Al-Qurtubi - Nooh : 26
وَ قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا
وَقَالَ نُوْحٌ : اور کہا نوح نے رَّبِّ لَا تَذَرْ : اے میرے رب نہ تو چھوڑ عَلَي : پر الْاَرْضِ : زمین (پر) مِنَ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں میں سے دَيَّارًا : کوئی بسنے والا
اور (پھر) نوح نے (یہ) دعا کی کہ اے میرے پروردگار کسی کافر کو روئے زمین پر بسا نہ رہنے دے
اس میں چار مسائل ہیں : حضرت نوح (علیہ السلام) نے کب بد دعا کی مسئلہ نمبر 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کے بارے میں اس وقت بد دعا کی جب آپ مایوس ہوگئے کہ وہ لوگ آپ کی اتباع کریں گے۔ قتادہ نے کہا، حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس کے بعد بد دعا کی جب اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف یہ وحی کی انہ لن یومن من قومک الا من قدامن (ھود : 36) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول کیا اور ان کی امت کو غرق کردیا۔ یہ بھی اسی طرح ہے جس طرح نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : اللھم منزل الکتاب سریع الحساب و ھازم الاحزاب اھزمھم و زلزلھم (1) اے اللہ ! اے کتاب کو نازل فرمان والے، اے جلد حساب لینے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے ! انہیں شکست دے دے اور ان میں زلزلہ برپا کر دے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آپ کی بد دعا کا سبب یہ بنا کہ آپ کی قوم کا ایک آدمی اپنے چھوٹے بچے کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھا (2) وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا اور اپنے بچے سے کہا، اس سے بچ کر رہنا یہ تجھے گمراہ کر دے گا۔ اس بچے نے کہا، اے میرے ابا ! مجھے نیچے اتارنا : اس کے باپ نے اسے نیچے اتارا۔ اس نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو پتھر مارا اور آپ کو زخمی کردیا۔ اس وقت حضرت نوح (علیہ السلام) غضب ناک ہوئے اور لوگوں کے خلاف بد دعا کی۔ محمد بن کعب، مقاتل، ربیع، طعیہ اور ابن زید نے کہا، اس وقت بد دعا کی جب اللہ تعالیٰ نے ہر مومن کو ان کی پشتوں اور ان کی عورتوں کے رحموں سے نکال لیا تھا اور عذاب سے ستر سال پہلے ان کی عورتوں کی رحموں اور مردوں کی پشتوں کو بانجھ کردیا تھا (3) ایک قول یہ کیا گیا تھا، چالیس سال پہلے بانجھ کردیا تھا۔ قتادہ نے کہا، عذاب کے وقت ان میں کوئی بچہ نہیں تھا۔ حضرت حسن بصری اور ابوالعالیہ نے کہا، اگر اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی ہلاک کردیتا یو ہان کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے عذاب ہوتا اور ان میں عدل ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے بچوں اور ان کی اولادوں کو عذاب کے بغیر ہلاک کردیا، پھر عذاب کے ساتھ ان کو ہلاک کردیا (4) اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے وقوم لوح لما کذبوا الرسل اغرقنھم (الفرقان : 37) کن لوگوں کے لخاف دعا جائز ہے مسئلہ نمبر 2۔ ابن عربی نے کہا، حضرت نوح (علیہ السلام) نے کافروں کے خلاف بد دعا کی (5) اور بنی کریم ﷺ نے ان کے خلاف بد دعا کی جنہوں نے مومنوں کے خلاف اکٹھ کیا تھا۔ فی الجملہ یہ بھی کافروں کے لخفا ہی دعا تھی جہاں تک معین کافر کا تعلق ہے تو اس کا خاتمہ معلوم نہیں ہوتا، اس لئے اس کے خلفا بد دعا نہیں کی جاتی کیونکہ اس کا انجام ہمارے نزدیک مجہول ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا خاتمہ سعادت کے ساتھ معلمو ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے عتبہ، شیبہ اور ان دونوں کے ساتھیوں کے بارے میں بد دعا کی کیونکہ ان کے انجام کا آپ کو علم تھا اور ان کے حال کے بارے میں پردے کو ہٹا دیا گیا تھا۔ میں کہتا ہوں : یہ مسئلہ سورة برقہ میں تفصیلی گزر چکا ہے۔ الحمد اللہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا بد دعا کی وجہ بیان کرنا۔ مسئلہ نمبر 3 ابن عربی نے کہا، اگر یہ سوال کیا جائے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے خلاف دعا کو آخرت میں مخلوق کی شفاعت سے توقف کا سبب کیوں بنایا ہے (1) ؟ ہم عرض کریں گے : لوگوں نے اس بارے میں دو ج ہیں ذکر کی ہیں۔ (1) وہ دعا غضب اور سختی کی وجہ سے پیدا ہوئی جبکہ شفاعت تو رضا اور نرمی کی وجہ سے ہوتی ہے تو آپ کو خوف ہوا کہ کیں اس پر عتاب نہ ہو اور یہ نہ کہا جائے تو نے کل (دنیا میں) کفار کے خلا بد دعا کی اور آج ان کے حق میں شفاعت کرتے ہو۔ (2) انہوں نے نص اور واضح اجازت کے بغیر ناراضگی کے عالم میں بد دعا کی تھی تو قیامت کے روز اس پر وبال کا خوف محسوس ہوا جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، انی قتلت نفسالم او مر بقتلھا میں نے ایک ایسے نفس کو قتل کیا جس کے قتل کا مجمے حکم نہیں دیا گیا تھا۔ کہا، میں بھی یہی قول کرتا ہوں۔ میں کہتا ہوں : اگرچہ بد دعا کرنے کا صریح حکم نہیں تھا تاہم آپ کو یہ کہا گیا تھا : انہ لہ یومن من قومک الا من قد امن (ہود : 36) اس نے آپ کو ان کے انجام سے آگاہ کردیا تو آپ نے ان کے خلاف ہلاکت کی بد دعا کی جس طرح ہمارے نبی ﷺ نے شیبہ، عتبہ اور ان جیسے لوگوں کے لخفا بد دعا کی اور یہ الفاظ کہے : اللھم علیک بھم جب ان کے انجام کا علم ہوگیا۔ اس تعبیر کی بنا پر اس میں بد دعا کرنے کے امر کا معنی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر 4 دیاراً ، انک ان تذرھم یضلوا عبادک ولایلدوآ الا فاجراً کفارا۔ یعنی جو گھروں میں رہتا ہے (2) یہ سری کا قول ہے۔ ال میں یہ دیوار تھا۔ یہ فیعال کا وزن ہے۔ یہ دار، یدور سے مشتق ہے، وائو کیا یاء سے بدل دیا اور ان میں سے ایک یاء کو دسوری یاء میں ادغام کردیا جس طرح قیام، اصل میں یہ قیوام تھا۔ اگر یہ فعال کا وزن ہوتا تو یہ دوار ہوتا۔ قتبی نے کہا : اصل میں یہ دار ہے یعنی گھر میں فروکش ہونے والا یہ جملہ بولا جاتا ہے : مابالدار دیار عینی کوئی بھی نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : الدیار سے مراد گھر والا ہے۔
Top