Al-Qurtubi - Nooh : 25
مِمَّا خَطِیْٓئٰتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا١ۙ۬ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا
مِمَّا : مگر گمراہی میں خَطِيْٓئٰتِهِمْ : خطائیں تھیں ان کی اُغْرِقُوْا : وہ غرق کیے گئے فَاُدْخِلُوْا : پھر فورا داخل کیے گئے نَارًا : آگ میں فَلَمْ : پھر نہ يَجِدُوْا : انہوں نے پایا لَهُمْ : اپنے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ کے اَنْصَارًا : کوئی مددگار
(آخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب ہی غرقاب کردیے گئے پھر آگ میں ڈال دیئے گئے تو انہوں نے خدا کے سوا کسی کو اپنا مددگار نہ پایا
مما خطیئتھم اغرقوا مازائدہ ہے، برائے تاکید ہے اس کا معنی ہے ان کی خطائوں کے باعث۔ فراء نے کہا، ان کی خطائوں کی وجہ سے ما نے یہ معنی دیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ما مجازات پر دال ہے۔ ابو عمرو کی قرأت خطایاھم جمع مکسر کے طور پر ہے۔ اس کا واحد خطیہ ہے۔ جمع میں اصل طریقہ تو یہ تھا کہ وہ خطائی ہوتا جو فعائل کے وزن پر ہے جب دو ہمزے جمع ہوگئے تو دوسرے ہمزہ کو یاد سے بدل دیا کیونکہ اس سے قبل کسرہ ہے پھر اس میں ثقل پیدا ہوگیا اور جمع ثقیل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ معتل بھی ہے تو یاء کو ان سے بدل دیا، پھر پہلے ہمزہ کو یاء سے بدل دیا کیونکہ دو ہمزوں کے درمیان میں خفاء ہوتا ہے۔ باقی قراء نے اسے خطیئاتھم جمع سالم کے طریہ پر پڑھا ہے۔ ابو عمرو نے کہا، یہ ایسی قوم تھی جنہوں نے ہزار سال تک کفر کیا تو ان کی خطائوں کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی۔ اس سے یہ ارادہ کیا کہ خطایا، خطیات سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ایک قوم نے کہا، خطایا اور خطیات ایک ہی ہیں۔ دونوں جمع کے صیغے ہیں، کثرت اور قلت میں استعمال ہوتے ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اسی فرمان سے استدلال کیا ہے : مانفدت کلمت اللہ (لقمان : 27) شاعر نے کہا : لنا الجفنات الغریلمعن بالصحی وسیافنا یقطرن من نجدۃ وما ہمارے لئے سفید بڑے پیالے ہیں جو چاشت کے وقت چمکتے ہیں اور ہماری تلواریں معزز لوگوں کے خون کے قطرے ٹپکاتی ہیں۔ اسے خطیئاتھم بھی پڑھا گیا ہے اور اسے خطیاتھم بھی پڑھا گیا ہے ہمزہ کو یاء سے بدل دیا گیا اور ایک یاء کو دوسری یاء میں ادغام کردیا گیا۔ حجدری، عمرو بن عبید، اعمش، ابوحیرہ اور اشہب عقیل نے خطیئتھم واحد کا صیغہ پڑھا ہے۔ مراد شرک ہے۔ فادخلوانا راً انہیں غرق کرنے کے بعد آگ میں داخل کردیا گیا۔ قشیری نے کہا، یہا یٓت عذاب قبر پر دلالت کرتی ہے۔ عذاب قبر کے منکرین یہ کہتے ہیں : وہ آگ میں داخل ہونے کے مستحق بن چکے ہیں یا جہنم میں ان کی جو جگہ ہے اسے ان پر پیش کیا گیا جس طرح فرمایا : النار یعرضون علیھا غدواً و عشیاً (غافر : 46) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس میں اس مر کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر ایک روایت میں ہے : البحرنار فی نار سمندر بھی جہنم میں ایک آگ ہے۔ ابو روق نے ضحاک سے اللہ تعالیٰ کے فرمان : اغرقوافا دخلواناراً کی تفسیر میں یہ قول نقل کیا ہے یعنی انہیں آگ کے ساتھ عذاب دیا گیا جبکہ انہیں دنیا میں غرق کیا گیا تھا۔ یہ ایک ہی حالت میں ہیں۔ وہ ایک جانب میں غرق ہوتے تھے اور پانی میں ایک جانب سے جلتے تھے (1) ثعلبی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ابوالقاسم جیبی، ابو سعید احمد بن محمد بن میح سے وہ ابوبکر بن انباری سے یہ اشعار نقل کرتے ہیں : الخلق مجتمع طوراً و مفترق والحادثات فنون ذات اطوار لاتعجبن لاضداد ان اجتمعت فاللہ یجمع بین الماء والنار مخلقو کسی مرحلہ میں جمع ہوتی ہے اور کسی مرحلہ میں جدا ہوجاتی ہے۔ حادثات مختلف انداز کے ہیں اور کئی مراحل میں واقع ہوتے ہیں۔ اگر ضداد جمع ہوجائیں تو تو تعجب نہ کر، اللہ تعالیٰ پانی اور آگ کو جمع فرما دیتا ہے۔ فلم یجدوالھم من دون اللہ انصارًا۔ وہ کوئی ایسی ذات نہیں پائیں گے جو ان سے عذاب کو دور کر دے۔
Top