Al-Qurtubi - An-Naba : 28
وَّ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا كِذَّابًاؕ
وَّكَذَّبُوْا : اور انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو كِذَّابًا : جھٹلانا
اور ہماری آیتوں کو جھوٹ سمجھ کر جھٹلاتے رہتے تھے
وکذبوا بایتنا کذابا۔ آیات سے مراد وہ ہے جو انبیاء لائے ایک قول یہ کیا گیا ہے جو ہم نے کتابیں نازل کیں ان کو جھٹلاتے تھے عام قراء کی قرات کذابا ہے یعنی ذال مشدد اور کاف کے نیچے کسرہ ہے یعنی بہت شدید جھٹلایا۔ فراء نے کہا، یہ یمنی لغت ہے وہ یوں کہتے ہیں، کذبت بہ کذابا، خرقت القمیص خراقا۔ ہر وہ فعل جو فعل کے وزن پر ہو اس کا مصدر فعال کے وزن پر ہوتا ہے یہی ان کی لغت ہے۔ حضرت علی شیر خدا نے کذابا تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے، یہ بھی مصدر ہے، ابوعلی نے کہا، تخفیف اور تشدید دونوں طرح ہے اس کا مصدر مکاذبہ ہے جس طرح اعشی کا قول ہے، فصدق تھا وکذب تھا والمرء ینفعہ کذابہ۔ میں نے نفس سے سچ بولا اور اس سے جھوٹ بھی بولاانسان کو اس کا جھوٹ ہی نفع دیتا ہے۔ ابوالفتح نے کہا، کذب اور کذب دونوں کا یہ مصدر ہے زمخشری نے کہا، کذابا جب ذال کی تخفیف کے ساتھ ہوتویہ کذب کا مصدر ہوگا جس طرح مذکورہ شعر میں ہے یہ اس قول کی طرح ہے، انبتکم من الارض نباتا، یعنی انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور انہوں نے جھوٹ بولا یاکذبوا فعل بذات خود اس کو نصب دیتا ہے کیونکہ کذابا، کذبوا کے معنی کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے کیونکہ ہر حق کی تکذیب کرنے والاجھوٹا ہوتا ہے کیونکہ جب وہ مسلمانوں کے نزدیک جھوٹے تھے تو مسلمان بھی ان کے نزدیک جھوٹے تھے تو اس طرح ان کے نزدیک مکاذبہ ہوا کرتا تھا، حضرت ابن عمر نے اسے کذابا پڑھا جو کاذب کی جمع ہے، یہ ابوحاتم کا قول ہے اور وہ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، یہ زمخشری کا قول ہے، بعض اوقات کذاب سے مراد ایسا شخص ہے جو جھوٹ میں مبالغہ کا کام دے کہا جاتا ہے، رجل کذاب، جس طرح تو کہتا ہے، حسان بخال وہ اسے کذبوا کے مصدر کی صفت بناتے ہیں تقدیر کلام یوں ہوگی تکذیبا کذابا مفرطا کذبہ، صحاح میں ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، وکذبوا بایتنا کذابا۔ یہ مشدد کے مصدر میں سے ایک ہے کیونکہ باب تفعیل کا مصدر کبھی تفعیل جیسے تکلیم، کبھی فعال جیسے کذاب، کبھی تفعلۃ جیسے توصیۃ اور کبھی مفعل کے وزن پر آتا ہے جس طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے، ومزقنھم کل ممزق۔ السبا 19)
Top