Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 32
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ١ؕ قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں مَنْ : کس حَرَّمَ : حرام کیا زِيْنَةَ اللّٰهِ : اللہ کی زینت الَّتِيْٓ : جو کہ اَخْرَجَ : اس نے نکالی لِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں کے لیے وَالطَّيِّبٰتِ : اور پاک مِنَ : سے الرِّزْقِ : رزق قُلْ : فرمادیں هِىَ : یہ لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي الْحَيٰوةِ : زندگی میں الدُّنْيَا : دنیا خَالِصَةً : خالص طور پر يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن كَذٰلِكَ : اسی طرح نُفَصِّلُ : ہم کھول کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں لِقَوْمٍ : گروہ کے لیے يَّعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں
پوچھو تو کہ جو زینت (وآرائش) اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے لیے پیدا اس کو حرام کس نے کیا ہے کہ دو یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کیلئے ہیں اور قیامت کے دن خاص انہیں کا حصہ ہوں گی۔ اسی طرح خدا اپنی آیتیں سمجھتے والوں کیلئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے۔
آیت نمبر :32 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر۔ 1 قولہ تعالیٰ : آیت : قل من حرم زینۃ اللہ بیان فرمایا کہ انہوں نے اپنی طرف سے ایسی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام نہیں کیا۔ یہاں زینت کا لفظ خوبصورت اور حسین لباس کے لیے ہے، جب اسے پہننے والا اس پر قادر ہو۔ اور یہ بھی کیا گیا ہے : مراد تمام کپڑے ہیں، جیسے حضرت عمر ؓ سے مروی ہے : اذا سع اللہ علیکم فاوسعوا (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، جلد 1، صفحہ 52) ( جب اللہ تعالیٰ تمہیں وسعت اور خوشحالی عطا فرمائے تو تم بھی اپنے نفسوں کو راحت اور وسعت عطا کرو) یہ قول پہلے بھی گزر چکا ہے۔ حضرت علی بن حسین ابن ابی طالب ؓ جو حضرت امام مالک (رح) کے شیخ ہیں۔ ان کے بارے روایت ہے کہ وہ ریشم اور اون سے بنا ہوا کپڑا پچاس دینار کے عوض خرید کر موسم سرما میں وہ لباس پہنتے تھے اور جب گرمیوں کا موسم آتا تو اسے صدقہ کردیتے تھے یا اسے بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کردیتے اور موسم گرما میں وہ مصری کپڑوں میں سے سرخ مٹی سے رنگے ہوئے دو کپڑے پہنتے تھے اور یہ کہتے تھے : آیت : قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبٰت من الرزق۔ مسئلہ نمبر 2۔ اور جب صورت حال یہ ہے تو یہ آیت قیمتی اور عمدہ لباس پہننے اور جمعہ اور عید کے دنوں میں لباس کے ساتھ حسن و جمال کا اظہار کرنے پر دلیل ہے، ( اسی طرح) لوگوں سے ملاقات کرنے کے وقت اور بھائیوں کی زیارت و ملاقات کے وقت حسین لباس پہننے پر بھی دلیل ہے۔ ابو العالیہ نے کہا ہے : مسلمان جب آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کریں تو وہ حسن و جمال کا اہتمام کریں۔ اور صحیح مسلم میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے (صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، جلد 2، صفحہ 189) کہ انہوں نے ایک ریشمی حلہ دیکھا جو مسجد کے دروازے کے پاس بیچا جا رہا تھا، انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ اگر آپ اسے جمعہ کے دن پہننے کے لیے اور وفود سے ملاقات کے وقت پہننے کے لیے خرید لیں جب وہ ( وفود) آپ سے ملاقات کے لیے آتے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انما یلبس ھذا من لا خالق لہ فی الاخرۃ ( صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، جلد 1، صفحہ 122) ( اسے وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو) تو اس میں آپ نے تجمل و خوبصورتی کے سبب اس کا انکار نہیں کیا، بلکہ اس کے ریشمی ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کیا، حالانکہ حضرت تمیم دارمی ؓ نے ایک ہزار درہم کے عوض ایک حلہ خریدا آپ اس میں نماز پڑھتے تھے۔ اور حضرت مالک بن دینار عدن کا بنا ہوا عمدہ کپڑا پہنتے تھے۔ اور امام احمد بن حنبل (رح) کا کپڑا تقریبا ایک دینار کے عوض خریدا جاتا تھا۔ یہ کہاں ان میں سے ہیں جن سے اعراض کیا جاتا ہے اور آپ کھدر کے لباس کو السی اور اون کے کپڑوں پر ترجیح دیتے تھے۔ اور فرماتے : آیت : و لباس التقوی ذلک خیر غور کرو ! جن کا ہم نے ذکر کیا ہے کیا آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ انہوں نے تقوی کا لباس ترک کردیا ؟ نہیں۔ قسم بخدا ! بلکہ وہ تو اہل تقوی ہیں اور صاحب عقل وعرفان ہیں اور ان کے سوا صرف اہل دعوی ہیں، ان کے دل تقوی سے خالی نہیں۔ خالد بن شوذب نے کہا ہے : میں حسن کے پاس حاضر تھا اور ان کے پاس فرقد آیا اور حسن نے اسے اس کے کپڑوں سے پکڑا اور سے اپنی طرف کھینچ لیا اور فرمایا : اے فریقد، اے ام فریقد کے بیٹے ! بیشک نیکی اس لباس میں نہیں ہے، بلکہ نیکی وہ ہے جو سینے میں راسخ ہو اور عمل اس کی تصدیق کرے۔ اور میرے بھتیجے ابو محمد معروف بالکرخی ابو الحسن بن یسار کے پاس تشریف لے گئے اور وہ اون کا جبہ پہنے ہوئے تھے، تو ابو الحسن نے انہیں کہا : اے ابا محمد ! تو نے اپنے دل کو صوفی بنایا ہے یا اپنے جسم کو ؟ اپنے دل کو صوفی بنا اور اپنے بدن کو قہستانی کپڑا پہنا۔ ایک آدمی نے حضرت شبہ (رح) کو بتایا : آپ کے اصحاب ( ساتھیوں) کی ایک جماعت آئی ہے اور وہ جامع میں ہیں، پس آپ چلے اور آپ نے ان پر پیوند لگے ہوئے کپڑے اور پیٹیاں ( چھوٹے چھوٹے رومال) دیکھیں تو آپ یہ کہنے لگے : اما الخیام فانھا کخیامھم واری نساء الحی غیر نسائہ ” جہاں تک خیموں کا تعلق ہے تو یہ ان کے خیموں کی طرح ہیں اور میں محلے کی عورتوں کو اجنبی عورتیں دیکھ رہا ہوں “۔ ابو الفرج ابن جوزی (رح) نے کہا ہے : میں چار وجہ سے پٹیاں اور پیوند لگے کپڑے پہننا ناپسند کرتا ہوں : ایک تو اس لییے کہ یہ اسلاف کا لباس نہیں ہے، بلاشبہ وہ اہم ضرورت کے وقت پیوند لگاتے تھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ لباس فقر و افلاس کے دعوی کو متضمن ہوتا ہے، حالانکہ آدمی کو حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اثر کو ظاہر کرے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس میں زہد کا اظہار ہے، حالانکہ ہمیں اسے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور چوتھی وجہ یہ ہے یہ ان لوگوں کے ساتھ مشابت ہے جو شریعت سے دور ہٹنے والے ہیں۔ اور جو کسی قوم کے ساتھ مشابتہ رکھتا ہے وہ انہیں میں سے ہوتا ہے۔ اور علامہ طبری نے کہا ہے : اس نے خطا اور غلطی کی ہے جس نے بالوں اور اون کے لباس کو روئی اور کتان کے لباس پر ترجیح دی ہے، بشرطی کی وہ اس کا لباس پہننے کی قدرت رکھتا ہو۔ اور جس نے سبزی اور دال کھائی اور اسے گندم کی روٹی کی نسبت زیادہ پسند کیا۔ اور جس نے اس خوف سے گوشت کھانا چھوڑ دیا کہ اس سے اس میں عورتوں کی خواہش اور طلب پیدا ہوگئی۔ حضرت بشربن حارث سے اونی لباس کے بارے پوچھا گیا، تو ان پر یہ شاق گزرا اور ان کے چہرے میں کراہیت اور ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے، پھر فرمایا : شہروں میں میرے نزدیک خز ( ریشم) اور معصفر پہننا اون پہننے سے زیاد پسندیدہ ہے۔ ابو الفرج نے کہا ہے : اسلاف متوسط لباس پہنتے تھے، نہ زیادہ اعلیٰ اور نہ زیادہ گھٹیا اور وہ جمعہ، عید اور بھائیوں سے ملاقات کے لیے عمدہ اور خوبصورت لباس پسند کرتے تھے اور ان کے نزدیک عمدہ لباس پسند کرتا، قبیح نہیں تھا۔ اور رہا وہ لباس جو اپنے پہننے والے کے لیے عیب ہوتا ہے، چونکہ وہ اظہار زہد اور اظہار فقر کو متضمن ہوتا ہے، تو گویا وہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ کی زبان ہے اور یہ پہننے والے کی حقارت اور ذلت کو ثابت کرتا ہے۔ اور یہ سب مکروہ ہے اس سے منع کیا گیا ہے۔ اور کوئی کہنے والا کہے : لباس کا عمدہ اور ارفع ہونا تو نفس کی خواہش ہے، حالانکہ ہمیں اس کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور پھر اس میں (اعلیٰ اور قیمتی لباس میں) مخلوق کے لیے تزیین و آرائش ہے، حالانکہ ہمیں حکم یہ دیا گیا ہے کہ ہمارے افعال اللہ تعالیٰ ( کی خوشنودی) کے لیے ہوں نہ کہ مخلوق کے لیے۔ تو جواب یہ ہے کہ وہ ہر شی ( یا عمل) جس کی خواہش نفس کرتا ہے وہ قابل مذمت نہیں ہوتی، لہٰذا لوگوں کے لیے جو بھی زیب وزینت کی جائے گی وہ مکروہ نہ ہوگی۔ البتہ اس سے ضورر روکا کا ئے گا جب شریعت نے اس سے منع کیا ہو یا دین کے معاملے میں ریا کی وجہ سے ( اس سے منع کیا جائے گا) کیونکہ انسان کے لیے واجب ہے کہ وہ خوبصورت دکھائی دے۔ یہ نفس کا وہ حصہ ہے جو قابل ملامت نہیں، اسی وجہ سے وہ اپنے بالوں میں کنگھی کرتا ہے اور شیشے میں دیکھتا اور اپنی دستار کو درست کرتا ہے اور وہ ایسا لباس پہنتا ہے جس کا کپڑا اندر کی جانب سے کھردرا ہوتا ہے اور باہر کی جانب سے اس کا ظاہر انتہائی حسین اور خوبصورت ہو تو ہے۔ اور اس میں کوئی ایسی شی نہیں ہے جو مکروہ ہو اور نہ ہی اس کی مذمت کی جاسکتی ہے۔ حضرت مکحول نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کا ایک گروہ دروازے پر آپ کا انتظار کر رہا تھا، تو آپ ﷺ ان کے ارادہ سے باہر تشریف لائے اور گھر میں ایک برتن تھا جس میں پانی تھا، تو آپ ﷺ پانی میں دیکھنے لگے اور اپنی ریش مبارک اور اپنے بال سیدھے اور درست فرمانے لگے۔ تو میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ بھی یہ کر رہے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : نعم اذا خرج الرجل الی اخوانہ فلیھی من نفسہ فان اللہ جمیل یحب الجمال ( ہاں جب آدمی اپنے بھائیوں کے پاس جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو تیار کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے) اور صحیح مسلم میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقل ذرۃ من کبر (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 65) ( جنت میں وہ داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا ( تو ایک آدمی نے عرض کی : بیشک آدمی تو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا حسین ہو اور اس کے جوتے حسین ہوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان اللہ جمیل یحب الجمال الکبر بطر الحق وغمط الناس (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 65) ( بیشک اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال ( خوبصورتی) کو پسند کرتا ہے اور تکبر حق کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے) اس معنی میں کثر احادیث ہیں، وہ تمام کی تمام نظافت اور حسن ہیت پر دلالت کرتی ہے۔ محمد بن سعد نے بیان کیا ہے کہ فضل بن دکین نے ہمیں خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں مندل نے ثور کے واسطہ سے خالب بن معدان سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ دوران سفر کنگھی، شیشہ، تیل، مسواک اور سرمہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اور ابن جریج سے مروی ہے : کنگھی ہاتھی دانت کی تھی اس کے ساتھ آپ کنگی کرتے تھے۔ ابن سعد نے کہا ہے : ہمیں قبیصہ بن عقبہ نے بتایا ہے انہوں نے بیان کیا سفیان نے ربیع بن صبیح عن یزید رقاشی عن انس بن مالک ؓ کی سند سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکثر اپنے سر مبارک کو تیل لگاتے تھے اور اپنی ریش مبارک کو پانی سے کا تھ کنگھی کرتے تے۔ یزید ابن ہارون نے ہمیں خبر دی ہے کہ عبادبن منصور نے عکرمہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کی سرمہ دانی تھی جس سے آپ سوتے وقت ہر آنکھ میں تین تین بار سرمہ ڈالتے تھے۔ مسئلہ نمبر 3۔ قولہ تعالیٰ : آیت : والطیبٰت من الرزق، طیبات کا اسم ہر اس شی کے لیے عام ہے جو کمائی اور کھانے کے اعتبار سے پاکیزہ اور طیب ہو۔ حضرت ابن عباس اور قتادہ ؓ (تفسیر طبری، جلد 8، صفحہ 194) نے بیان کیا ہے : مراد رزق میں سے وہ پاکیزہ اور حلال چیزیں ہیں جنہیں اہل جاہلیت نے حرام قرار دیا مثلا، بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام وغیرہ ( یہ سبھی جانور ہیں جنہیں انہوں نے اپنے لیے حرام کر رکھا تھا) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت : الطیبٰۃ من الرزق سے مراد ہر لذیذ کھانا ہے، تحقیق طیبات کو ترک کرنے اور لذات سے اعراض برتنے میں اختلاف ہے، پس ایک قوم نے کہا ہے : اس کا تعلق قربات سے نہیں ہے اور مباحات میں عمل کرنا اور نہ کرنا برابر ہوتا ہے۔ اور دوسروں نے کہا ہے : اس میں فی ذاتہ کوئی قربت نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو دنیا میں زہد اختیار کرنے، دنیا میں اپنی طویل امید کو کم کرنے اور اس کی وجہ سے تکلف ترک کرنے کا ایک ذریعہ اور راستہ ہے۔ اور یہ اس کے لیے مستحب امر ہے اور مستحب سبب قربت ہے۔ اور ایک اور فریق نے کہا ہے : حضرت عمر بن خطاب ؓ سے یہ قول منقول ہے : اگر ہم چاہتے تو ہم صلاء، صلائق اور صناب بناتے، لیکن میں نے اللہ تعالیٰ کو کئی اقوام کی مذمت کرتے ہوئے سنا ہے اس نے ارشاد فرمایا ہے : آیت : اذھبتم طیبٰتکم فی حیاتکم الدنیا (الاحقاف : 20) ( تم نے ختم کردیا تھا اپنی نعمتوں کا حصہ اپنی دنیوی زندگی میں) اور صرائق را کے ساتھ بھی مروی ہے۔ اور صلائق اور حرائق دونوں کا معنی روٹی ہے۔ اور صلائق ( لام کے ساتھ) سے مراد وہ ہے جو گوشت اور سبزی کے ساتھ لگائی جائے۔ اور صلاء ( صاد کے کسرہ اور مد کے ساتھ) سے مراد بھنا ہو اگوشت ہے۔ اور صناب سے مراد رائی اور کشمش سے بنائی ہوئی چٹنی ہے۔ اور دوسروں نے ان تمام کی موجودگی میں کلفت اور غیر کلفت کے ساتھ فرق کیا ہے۔ ابو الحسن علی بن مغفل جو ہمارے اشیاخ کے شیخ ہیں انہوں نے فرمایا ہے : یہی صحیح ہے انشاء اللہ تعالیٰ کیونکہ حضور نبی کرم ﷺ سے منقول نہیں کہ آپ ﷺ نے کسی چیز کو محض اس کے عمدہ اور طیب ہونے کی وجہ سے اسے کھانے سے منع فرمایا ہو، بلکہ آپ ﷺ حلوہ، شہد، تربوز اور پکی کھجوریں تناول فرماتے تھے البتہ ان کے لیے تکلف کرنا اس لیے مکروہ ہے کہ ان میں شہوات دنیا کے سبب امور آخرت سے غافل ہونا لازم آتا ہے۔ واللہ اعلم میں ( مفسر کہتا ہوں : بعض صوفیاء نے لذیذ کھانے کھانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اور انہوں نے حضرت عمر ؓ کے اس طرح ہے تو پھر فواحش میں سے ظاہر زنا ہے۔ واللہ اعلم والاثم حسن نے کہا ہے : اس سے مراد خمر ( شراب) ہے، جیسے شاعر نے کہا ہے : شربت الاثم حتی ضل عقلی کذاک الاثم تذھب العقول میں نے شراب پی یہاں تک کہ میری عقل جاتی رہی اسی طرح گناہ عقلوں کو ختم کردیتے ہیں۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے : نشرب الاثم بالصواع جھارا وتری المسک بیننا مستعارا (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 146 ) اس میں بھی اثم کا لفظ شراب کے معنی میں مذکور ہے۔ والبغی اس کا معنی ظلم کرنا اور اس میں حد سے تجاوز کرتا ہے۔ یہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ اور ثعلب نے کہا ہے : البغی کا مفہوم یہ ہے کہ ایک آدمی کے بارے میں کچھ دعویٰ کرتا ہے اور اس بارے میں گفتگو کرتا ہے اور وہ بغیر حق کے اس سے مطالبہ کرتا ہے، مگر یہ کہ وہ حق کے ساتھ اس پر غالب آجائے۔ ( یعنی اگر دوسرا حق کے ساتھ اس پر غالب نہ آئے تو یہ اس سے ناحق چیز لے لیتا ہے) اور اثم اور بغی کو فواحش سے الگ ذکر کیا ہے، حالانکہ یہ دونوں بھی فواحش میں سے ہیں، تو یہ فحژ میں ان کے انتہائی برا ہونے کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔ پس ان دونوں کے امر کی تاکید کے لیے اور ان کے بارے زجروتوبیخ کا قصد کرتے ہوئے ان کا ذکر پر نص بیان فرمائی۔ اور اسی طرح آیت : وان تشرکوا اور وان تقولوا ہیں۔ یہ دونوں ما قبل پر معطوف ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہیں۔ اور ایک جماعت نے اثم بمعنی خمر ہونے کا انکار کیا ہے۔ اور فراء نے کہا ہے : اثم سے مراد وہ گناہ ہے جو حد اور لوگوں پر لمبا ہونے (انتہائی شاق ہونے) سے کم ہو۔ نحاس نے کہا ہے : رہا یہ کہ اثم بمعنی خمر ہو تو یہ معروف نہیں۔ اور اثم کا حقیقی معنی تو یہ ہے کہ تمام گناہ اثم کہلاتے ہیں۔ جیسے شاعر نے کہا ہے : ان وجدت الامر ارشدہ تقوی الالہ وشرہ الاثم میں (مفسر) کہتا ہوں : ابن عربی نے بھی اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے : شعر میں کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے “۔ کیونکہ اگر وہ کہتا : شربت الذنب یا شربت الوزر لکان کذالک ( میں نے گناہ کیا یا میں نے بوجھ ( گناہ کا) اٹھایا تو اس طرح ہوا) اس قوت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ذئب اور وزر دونوں شراب کے اسماء میں سے ہیں، اسی طرح لفظ اثم بھی ہے۔ اور جس نے اس قسم کی مثالوں کے ساتھ گفتگو اور تکلم کو ثابت کیا ہے جو لغت اور معانی میں طریقہ استدلال سے جہالت اور ناواقفی ہے۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : ہم نے اسے حسن سے ذکر کیا ہے اور جوہری نے صحاح میں کہا ہے : کبھی خمر کو اثم کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اور شعر کہا ہے : شربت الاثم۔۔۔۔ البیت (تفسیر ماوردی، جلد 2، صفحہ 220 ) اور ہر وی نے اپنی غریب میں کہا ہے کہ خمر اثم ( گناہ) ہے پس یہ بعید نہیں ہے کہ اثم کا لغوی اطلاق تمام گناہوں پر ہوتا ہے اور خمر پر بھی اور اس میں کوئی تناقص نہیں ہے۔ اور بغی کا معنی ظلم میں تجاوز کرنا ( اور حد سے بڑھنا ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی فساد ہے۔
Top