Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 50
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ١ؕ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِیْنَۙ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے اَصْحٰبَ : والے الْجَنَّةِ : جنت اَنْ : کہ اَفِيْضُوْا : بہاؤ (پہنچاؤ) عَلَيْنَا : ہم پر مِنَ : سے الْمَآءِ : پانی اَوْ : یا مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ قَالُوْٓا : وہ کہیں گے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ حَرَّمَهُمَا : اسے حرام کردیا عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور دوزخی بہشتیوں سے گڑگڑا کر کہیں گے کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ یا جو رزق خدا نے تمہیں عنایت فرمایا ہے ان میں سے کچھ ہمیں بھی عطا کرو وہ جواب دیں گے کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کردیا ہے
آیت نمبر 50 قولہ تعالیٰ : ونادی اصحب النار اصحب الجنۃ ان افیضوا علینا من الماء او مما رزقکم اللہ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر۔ 1 قولہ تعالیٰ : ونادی کہا گیا ہے : جب اہل اعراف جنت تک پہنچ جائیں گے تو اہل جہنم خواہش کریں گے اور کہیں گے : اے ہمارے رب ! بیشک جنت میں ہمارے رشتہ دار اور قرابت دار ہیں پس ہمیں اجازت عطا فرمائی جائے کہ ہم انہیں دیکھیں اور ان سے بات کریں۔ اور اہل جنت ان کے چہرے سیاہ ہونے کی وجہ سے انہیں نہ پہنچان سکیں گے، تو وہ ( اہل جن ہم) انہیں کہیں گے : آیت : افیضوا علینا من الماء اومما رزقکم اللہ ( کہ انڈیلو ہم پر کچھ پانی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے) تو اس سے یہ ظاہر ہوا کہ انسان کھانے پینے سے مستغنی نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ عذاب میں ہو۔ آیت : قالوا ان اللہ حرمھما علی الکفرین تو اہل جنت کہیں گے : بیشک اللہ تعالیٰ نے جنت کا طعام وشراب دونوں کافروں پر حرام کردیئے ہیں۔ افاضہ کا معنی التوسعۃ ( وسعت دینا، کشادگی پیدا کرنا) کہا جاتا ہے : افاض علیہ نعمہ ( اس نے اس پر اپنی نعتیں انڈیل دیں یعنی ان میں توسیع کردی ( مسئلہ نمبر 2 اس آیت میں اس پر بھی دلیل ہے کہ کسی کو پانی پلانا افضل ترین اعمال میں سے ہے۔ تحقیق حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا گیا : کون سا صدقہ افضل ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : پانی، کیا تم اہل جہنم کی طرف دیکھتے نہیں کی جس وقت وہ اہل جنت سے مدد طلب کریں گے تو وہ کہیں گے : آیت : ان افیضوا علینا من الماء اومما رزقکم اللہ ( کہ ہم پر پانی انڈیلو یا جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے) اور ابو داؤد نے بیان کی ہے کہ حضرت سعد ؓ حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی : آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ صدقہ کون سا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : پانی۔ اور ایک روایت میں ہے : پس انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : ھذہ لام سعد (سنن ابی داود، کتاب الزکوۃ، جلد 1، صفحۃ 236، ایضا، حدیث 1431، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ( یہ کنوان سعد کی ماں کے نام ہے) ۔ اور حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ بیشک سعد کی ماں صدقہ پسند کرتی تھی کیا میرا اس کی طرف سے صدقہ دینا اسے نفع دے گا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں اور تجھ پر پانی صدقہ کرنا لازم ہے) اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت سعد بند عبادہ ؓ کو حکم ارشاد فرمایا کہ وہ اس کی طرف سے لوگوں کو پانی پلائے۔ تو یہ اس پر دلیل ہے کہ پانی پلانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم ترین سبب قربت ہے۔ اور بعض تابعین نے کہا ہے : من کثرت ذنوبہ فعلیہ بسقی الماء ( جس کے گناہ زیادہو جائیں تو اس پر (لوگوں کو) پانی پلانا واجب ہے) اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں کی مغفرت فرما دی جس نے کتے کو پانی پلایا، تو پھر اس کی کیفیت کیا ہوگی جس نے ایک مومن موحد انسان کو پانی پلایا اور اسے زندگی بخش دی ؟۔ امام بخاری (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے (صحیح مسلم، قتل الحیاۃ وغیرھا، جلد 2، صفحہ 237) کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ہم میں سے ایک آدمی راستے پر چل رہا تھا کہ اسے شدید پیاس نے آ لیا چناچہ وہ کنویں میں اترا اور اس سے پانی پی لیا پھر جب وہ باہر نکلا تو اچانک ایک کتے کو پیاس کی وجہ سے مٹی چاٹتے ہوئے دیکھ تو اس نے ( دل میں) کہا اس کتے کو اسی طرح پیاس کے سبب ( تکلیف) ہے جیسے مجھے پہنچی ہے چناچہ اس نے اپنی خف ( موزہ) پانی سے بھرا، اسے اپنے منہ ( دانتوں) سے پکڑا، پھر اوپر چڑھا اور اس کتے کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی قدر افزائی فرمائی اور اس کی مغفرت فرما دی “۔ صحابہ کرام نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ( کیا) ہمارے لیے چوپایوں میں بھی اجر ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہر تر ( زندہ) جگر رکھنے والی شے میں اجر ہے “ (صحیح بخاری، المظالم والقصاص، جلد 1، صفحہ 333) ۔ اور اس کے برعکس وہ روایت ہے جسے مسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ایک عورت (صحیح مسلم، قتل الحیاۃ وغیرھا، جلد 2، صفحہ 236) کو بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا اس نے اسے قدید کر رکھا تھا یہاں تک کہ وہ مر گئی پس اس میں آگ داخل ہوگئی نہ اس نے اسے کچھ کھلایا اور نہ اسے پانی پلایا، کیونکہ اس نے اسے قیدکر رکھا تھا اور نہ ہی اس نے اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکورے کھا لیتی “۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جن نے کسی مسلمان کو ایک بار ایسی جگہ پانی پلایا جہاں پانی پایا جاتا ہو تو گویا اس نے ایک غلام آزاد کردیا ( یعنی اسے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب دیا جائے گا) اور جن نے کسی مسلمان کو کسی ایسی جگہ ایک بار پانی پلایا جہاں پانی نہ پایا جاتا ہو تو گویا اس نے اسے زندہ کردیا “ (سنن ابن ماجہ، کتاب الرہون، جلد 1، صفحہ 180) ۔ اسے ابن ماجہ نے سنن میں روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ اور اس آیت سے استدلال کیا ہے جنہوں نے یہ کہا ہے : بیشک حوض اور مشکیزے کا مالک اس کے پانی کا زیادہ حق رکھتا ہے اور اس کے لیے اسے روکنا جائز ہے جو اس سے پانی لینا چاہے، کیونکہ اہل جنت کے اس قول : آیت : ان اللہ حرمھما علیہ الکفرین کا معنی ہے کہ تمہارے لیے اس میں کوئی حق نہیں ہے۔ اور امام بخاری (رح) نے اس بارے میں ایک باب ذکر کیا ہے : باب من رای ان صاحب الحوض والقربۃ احق بمائہ ( یہ باب اس کے بیان میں ہے جس کی رائے ہے کہ حوض اور مشکیزے کا مالک اپنے پانی کا زیادہ حق دار ہوتا ہے) اور انہوں نے اس باب میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث نقل کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! میں کچھ لوگوں کو اپنے حوض سے اس طرح دھتکاردوں گا جیسے اجنبی اونٹ کو حوض سے بھگا دیا جاتا ہے “ (صحیح بخاری، کتاب المساقات، جلد 2، صفحہ 318) ۔ مہلب نے کہا ہے : اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حوض کا مالک اس کے پانی کا زیادہ حق دار ہوتا ہے، کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : لا ذودن رجالا عن حوضی (صحیح بخاری، کتاب المساقات، جلد 1، صفحہ 318) ۔
Top