بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھا
ھل اتی علی الانسان۔۔۔ تا۔۔۔۔ اما کفورا۔ ھل قد کے معنی میں ہے، یہ کسائی، فراء اور ابوعبیدہ کا قول ہے، سیبویہ سے منقول ہے کہ ھل قد کے معنی میں ہے۔ فراء نے کہا، ھل نافیہ ہوتا ہے اور خبر یہ ہوتا ہے، یہ ھل خبریہ ہے کیونکہ تو کہتا ہے، ھل اعطیتک تو اس سے یہ مراد لیتا ہے کہ تو نے اسے عطا کردیا ہے ہے نافیہ کی مثال یہ ہے، کہ تو کہتا ہے، ھل یقدر احد علی مثل ھذا۔ اس پر کوئی قادر نہیں ہے۔ ایک قول یہ کیا جاتا ہے یہ استفہام کے معنی میں ہے یہاں انسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں یہ قتادہ، ثوری، عکرمہ، اور سدی کا قول ہے، حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے۔ حضرت ابن عباس سے ابوصالح نے روایت نقل کی ہے، حین من الدھر کا مطلب ہے ان پر چالیس سال گزر گئے ابھی ان میں روح نہیں پھونکی گئی تھی وہ مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان پڑے رہے۔ حضرت ابن عباس سے ضحاک نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا گیا وہ چالیس سال تک اسی طرح رہے پھر چالیس سال تک لیس دار مٹی کی صورت میں رہے پھر چالیس سال تک بجتی مٹی کی صورت میں رہے ان کی تخلیق ایک سوبیس سال کے بعد مکمل ہوئی اس کے بعد ان میں روح پھونکی گئی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، یہاں جس حین کا ذکر ہے اس کی مقدار کا پتہ نہیں، یہ ماوردی نے حضڑت ابن عباس سے بیان کیا ہے۔ ضحاک نے حضڑت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا آسمان و زمین میں کوئی ذکر نہ تھا، یعنی وہ امحض ایک جسم تھے جن کی تصویر کچی کی گئی تھی وہ صرت مٹی تھے نہ کوئی ان کا ذکر تھا اور نہ ہی کوئی پہچان تھی، ان کے نام کا کچھ پتہ نہ تھا اور نہ ان کے بارے میں یہ معلوم تھا کہ کیا ارادہ کیا گیا پھر اس میں روح پھونکی گئی، یہ فراء، قطرب اور ثعلب نے بات کہی، یحییٰ بن سلام نے کہا، وہ مخلوقات میں کوئی قابل ذکر چیز نہ تھے اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی شان کے حامل تھے ایک قول یہ کیا گیا ہے یہ ذکر اخبار کے معنی میں نہیں کیونکہ کائنات میں رب العالمین کی اخبار قدیمی چیز ہے بلکہ یہ ذکر شرف وقدر و مرتبہ کے معنی میں ہے، یہ قول کیا جاتا ہے، فلان مذکور، یعنی اس کی قدرومنزلت ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، وانہ لذکرلک ولقومک۔ الزخرف 44) اور بیشک یہ بڑا شرف ہے آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے۔ یعنی انسان پر ایسا وقت ضرور گزرا ہے کہ وہ مخلوق کے نزدیک کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا پھر جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آگاہ کیا کہ اس نے حضرت آدم کو خلیفہ بنایا ہے اور اسے ایسی امانت سے نوازا ہے جس کے اٹھانے سے آسمان، زمین، اور پہاڑ عاجز آگئے تھے تو انسان کی تمام پر فضیلت ظاہر ہوگئی تو وہ قابل ذکر چیز بن گیا قشیری نے کہا، خلاصہ کلام یہ ہے وہ مخلوق کے لیے کوئی قابل ذکر چیز نہ تھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل ذکر چیز تھی محمد بن جہیم نے فراء سے اس کی یہ تعبیر نقل کی ہے وہ شی تو تھا مگر اس کا کوئی ذکر نہ تھا، ایک قوم نے کہا، نفی شی کی طرف لوٹ رہی ہے یعنی زمانے میں سے کئی مدتیں گزرگئیں، حضرت آدم مخلوق میں کوئی قابل ذکر چیز نہ تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی اصناف میں سے سب سے ـآخر میں اسے پیدا کیا تھا۔ معدوم کوئی چیز نہیں ہوتی یہاں تک کہ اس پر حین واقع ہو، معنی اس کا یہ ہے اس پر کئی زمانے گزر گئے حضرت آدم (علیہ السلام) کوئی چیز نہ تھے نہ مخلوق اور نہ مخلوقات کے ہاں قابل ذکر، یہ قتادہ اور مقاتل کے قول کا مطلب ہے، قتادہ نے کہا، انسان کی تخلیق نئی نئی ہوتی ہے، ہم انسان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق کو نہیں جانتے۔ مقاتل نے کہا : کلام میں تقدیر وتاخیر ہے تقدیر کلام یوں ہے، ھل اتی حین من الدھر لم یکن الانسان شیئا مذکورا۔ کیونکہ انسان کو تمام حیوانات کی تخلیق کے بعد تخلیق کیا گیا اس کے بعد کوئی حیوان پیدا نہیں کیا گیا ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں انسان سے مراد حضرت آدم کی اولاد کی خبر ہے، اور حین سے مراد نوماہ ہیں جتنا عرصہ انسان اپنی ماں کے پیٹ میں رہتا ہے۔ کیونکہ اس عرصہ میں وہ جما ہوا خون اور گوشت کالوتھڑا ہوتا ہے کیونکہ اس حالت میں وہ جماد کی حالت میں ہوتا ہے اس کی کوئی قدرومنزلت نہیں ہوتی۔ حضرت ابوبکر نے جب یہ آیت پڑھی تو کہا، کاش وہ مدت مکمل ہوجاتی تو ہمیں آزمایا نہ جاتا، اے کاش جو مدت حضرت آدم (علیہ السلام) پر واقع ہوئی تھی وہ قابل ذکر چیز نہ ہوتی وہ اس پر مکمل ہوجاتی ان کی اولاد نہ ہوتی اور ان کو اولاد کو آزمایانہ جاتا۔ حضرت عمر بن خطاب نے ایک آدمی کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سناتو انہوں نے کاش وہ مدت مکمل ہوجاتی۔
Top