے لباس کو پہلے لباسا پر عطف کرتے ہوئے منصوب پڑھا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فعل مضمر کے سبب منصوب ہے۔ یعنی وانزلنا لباس التقوی اور باقیوں نے مبتدا ہونے کی بنا پر مرفوع پڑھا ہے۔ اور ذالک اس کی صفت ہے اور خیر مبتدا کی خبر ہے۔ اور اس کا معنی ہے : تقوی کا لباس جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، وہ ہے جسے تم جانتے ہو، تمہارے لیے ان کپڑوں کے پہننے سے بہتر ہے جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتے ہیں اور یہ وہ زینت ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل فرمائی، پس تم اسے پہن لو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مرفوع ہے اور اس سے پہلے ھو ضمیر مضمر ہے، یعنی ھو لباس التقوی یعنی وہ ستر عورت ہے اور اسی کے مطابق ابن زید کا قول ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ اس کا معنی ہے و لباس التقوی ھو خیر یعنی ذالک بمعنی ہو ہے اور پہلی ترکیب ہی زیادہ احسن ہے جو کچھ اس کے بارے میں کہا گیا ہے۔ اور اعمش نے و لباس التقوی خیر پڑھا ہے۔ انہوں نے ذالک نہیں پڑھا۔ اور یہ مصحف کے خلاف ہے۔ ذالک من آیت اللہ یعنی یہ ان علامات اور نشانیوں میں سے ہے جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ اس کا خالق ہے اور ذالک صفت یا بدل یا عطف بیان ہونے کی بنا پر مرفوع ہے۔
Top