Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 44
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا١ؕ قَالُوْا نَعَمْ١ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَۙ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : جنت والے اَصْحٰبَ النَّارِ : دوزخ والوں کو اَنْ : کہ قَدْ وَجَدْنَا : تحقیق ہم نے پالیا مَا : جو وَعَدَنَا : ہم سے وعدہ کیا رَبُّنَا : ہمارا رب حَقًّا : سچا فَهَلْ : تو کیا وَجَدْتُّمْ : تم نے پایا مَّا وَعَدَ : جو وعدہ کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب حَقًّا : سچا قَالُوْا : وہ کہیں گے نَعَمْ : ہاں فَاَذَّنَ : تو پکارے گا مُؤَذِّنٌ : ایک پکارنے والا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَنْ : کہ لَّعْنَةُ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور اہل بہشت دوزخیوں سے پکار کر کہیں گے کہ جو وعدہ ہمارے پروردگار نے ہم سے کیا تھا اس کو ہم نے سچا پالیا۔ بھلا جو وعدہ تمہارے پروردگار نے تم سے کیا تھا تم نے بھی اسے سچ پایا ؟ وہ کہیں گے ہاں تو اس وقت ایک پکارنے والاپکار دے گا کہ بےانصافوں پر خدا کی لعنت۔
آیت نمبر : 44 قولہ تعالیٰ : آیت : ونادٰٓی اصحب الجنۃ یہ سوال مزید اضطراب میں ڈالنے کے لیے اور عار دلانے کے لیے ہے۔ ان قد وجدنا مثلا ان تکلم الجنہ ( کہ یہی وہ جنت ہے یعنی ہم نے تو اسے پا لیا ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ نفس ندا ہے۔ آیت : فاذن موذن بینھم یعنی پھر ایک پکارنے اور آواز دینے والا آواز دے گا اور وہ ملائکہ میں سے ہوگا۔ بینھم یہ ظرف ہے، جیسے آپ کہتے ہیں : اعلم وسطھم ( میں ان کے وسط کو جانتا ہوں) ۔ اعمش اور کسائی نے نعم عین کلمہ کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اس لغت پر عین کو سکون کے ساتھ پڑھنا بھی جائز ہے۔ مکی نے کہا ہے : جس نے عین کلمہ کو کسرہ کے ساتھ نعم پڑھا ہے تو اس نے یہ ارادہ کیا ہے کہ نعم جو کہ حرف جواب ہے اور نعم جو کہ اونٹ، گائے اور بکری کا اہم ہے کے درمیان فرق ظاہر ہوجائے۔ اور حضرت عمر سے جواب میں نعم بفتح العین کا انکار بھی مروی ہے۔ اور انہوں نے کہا ہے کہ نعم کا استعمال قلیل ہے۔ اور نعم اور نعم یہ دونوں لغتیں ہیں بمعنی وعدہ کرنا اور تصدیق کرنا، پس وعدہ کا معنی تب پایا جاتا ہے جب تو جو جب کے بارے میں سوال کرے مثلا تیرا یہ قول : ایقوم زید ؟ ( کیا زید کھڑا ہے ؟ ) تو وہ جواب میں کہے : نعم ( ہاں) اور تصدیق کا معنی پایا جاتا ہے جب تو کسی وقوع پذیر ہونے ولاے والے واقعہ کے برے خبر دے، تو کہے : قد کان کذا وکذا ( واقعہ اس اس طرح ہوا، تو وہ کہے : نعم ( ہاں) اور جب تو منفی کے بارے میں سوال کرے تو پھر جواب میں بلی ہوگا، جیسے تیرا یہ قول الم اکرمک ( کیا میں نے تیری عزت و تکریم نہیں کی ؟ ) تو وہ کہے گا بلی ( کیوں نہیں) پس نعم، اس سوال کے جواب کے لیے جو ایجاب پر داخل ہوتا ہے جیسے اس آیت میں ہے۔ اور بلی۔ اس استفہام کے جواب کے لیے ہے جو نفی پر داخل ہوتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : الست بربکم قالوا بلی (اعراف : 172) بزی، ابن عامر، حمزہ اور کسائی نے ان لعنۃ اللہ پڑھا ہے اور یہی اصل ہے۔ اور باقیوں نے ان کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور لفظ اللعنۃ کو مبتدا ہونے کی بنا پر رفع دیا ہے پس ان دونوں قراتوں کے مطابق حرف جر کو ساقط کرنے کی بنا پر محل نصب میں ہے۔ اور مخففہ میں جائز ہوتا ہیہ کہ اس کا اعراب میں کوئی محل نہ ہو اور وہ مفسرہ ہو جیسے پہلے گزر چکا ہے۔ اعمش سے بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے ہمزہ کو کسرہ کے ساتھ آیت : ان لعنۃ اللہ پڑھا ہے۔ اور یہ قول کہ مضمر ماننے کی بنا پر ہے جیسے کو فیوں نے قراءت کی ہے : آیت : مادتہ الملئکۃ وھو قآئم یصلی فی المحراب ان اللہ ( آل عمران : 39) اور روایت کیا جاتا ہے کہ حضرت طاؤس ہشام بن عبدالملک کے پاس تشریف لے گئے اور اسے کہا : تو اللہ تعالیٰ سے ڈر اور یوم الاذان ( کی شدت) سے بچ۔ تو اس نے کہا : یوم الذان کون سا دن ہے ؟ تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : آیت : فاذن موزن بینھم ان لعنۃ اللہ علی الظلمین یہ سن کر ہشام بیہوش ہوگیا، اس پر حضرت طاؤس نے کہا : یہ ذلت ورسوائی تو فقط بیان کی ہے تو مشاہدہ اور معاینہ کی ذلت کیسی ہوگئی۔
Top