Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 59
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖ : اس کی قوم فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : ایک بڑا دن
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تو انہوں نے اس کو کہا اے میری برادری کے لوگوں خدا کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا بہت ہی ڈر ہے۔
قولہ تعالیٰ : آیت : لقد ارسلنا نوحا الی قومہ فقال یقوم اعبدوا للہ جب یہ بیان کیا کہ وہ ( اللہ تعالیٰ ) خالق بھی ہے اور کمال پر قادر بھی تو اس نے کئی امتوں کے قصص اور واقعات بیان کیے اور ان میں کفار کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے والی چیزوں کا ذکر کیا۔ لقد میں لام تاکید کے لیے ہے جو قسم پر متبنہ کرتی ہے۔ اور فا اس معنی پر دلالت کرتی ہے کہ دوسری ( شے) اول کے بعد ہے۔ یٰقوم اس میں منادی مضاف ہے۔ اور اسے اپنے اصل پر رکھتے ہوئے یا قومی پڑھنا بھی جائز ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) پہلے رسول ہیں جو بیٹیوں، بہنوں، پھوپھیوں اور خلاؤں کی حرمت کا حکم لے کر زمین پر مبعوث ہوئے نحاس نے کہا ہے : لفظ نوح منصرف ہے، کیونکہ اس میں حروف تین ہیں۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ اسے ناح ینوح سے مشتق مان لیا جائے۔ یہ معنی اس کے علاوہ دوسرا مفہوم سورة آل عمران میں گزر چکا ہے لہٰذا اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ حضرت ابن عربی (رح) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 785) نے کہا ہے : مورخین میں سے حسن نے یہ کہا ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) آپ سے پہلے تھے۔ اسے وہم ہوا ہے اور اس کے وہم کی صحت پر دلیل صحیح حدیث ہے کہ جب شب معراج حضور نبی رحمت ﷺ کی ملاقات حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) سے ہوئی تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے ان الفاظ کے ساتھ استقبال کیا : مرحبا بالنبی الصالح والابن الصالح ( خوش آمدید اے صالح بنی اور صالح بیٹے) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) نے کہا : مرحبا بالنبی الصالح الاخ الصالح ( خوش آمدید اے صالح نبی اور صالح بھائی) تو اگر حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کے باپ ہوتے تو یقینا اس طرح کہتے : مرحبا بالنبی الصالح والابن الصالح مگر جب انہوں نے الاخ الصالح کہا تو یہ اس پر دلیل ہے کہ وہ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت نوح (علیہ السلام) میں جمع اور اکھٹے ہیں، صلوات اللہ علیہم اجمعین۔ اور اس کے بعد کسی منصف کے کلام کی کوئی ضرورت نہیں۔ حضرت قاضی عیاض (رح) نے بیان کیا ہے : اس مقام پر آباء جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی جانب سے جواب ان الفاظ میں آیا ہے : مرحبا بالابن الصالح اور حضرت ادریس (علیہ السلام) نے کہا : بالاخ الصالح جیسا کہ حضرات موسیٰ ، عیسیٰ ، یوسف، ہارون اور حضرت یحییٰ (علیہم السلام) کی جانب سے ذکر کیا گیا ہے اور بالاتفاق ان میں سے کوئی بھی حضور نبی مکرم ﷺ کا باپ نہیں ہے۔ اور مازری نے بیان کیا ہے : تحقیق مورخین نے ذکر کیا ہے کہ حضرت ادریش (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کے جد امجد تھے، پس اگر اس پر دلیل قائم بھی ہوجائے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) بھی مبعوث کیے گئے تو پھر بھی ان کا قول صحیح نہیں ہے جو حضرت نوح (علیہ السلام) سے پہلے ہونے کی طرف آپ کی نسبت کرتے ہیں، کیونکہ حضور ﷺ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے اس قول کی خبر دی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) پہلے رسول ہیں جو مبعوث فرمائے گئے اور اگر دلیل قائم نہ ہو تو پہھر وہ جائز ہے جو انہوں نے کہا ہے۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ اس معنی پر محمول کیا جائے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) نبی غیر مرسل تھے۔ حضرت قاضی عیاض (رح) نے کہا ہے : اس کے درمیان تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ یہ کہا جائے : حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت تمام اہل زمین کے لیے مختص تھی، جیسا کہ حدیث میں ہے، جیسا کہ ہمارے نبی مکرم ﷺ ۔ اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کی نبوت فقط اپنی قوم کے لیے تھی جیسا کہ حضرت موسیٰ ٰ ، حضرت ہود، حضرت صالح اور حضرت لوط وغیرہم علیہم الصلوات والتسلیمات کی تھی۔ اور بعض نے اس پر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : آیت : وان الیاس لمن المرسلین اذ قال لقومہ الا تتقون ( الصافات) ( اور بیشک الیاس ( علیہ السلام) بھی پیغمبر ون میں سے ہیں ( یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا : کیا تم ڈرتے نہیں ؟ اور یہ قول بھی ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) ہی حضرت ادریس (علیہ السلام) ہیں۔ اور اس طرح بھی پڑھا گیا ہے : سلام علی ادراسین حضرت قاضی عیاض (رح) نے بیان کیا ہے : میں نے ابو الحسن بن بطال کو دیکھا ہے کہ وہ اس طرف گئے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) رسول نہیں تھے کہ وہ اس اعتراض سے محفوظ رہیں۔ اور حضرت ابو ذر الطویل کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) دونوں رسول ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : انہیں اس طرح اکٹھا اور جمع کیا جاسکتا ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 416) کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت لوگوں کی اصلاح کے لیے مشہور ہے اور آپ نے انہیں عذاب اور ہلاکت کے خوف سے ایمان پر ابھارا اور برانگیختہ کیا، پس مراد یہ ہے کہ آپ وہ پہلے نبی ہیں جو اس صفت پر مبعوث کیے گئے۔ واللہ اعلم اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت کے وقت ان کی عمر چالیس برس تھی۔ حضرت کلبی (رح) نے کہا ہے : حضرت آدم (علیہ السلام) کے آٹھ سو برس بعد آپ کی بعثت ہوئی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : آپ ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو دعوت حق دیتے رہے، جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ پھر آپ طوفان کے بعد ساٹھ برس تک زندہ رہے یہاں تک کہ لوگ زیادہ ہوگئے اوعر ادھر ادھر پھیل گئے۔ وہب نے کہا ہے : حضرت نوح (علیہ السلام) کو نبوت عطا کی گئی اس وقت آپ کی عمر پچاس برس تھی۔ عون بن شداد نے کہا ہے : حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی اس وقت آپ کی عمر ساڑھے تین سو برس تھی۔ ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں ہے کہ اب تمام مخلوق حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد سے ہے۔ نقاش نے سلیمان بن ارقم سے انہوں نے زہری سے بیان کیا ہے کہ عرب، فارس، روم، اہل شام اور اہل یمن سام بن نوح کی اولاد سے ہیں۔ سندھ، ہند، زنج، حبشہ، زط، نوبہ اور سیاہ جلدوالے تمام حام بن نوح کی اولاد سے ہیں۔ ترک، بربر، چین سے آگے کے لوگ، یاجوج ماجوج اور صقالیہ تمام کے تمام یافث بن نوح کی اولاد ہیں۔ اس طرح تمام مخلوق حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد ہے (جامع ترمذی، باب ومن سورة الصافات، حدیث نمبر 3154، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، المحرر والوجیز) ۔ قولہ تعالیٰ : آیت : مالکم من الہ غیرہ، غیرہ کی قراءت رفع کے ساتھ حضرت نافع، ابو عمرو، عاصم اور حمزہ رحمہم اللہ تعالیٰ کی قراءت ہے یعنی مالکم الہ غیرہ یہ محلا صفت ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیر بمعنی الال ہے، یعنی مالکم من الہ الا اللہ۔ ابو عمرو نے کہا ہے : میں نہ خبر کو پہچانتا ہوں اور نہ نصب کو۔ کسائی نے محل کا اعتبار کرتے ہوئے اسے جر کے ساتھ پڑھا ہے اور استثنا کی بنا پر نصب بھی جائز ہے اور یہ زیادہ نہیں ہے، مگر امام کسائی اور فراء نے ہر اس جگہ میں جائز قرار دی ہے جس میں الا اچھا اور حسین لگتا ہے چاہے کلام مکمل ہو یا مکمل نہ ہو، پس ان دونوں نے ما جائنی غیرک کو جائز قرار دیا ہے۔ فراء نے کہا ہے : یہ بعض بنی اسد اور قضاعہ کی لغت ہے۔ اور یہ شعر بیان کی ہے : لم یمنع الشرب منھا غیر ان ھتفت حمامۃ فی سحوق ذات او قال امام کسائی نے کہا ہے : جاءنی غیرک حالت ایجاب میں کہنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہاں الا واقع نہیں ہو سکتا۔ اور نحاس نے کہا ہے : بصریوں کے نزدیک غیر پر نصب جائز نہیں ہوتی جب تک کلام مکمل نہ ہو۔ اور یہ ان کے نزدیک قبیح ترین غلطی ہے۔
Top