Al-Qurtubi - Al-Insaan : 14
وَ دَانِیَةً عَلَیْهِمْ ظِلٰلُهَا وَ ذُلِّلَتْ قُطُوْفُهَا تَذْلِیْلًا
وَدَانِيَةً : اور نزدیک ہورہے ہوں گے عَلَيْهِمْ : ان پر ظِلٰلُهَا : ان کے سائے وَذُلِّلَتْ : اور نزدیک کردئیے گئے ہوں گے قُطُوْفُهَا : اس کے گچھے تَذْلِيْلًا : جھکا کر
ان سے (ثمر دار شاخیں اور) انکے سائے قریب ہونگے اور میوں کے گچھے جھکے ہوئے لٹک رہے ہونگے
ودانیۃ علیھم ظللھا۔ یعنی جنت میں درختوں کے سائے نیک لوگوں کے قریب ہوں گے وہ ان پر سایہ فگن ہوں گے۔ یہ ان نعمتوں پر اضافہ کی خاطر ہوگا اگرچہ وہاں کوئی سورج اور چاند نہیں ہوگا جس طرح ان کی کنگیاں سونے وارچاندی کی ہوں گی اگرچہ وہاں نہ کوئی میل ہوگی اور نہ پراگندگی ہوگی ایک قول یہ کیا جاتا ہے جنت میں درختوں کی بلندی سو سال کی مسافت تک ہوگی جب اللہ کا ولی اس کے پھل کی خواہش کرے گا تو وہ جھک جائیں گے یہاں تک وہ انہیں لے لے گا، دانیہ حال ہونے اور متکئین پر معطوف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے جس طرح تو کہتا ہے، فی الدار متکئا ومرسلہ علیہ الحجال۔ گھر میں عبداللہ ٹیک لگائے ہوئے ہے اور اس پر پردے لٹکائے گئے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے یہ جنت کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے یعنی جزاھم جنۃ دانیۃ پس یہ محذوف موصوف کی صفت ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے۔ بطور مدح منصوب ہے یعنی دنت دانیہ یہ فراء کا قول ہے۔ ظللھا یہ دانیۃ کی وجہ سے مرفوع ہے اگر دانیہ کو مرفوع پڑھاجائے کہ ظللھا مبتداء ہو اور دانیہ اس کی خبر ہو تو یہ بھی جائز ہے پھر یہ جملہ جزاھم کی ھم ضمیر سے حال ہوگا اس طرح اس کی قرات بھی کی گئی ہے، حضرت عبداللہ کی قرات میں ودانیا علیھم ہے کیونکہ فعل پہلے ہے۔ حضرت ابی کی قرات میں ودان ہے جملہ مستانفہ ہونے کی حیثیت میں مرفوع ہے۔ وذللت قطوفھا تذلیلا۔ یعنی ان کے پھلوں کو مسخر کردیا گیا ہے اسے کھڑا، بیٹھا اور لیٹا ہوالے لے گا دوری اور کانٹا ان کے ہاتھوں کو واپس نہیں کرے گا یہ قتادہ کا قول ہے۔ مجاہد نے کہا، اگر کوئی کھڑا ہوگا تو وہ پھل اوپراٹھ جائیں گے اور اگر وہ بیٹھا ہوگا تو وہ نیچے آجائیں گے اگر وہ پہلو کے بل لیٹے گا توہ پھل اس کے قریب ہوجائیں گے تو وہ اس سے کھالے گا۔ ان سے یہ بھی مروی ہے جنت کی زمین چاند کی ہے اس کی مٹی زعفران کی ہے اس کی خوشبو اذفر کستوری کی ہے اس کے درختوں کے تنے سونے اور چاندی کے ہیں ان کی شاخین لولو، زبرجد اور یاقوت ہیں پھر ہر ایک کے نیچے پھل ہے جس نے اس میں سے کھایا وہ اسے کوئی تکلیف نہ دے گا جس نے اس سے بیٹھے ہوئے کھایا وہ اذیت نہ دے گا جس نے اسے پہلو کے بل لیٹ کر کھایا وہ اسے کوئی اذیت نہ دے گا۔ حضرت ابن عباس نے کہا : جب وہ اس کے پھل کھانے کا ارادہ کرے گا تو وہ پھل اس کی طرف لٹک جائیں گے یہاں تک کہ وہ جو چاہیں گے ان میں سے لے گا۔ تذلیل القطوف سے مراد آسانی سے لے لینا ہے، قطوف سے مراد پھل ہیں اس کا واحد قطف ہے۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ اس بار بار کاٹا جاتا ہے جس طرح اسے جنی کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ اسے چنا جاتا ہے۔ تذلیلا یہ اس ذل کی تاکید ہے جس کے ساتھ صفت بیان کی جاتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ونزلناہ تنزیلا۔ الاسرائ) ہم نے اسے نازل کیا۔ وکلم اللہ موسیٰ تکلیما۔ النسائ) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا، ماوردی نے کہا، یہ احتمال موجود ہے کہ گچھوں کی تذلیل ہے مراد ان کا غلاف سے باہر آنا اور گٹھلی سے پاک ہونا ہو۔ میں نے کہا : اس میں حقیقت سے بہت ہی دوری ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک نے روایت نقل کی ہے کہ سفیان نے، حماد سے وہ سعید بن جبیر سے وہ حضرت ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہوئے فرمایا۔ جنت کی کھجوریں ان کے تنے سبز زمرد کے ہوں گے ان کی جڑیں سرخ سونے کی ہوں گی ان کے پتے اہل جنت کے لباس ہوں گے انہیں سے ان کے حلے ہوں گے، ان کے پھل مٹکوں اور ڈولوں جیسے ہوں گے دودھ سے زیادہ سفید ہوں گے، شہد سے زیادہ میٹھے ہوں گے مکھن سے زیادہ نرم ہوں گے اس میں گٹھلی نہیں ہوگی۔ ابوجعفر نحاس نے کہا : ایک قول یہ کیا جاتا ہے مذل اسے کہتے ہیں جسے پانی نے سیراب کیا ہو۔ مذلل اسے بھی کہتے ہیں جس کو نری کی وجہ سے تھوڑی سے ہواجھکادیتی ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذلل سے مراد جسے سیدھا کیا جائے کیونکہ اہل حجاز کہتے ہیں : ذلل نخللک۔ اپنی کھجور کو سیدھا کر۔ مذلل ایسی چیز کو بھی کہتے ہیں جو قریب ہو اسے لیاجاسکے۔ یہ عربوں کے اس قول سے ماخوذ ہے، حائط ذلیل چھوٹی دیوار، ابوجعفر نے کہا، یہ اقوال جو ہم نے ذکر کیے انہیں علماء لغت نے ذکر کیا ہے اور انہوں نے امراء القیس کے اس قول میں ذکر کیے ہیں۔ وساق کانبوب السقی المذلل، پنڈلی اس بردی، (عمدہ کھجور) کی طرح ہے جسے خوب سیراب کیا گیا ہو۔
Top