Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 32
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ١ؕ قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
قُلْ
: فرما دیں
مَنْ
: کس
حَرَّمَ
: حرام کیا
زِيْنَةَ اللّٰهِ
: اللہ کی زینت
الَّتِيْٓ
: جو کہ
اَخْرَجَ
: اس نے نکالی
لِعِبَادِهٖ
: اپنے بندوں کے لیے
وَالطَّيِّبٰتِ
: اور پاک
مِنَ
: سے
الرِّزْقِ
: رزق
قُلْ
: فرمادیں
هِىَ
: یہ
لِلَّذِيْنَ
: ان لوگوں کے لیے جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
فِي الْحَيٰوةِ
: زندگی میں
الدُّنْيَا
: دنیا
خَالِصَةً
: خالص طور پر
يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کے دن
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
نُفَصِّلُ
: ہم کھول کر بیان کرتے ہیں
الْاٰيٰتِ
: آیتیں
لِقَوْمٍ
: گروہ کے لیے
يَّعْلَمُوْنَ
: وہ جانتے ہیں
پوچھو تو کہ جو زینت (وآرائش) اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے لیے پیدا اس کو حرام کس نے کیا ہے کہ دو یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کیلئے ہیں اور قیامت کے دن خاص انہیں کا حصہ ہوں گی۔ اسی طرح خدا اپنی آیتیں سمجھتے والوں کیلئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے۔
آیت نمبر :
32
اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر۔
1
قولہ تعالیٰ : آیت : قل من حرم زینۃ اللہ بیان فرمایا کہ انہوں نے اپنی طرف سے ایسی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام نہیں کیا۔ یہاں زینت کا لفظ خوبصورت اور حسین لباس کے لیے ہے، جب اسے پہننے والا اس پر قادر ہو۔ اور یہ بھی کیا گیا ہے : مراد تمام کپڑے ہیں، جیسے حضرت عمر ؓ سے مروی ہے : اذا سع اللہ علیکم فاوسعوا (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، جلد
1
، صفحہ
52
) ( جب اللہ تعالیٰ تمہیں وسعت اور خوشحالی عطا فرمائے تو تم بھی اپنے نفسوں کو راحت اور وسعت عطا کرو) یہ قول پہلے بھی گزر چکا ہے۔ حضرت علی بن حسین ابن ابی طالب ؓ جو حضرت امام مالک (رح) کے شیخ ہیں۔ ان کے بارے روایت ہے کہ وہ ریشم اور اون سے بنا ہوا کپڑا پچاس دینار کے عوض خرید کر موسم سرما میں وہ لباس پہنتے تھے اور جب گرمیوں کا موسم آتا تو اسے صدقہ کردیتے تھے یا اسے بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کردیتے اور موسم گرما میں وہ مصری کپڑوں میں سے سرخ مٹی سے رنگے ہوئے دو کپڑے پہنتے تھے اور یہ کہتے تھے : آیت : قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبٰت من الرزق۔ مسئلہ نمبر
2
۔ اور جب صورت حال یہ ہے تو یہ آیت قیمتی اور عمدہ لباس پہننے اور جمعہ اور عید کے دنوں میں لباس کے ساتھ حسن و جمال کا اظہار کرنے پر دلیل ہے، ( اسی طرح) لوگوں سے ملاقات کرنے کے وقت اور بھائیوں کی زیارت و ملاقات کے وقت حسین لباس پہننے پر بھی دلیل ہے۔ ابو العالیہ نے کہا ہے : مسلمان جب آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کریں تو وہ حسن و جمال کا اہتمام کریں۔ اور صحیح مسلم میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے (صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، جلد
2
، صفحہ
189
) کہ انہوں نے ایک ریشمی حلہ دیکھا جو مسجد کے دروازے کے پاس بیچا جا رہا تھا، انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ اگر آپ اسے جمعہ کے دن پہننے کے لیے اور وفود سے ملاقات کے وقت پہننے کے لیے خرید لیں جب وہ ( وفود) آپ سے ملاقات کے لیے آتے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انما یلبس ھذا من لا خالق لہ فی الاخرۃ ( صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، جلد
1
، صفحہ
122
) ( اسے وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو) تو اس میں آپ نے تجمل و خوبصورتی کے سبب اس کا انکار نہیں کیا، بلکہ اس کے ریشمی ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کیا، حالانکہ حضرت تمیم دارمی ؓ نے ایک ہزار درہم کے عوض ایک حلہ خریدا آپ اس میں نماز پڑھتے تھے۔ اور حضرت مالک بن دینار عدن کا بنا ہوا عمدہ کپڑا پہنتے تھے۔ اور امام احمد بن حنبل (رح) کا کپڑا تقریبا ایک دینار کے عوض خریدا جاتا تھا۔ یہ کہاں ان میں سے ہیں جن سے اعراض کیا جاتا ہے اور آپ کھدر کے لباس کو السی اور اون کے کپڑوں پر ترجیح دیتے تھے۔ اور فرماتے : آیت : و لباس التقوی ذلک خیر غور کرو ! جن کا ہم نے ذکر کیا ہے کیا آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ انہوں نے تقوی کا لباس ترک کردیا ؟ نہیں۔ قسم بخدا ! بلکہ وہ تو اہل تقوی ہیں اور صاحب عقل وعرفان ہیں اور ان کے سوا صرف اہل دعوی ہیں، ان کے دل تقوی سے خالی نہیں۔ خالد بن شوذب نے کہا ہے : میں حسن کے پاس حاضر تھا اور ان کے پاس فرقد آیا اور حسن نے اسے اس کے کپڑوں سے پکڑا اور سے اپنی طرف کھینچ لیا اور فرمایا : اے فریقد، اے ام فریقد کے بیٹے ! بیشک نیکی اس لباس میں نہیں ہے، بلکہ نیکی وہ ہے جو سینے میں راسخ ہو اور عمل اس کی تصدیق کرے۔ اور میرے بھتیجے ابو محمد معروف بالکرخی ابو الحسن بن یسار کے پاس تشریف لے گئے اور وہ اون کا جبہ پہنے ہوئے تھے، تو ابو الحسن نے انہیں کہا : اے ابا محمد ! تو نے اپنے دل کو صوفی بنایا ہے یا اپنے جسم کو ؟ اپنے دل کو صوفی بنا اور اپنے بدن کو قہستانی کپڑا پہنا۔ ایک آدمی نے حضرت شبہ (رح) کو بتایا : آپ کے اصحاب ( ساتھیوں) کی ایک جماعت آئی ہے اور وہ جامع میں ہیں، پس آپ چلے اور آپ نے ان پر پیوند لگے ہوئے کپڑے اور پیٹیاں ( چھوٹے چھوٹے رومال) دیکھیں تو آپ یہ کہنے لگے : اما الخیام فانھا کخیامھم واری نساء الحی غیر نسائہ ” جہاں تک خیموں کا تعلق ہے تو یہ ان کے خیموں کی طرح ہیں اور میں محلے کی عورتوں کو اجنبی عورتیں دیکھ رہا ہوں “۔ ابو الفرج ابن جوزی (رح) نے کہا ہے : میں چار وجہ سے پٹیاں اور پیوند لگے کپڑے پہننا ناپسند کرتا ہوں : ایک تو اس لییے کہ یہ اسلاف کا لباس نہیں ہے، بلاشبہ وہ اہم ضرورت کے وقت پیوند لگاتے تھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ لباس فقر و افلاس کے دعوی کو متضمن ہوتا ہے، حالانکہ آدمی کو حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اثر کو ظاہر کرے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس میں زہد کا اظہار ہے، حالانکہ ہمیں اسے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور چوتھی وجہ یہ ہے یہ ان لوگوں کے ساتھ مشابت ہے جو شریعت سے دور ہٹنے والے ہیں۔ اور جو کسی قوم کے ساتھ مشابتہ رکھتا ہے وہ انہیں میں سے ہوتا ہے۔ اور علامہ طبری نے کہا ہے : اس نے خطا اور غلطی کی ہے جس نے بالوں اور اون کے لباس کو روئی اور کتان کے لباس پر ترجیح دی ہے، بشرطی کی وہ اس کا لباس پہننے کی قدرت رکھتا ہو۔ اور جس نے سبزی اور دال کھائی اور اسے گندم کی روٹی کی نسبت زیادہ پسند کیا۔ اور جس نے اس خوف سے گوشت کھانا چھوڑ دیا کہ اس سے اس میں عورتوں کی خواہش اور طلب پیدا ہوگئی۔ حضرت بشربن حارث سے اونی لباس کے بارے پوچھا گیا، تو ان پر یہ شاق گزرا اور ان کے چہرے میں کراہیت اور ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے، پھر فرمایا : شہروں میں میرے نزدیک خز ( ریشم) اور معصفر پہننا اون پہننے سے زیاد پسندیدہ ہے۔ ابو الفرج نے کہا ہے : اسلاف متوسط لباس پہنتے تھے، نہ زیادہ اعلیٰ اور نہ زیادہ گھٹیا اور وہ جمعہ، عید اور بھائیوں سے ملاقات کے لیے عمدہ اور خوبصورت لباس پسند کرتے تھے اور ان کے نزدیک عمدہ لباس پسند کرتا، قبیح نہیں تھا۔ اور رہا وہ لباس جو اپنے پہننے والے کے لیے عیب ہوتا ہے، چونکہ وہ اظہار زہد اور اظہار فقر کو متضمن ہوتا ہے، تو گویا وہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ کی زبان ہے اور یہ پہننے والے کی حقارت اور ذلت کو ثابت کرتا ہے۔ اور یہ سب مکروہ ہے اس سے منع کیا گیا ہے۔ اور کوئی کہنے والا کہے : لباس کا عمدہ اور ارفع ہونا تو نفس کی خواہش ہے، حالانکہ ہمیں اس کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور پھر اس میں (اعلیٰ اور قیمتی لباس میں) مخلوق کے لیے تزیین و آرائش ہے، حالانکہ ہمیں حکم یہ دیا گیا ہے کہ ہمارے افعال اللہ تعالیٰ ( کی خوشنودی) کے لیے ہوں نہ کہ مخلوق کے لیے۔ تو جواب یہ ہے کہ وہ ہر شی ( یا عمل) جس کی خواہش نفس کرتا ہے وہ قابل مذمت نہیں ہوتی، لہٰذا لوگوں کے لیے جو بھی زیب وزینت کی جائے گی وہ مکروہ نہ ہوگی۔ البتہ اس سے ضورر روکا کا ئے گا جب شریعت نے اس سے منع کیا ہو یا دین کے معاملے میں ریا کی وجہ سے ( اس سے منع کیا جائے گا) کیونکہ انسان کے لیے واجب ہے کہ وہ خوبصورت دکھائی دے۔ یہ نفس کا وہ حصہ ہے جو قابل ملامت نہیں، اسی وجہ سے وہ اپنے بالوں میں کنگھی کرتا ہے اور شیشے میں دیکھتا اور اپنی دستار کو درست کرتا ہے اور وہ ایسا لباس پہنتا ہے جس کا کپڑا اندر کی جانب سے کھردرا ہوتا ہے اور باہر کی جانب سے اس کا ظاہر انتہائی حسین اور خوبصورت ہو تو ہے۔ اور اس میں کوئی ایسی شی نہیں ہے جو مکروہ ہو اور نہ ہی اس کی مذمت کی جاسکتی ہے۔ حضرت مکحول نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کا ایک گروہ دروازے پر آپ کا انتظار کر رہا تھا، تو آپ ﷺ ان کے ارادہ سے باہر تشریف لائے اور گھر میں ایک برتن تھا جس میں پانی تھا، تو آپ ﷺ پانی میں دیکھنے لگے اور اپنی ریش مبارک اور اپنے بال سیدھے اور درست فرمانے لگے۔ تو میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ بھی یہ کر رہے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : نعم اذا خرج الرجل الی اخوانہ فلیھی من نفسہ فان اللہ جمیل یحب الجمال ( ہاں جب آدمی اپنے بھائیوں کے پاس جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو تیار کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے) اور صحیح مسلم میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقل ذرۃ من کبر (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد
1
، صفحہ
65
) ( جنت میں وہ داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا ( تو ایک آدمی نے عرض کی : بیشک آدمی تو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا حسین ہو اور اس کے جوتے حسین ہوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان اللہ جمیل یحب الجمال الکبر بطر الحق وغمط الناس (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد
1
، صفحہ
65
) ( بیشک اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال ( خوبصورتی) کو پسند کرتا ہے اور تکبر حق کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے) اس معنی میں کثر احادیث ہیں، وہ تمام کی تمام نظافت اور حسن ہیت پر دلالت کرتی ہے۔ محمد بن سعد نے بیان کیا ہے کہ فضل بن دکین نے ہمیں خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں مندل نے ثور کے واسطہ سے خالب بن معدان سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ دوران سفر کنگھی، شیشہ، تیل، مسواک اور سرمہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اور ابن جریج سے مروی ہے : کنگھی ہاتھی دانت کی تھی اس کے ساتھ آپ کنگی کرتے تھے۔ ابن سعد نے کہا ہے : ہمیں قبیصہ بن عقبہ نے بتایا ہے انہوں نے بیان کیا سفیان نے ربیع بن صبیح عن یزید رقاشی عن انس بن مالک ؓ کی سند سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکثر اپنے سر مبارک کو تیل لگاتے تھے اور اپنی ریش مبارک کو پانی سے کا تھ کنگھی کرتے تے۔ یزید ابن ہارون نے ہمیں خبر دی ہے کہ عبادبن منصور نے عکرمہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کی سرمہ دانی تھی جس سے آپ سوتے وقت ہر آنکھ میں تین تین بار سرمہ ڈالتے تھے۔ مسئلہ نمبر
3
۔ قولہ تعالیٰ : آیت : والطیبٰت من الرزق، طیبات کا اسم ہر اس شی کے لیے عام ہے جو کمائی اور کھانے کے اعتبار سے پاکیزہ اور طیب ہو۔ حضرت ابن عباس اور قتادہ ؓ (تفسیر طبری، جلد
8
، صفحہ
194
) نے بیان کیا ہے : مراد رزق میں سے وہ پاکیزہ اور حلال چیزیں ہیں جنہیں اہل جاہلیت نے حرام قرار دیا مثلا، بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام وغیرہ ( یہ سبھی جانور ہیں جنہیں انہوں نے اپنے لیے حرام کر رکھا تھا) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت : الطیبٰۃ من الرزق سے مراد ہر لذیذ کھانا ہے، تحقیق طیبات کو ترک کرنے اور لذات سے اعراض برتنے میں اختلاف ہے، پس ایک قوم نے کہا ہے : اس کا تعلق قربات سے نہیں ہے اور مباحات میں عمل کرنا اور نہ کرنا برابر ہوتا ہے۔ اور دوسروں نے کہا ہے : اس میں فی ذاتہ کوئی قربت نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو دنیا میں زہد اختیار کرنے، دنیا میں اپنی طویل امید کو کم کرنے اور اس کی وجہ سے تکلف ترک کرنے کا ایک ذریعہ اور راستہ ہے۔ اور یہ اس کے لیے مستحب امر ہے اور مستحب سبب قربت ہے۔ اور ایک اور فریق نے کہا ہے : حضرت عمر بن خطاب ؓ سے یہ قول منقول ہے : اگر ہم چاہتے تو ہم صلاء، صلائق اور صناب بناتے، لیکن میں نے اللہ تعالیٰ کو کئی اقوام کی مذمت کرتے ہوئے سنا ہے اس نے ارشاد فرمایا ہے : آیت : اذھبتم طیبٰتکم فی حیاتکم الدنیا (الاحقاف :
20
) ( تم نے ختم کردیا تھا اپنی نعمتوں کا حصہ اپنی دنیوی زندگی میں) اور صرائق را کے ساتھ بھی مروی ہے۔ اور صلائق اور حرائق دونوں کا معنی روٹی ہے۔ اور صلائق ( لام کے ساتھ) سے مراد وہ ہے جو گوشت اور سبزی کے ساتھ لگائی جائے۔ اور صلاء ( صاد کے کسرہ اور مد کے ساتھ) سے مراد بھنا ہو اگوشت ہے۔ اور صناب سے مراد رائی اور کشمش سے بنائی ہوئی چٹنی ہے۔ اور دوسروں نے ان تمام کی موجودگی میں کلفت اور غیر کلفت کے ساتھ فرق کیا ہے۔ ابو الحسن علی بن مغفل جو ہمارے اشیاخ کے شیخ ہیں انہوں نے فرمایا ہے : یہی صحیح ہے انشاء اللہ تعالیٰ کیونکہ حضور نبی کرم ﷺ سے منقول نہیں کہ آپ ﷺ نے کسی چیز کو محض اس کے عمدہ اور طیب ہونے کی وجہ سے اسے کھانے سے منع فرمایا ہو، بلکہ آپ ﷺ حلوہ، شہد، تربوز اور پکی کھجوریں تناول فرماتے تھے البتہ ان کے لیے تکلف کرنا اس لیے مکروہ ہے کہ ان میں شہوات دنیا کے سبب امور آخرت سے غافل ہونا لازم آتا ہے۔ واللہ اعلم میں ( مفسر کہتا ہوں : بعض صوفیاء نے لذیذ کھانے کھانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اور انہوں نے حضرت عمر ؓ کے اس طرح ہے تو پھر فواحش میں سے ظاہر زنا ہے۔ واللہ اعلم والاثم حسن نے کہا ہے : اس سے مراد خمر ( شراب) ہے، جیسے شاعر نے کہا ہے : شربت الاثم حتی ضل عقلی کذاک الاثم تذھب العقول میں نے شراب پی یہاں تک کہ میری عقل جاتی رہی اسی طرح گناہ عقلوں کو ختم کردیتے ہیں۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے : نشرب الاثم بالصواع جھارا وتری المسک بیننا مستعارا (زاد المسیر، جلد
2
، صفحہ
146
) اس میں بھی اثم کا لفظ شراب کے معنی میں مذکور ہے۔ والبغی اس کا معنی ظلم کرنا اور اس میں حد سے تجاوز کرتا ہے۔ یہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ اور ثعلب نے کہا ہے : البغی کا مفہوم یہ ہے کہ ایک آدمی کے بارے میں کچھ دعویٰ کرتا ہے اور اس بارے میں گفتگو کرتا ہے اور وہ بغیر حق کے اس سے مطالبہ کرتا ہے، مگر یہ کہ وہ حق کے ساتھ اس پر غالب آجائے۔ ( یعنی اگر دوسرا حق کے ساتھ اس پر غالب نہ آئے تو یہ اس سے ناحق چیز لے لیتا ہے) اور اثم اور بغی کو فواحش سے الگ ذکر کیا ہے، حالانکہ یہ دونوں بھی فواحش میں سے ہیں، تو یہ فحژ میں ان کے انتہائی برا ہونے کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔ پس ان دونوں کے امر کی تاکید کے لیے اور ان کے بارے زجروتوبیخ کا قصد کرتے ہوئے ان کا ذکر پر نص بیان فرمائی۔ اور اسی طرح آیت : وان تشرکوا اور وان تقولوا ہیں۔ یہ دونوں ما قبل پر معطوف ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہیں۔ اور ایک جماعت نے اثم بمعنی خمر ہونے کا انکار کیا ہے۔ اور فراء نے کہا ہے : اثم سے مراد وہ گناہ ہے جو حد اور لوگوں پر لمبا ہونے (انتہائی شاق ہونے) سے کم ہو۔ نحاس نے کہا ہے : رہا یہ کہ اثم بمعنی خمر ہو تو یہ معروف نہیں۔ اور اثم کا حقیقی معنی تو یہ ہے کہ تمام گناہ اثم کہلاتے ہیں۔ جیسے شاعر نے کہا ہے : ان وجدت الامر ارشدہ تقوی الالہ وشرہ الاثم میں (مفسر) کہتا ہوں : ابن عربی نے بھی اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے : شعر میں کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے “۔ کیونکہ اگر وہ کہتا : شربت الذنب یا شربت الوزر لکان کذالک ( میں نے گناہ کیا یا میں نے بوجھ ( گناہ کا) اٹھایا تو اس طرح ہوا) اس قوت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ذئب اور وزر دونوں شراب کے اسماء میں سے ہیں، اسی طرح لفظ اثم بھی ہے۔ اور جس نے اس قسم کی مثالوں کے ساتھ گفتگو اور تکلم کو ثابت کیا ہے جو لغت اور معانی میں طریقہ استدلال سے جہالت اور ناواقفی ہے۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : ہم نے اسے حسن سے ذکر کیا ہے اور جوہری نے صحاح میں کہا ہے : کبھی خمر کو اثم کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اور شعر کہا ہے : شربت الاثم۔۔۔۔ البیت (تفسیر ماوردی، جلد
2
، صفحہ
220
) اور ہر وی نے اپنی غریب میں کہا ہے کہ خمر اثم ( گناہ) ہے پس یہ بعید نہیں ہے کہ اثم کا لغوی اطلاق تمام گناہوں پر ہوتا ہے اور خمر پر بھی اور اس میں کوئی تناقص نہیں ہے۔ اور بغی کا معنی ظلم میں تجاوز کرنا ( اور حد سے بڑھنا ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی فساد ہے۔
Top