Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 24
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَجِيْبُوْا : قبول کرلو لِلّٰهِ : اللہ کا وَلِلرَّسُوْلِ : اور اس کے رسول کا اِذَا : جب دَعَاكُمْ : وہ بلائیں تمہیں لِمَا يُحْيِيْكُمْ : اس کے لیے جو زندگی بخشے تمہیں وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَحُوْلُ : حائل ہوجاتا ہے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : آدمی وَقَلْبِهٖ : اور اس کا دل وَاَنَّهٗٓ : اور یہ کہ اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم اٹھائے جاؤگے
مومنو ! خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو۔ جبکہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی (جاوداں) بخشتا ہے۔ اور جان رکھو کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اسکے روبرو جمع کئے جاؤ گے۔
آیت نمبر : 24 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : 1 قولہ تعالیٰ : آیت : یایھا الذین امنوا استجیبوا للہ وللرسول بلا اختلاف یہ خطاب تصدیق کرنے والے مومنین کو ہے۔ اور استجابۃ کا معنی الاجابۃ ( جواب دینا) ہے۔ اور یحییکم اصل میں یحییکم تھا، پھر یا پر ضمہ ثقیل ہونے کی وجہ سے اسے یا سے حذف کردیا گیا اور ادغام جائز نہیں۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے : استجیبوا کا معنی اجیبوا ( تم جواب دو ) ہے لیکن عرف کلام یہ ہے کہ استجاب لام کے واسطہ کے ساتھ متعدی ہوتا ہے اور اجاب بغیر لام کے متعدی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : یقومنا اجیبوا داعی اللہ (الاحقاف : 31) ( اے ہماری قوم ! قبول کرلو اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو) اور کبھی استجاب بھی بغیر لام کے متعدی ہوتا ہے۔ اور اس پر شاہد شاعر کا یہ قول ہے : وداع دعا یا من یجیب الی الندی فلم یستجبہ عند ذاک مجیب (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 514) آپ کہتے ہیں : اجابہ واجاب عن سوالہ ( اس نے اسے جواب دیا اور اس نے اس کے سوال کا جواب دیا) اس میں مصدر الاجابۃ ہے، اور اسم الجابۃ ہے، جیسا کہ الطاقۃ اور الطاعۃ ہے۔ تو کہتا ہے : اساء سمعا فآساء اجابۃ ( اس نے غلط سنا اور غلط جواب دیا) اس حرف کے بارے اسی طرح کلام کی جاتی ہے۔ اور المجاوبۃ والتجاوب کا معنی ہے باہم ایک دوسرے سے گفتگو کرنا، تبادلہ خیال کرنا۔ اور تو کہتا ہے : انہ لحسن الجیبۃ اس میں الجیبۃ ( جیم کے کسرہ کے ساتھ) بمعنی الجواب ہے یعنی ( بیشک اس نے خوبصورت جواب دیا ) آیت : لما یحییکم یہ استجیبوا کے متعلق ہے۔ اس کا معنی ہے : استجیبوا لما یحییکم اذا دعا کم ( تم جواب دو اس امر کا جو تمہیں زندہ کرتا ہے جب وہ رسول تمہیں بلائے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لام بمعنی الی ہے۔ ای الی ما یحییکم یعنی جب وہ تمہیں ایسے امر کی طرف بلائے جو تمہارے دین کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں ( نور) علم عطا فرماتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یعنی تمہیں بلاتا ہے ایسے امر کی طرف جس کے ساتھ تمہارے دل زندہ ہوجاتے ہیں۔ پس تم نے اسے واحد اور یکتا تسلیم کرلیا، یہ احیاء مجازی ہے، کیونکہ کہ کفر اور جہالت کی موت سے حاصل ہوتا ہے۔ حضرت مجاہد اور جمہور نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تم طاعت کو اور اوامر ونواہی میں سے جنتے احکام کو قرآن کریم متضمن ہے تمام کو قبول کرو (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 514) ، اسی میں ابدی حیات ہے اور یہی نعمت سرمدیہ ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : قول باری تعالیٰ : آیت : لمایحییکم سے مراد جہا ہے، کیونکہ ظاہر میں یہی زندگی کا سبب ہے کیونکہ دشمن کے ساتھ جب نہ لڑا جائے تو پھر وہ حملہ آور ہوتا ہے۔ اور اس کے حملے میں موت ہے اور جہاد میں مرنا ابدی حیات ہے، جیسا کہ رب کریم نے ارشاد فرمایا : آیت : ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء ( آل عمران : 169) ( اور ہر گز یہ خیال نہ کرو کہ وہ جو قتل کیے گئے ہیں اللہ کی راہ میں وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں) اور صحیح قول یہی ہے کہ یہ آیت عام ہے جیسا کہ جمہور نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : 2 امام بخاری (رح) نے حضرت ابو سعید بن معلی ؓ سے حدیث بیان کی ہے انہوں نے بیان فرمایا : میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا ( لیکن) میں نے کوئی جواب نہ دیا، پھر میں حاضر خدمت ہوا اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیا اللہ عزوجل نے یہ ارشاد نہیں فرمایا : آیت : استجیبوا للہ وللرسول اذا دعا کم لما یحییکم (صحیح بخاری، کتاب التفسیر سورة انفال، جلد 2، صفحہ 699) اور حدیث ذکر کی “۔ یہ سورة فاتحہ میں پہلے گزر چکی ہے۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : یہ اس پر دلیل ہے کہ فعل فرض یا قول فرض جب حالت نماز میں کیا جائے تو نماز باطل نہیں ہوتی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جواب دینے کا حکم ارشاد فرمایا اگرچہ وہ نماز میں ہو۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : اس میں امام اوزاعی (رح) کے قول کی حجت اور دلیل ہے کہ اگر آدمی نماز پڑھ رہا ہو پھر اس نے کسی بچے کو دیکھا کہ وہ کنوئیں میں چھلانگ لگانے کا ارادہ رکھتا ہے پس اس نے اس کے بارے شور مچایا اور اس کی طرف گیا اور اسے اس پر ڈانٹ پلائی ( اتنے عمل سے) نماز میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 3 : قولہ تعالیٰ : آیت : واعلموا ان اللہ یحول بین المرء وقلبہ کہا گیا ہے : یہ اس بارے میں نص ہونے کا تقاضا کرتی ہے کہ کفر اور ایمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے پس وہ کافر آدمی اور اس ایمان کے درمیان جس کے بارے اس نے حکم دیا ہے حائل ہوجاتا ہے، پس بندہ اسے حاصل نہیں کرسکتا جب تک وہ اسے اس پر قدرت نہ دے بلکہ اس نے اسے اس ( ایمان) کی ضد پر قدرت دے رکھی ہے اور وہ کفر ہے، اور اسی طرح مومن ہے کہ اللہ کریم اس کے درمیان اور کفر کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ پس اس نص سے یہ ظاہر ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے جملہ اعمال کا خالق ہے چاہے وہ اعمال خیر ہوں یا شر ہوں۔ اور حضور ﷺ کے اس ارشاد کا یہی معنی ہے : لا ومقلب القلوب (معالم التنزیل، جلد 2، صفحۃ 616) ( قسم ہے اس کی جو دلوں کو پھرنے والا ہے) اور اللہ تعالیٰ کا فعل اس کے بارے میں عین عدل ہے جسے اس نے گمراہ کیا اور رسوا کیا، کیونکہ اس نے انہیں اس حق سے روکا نہیں جو اس پر واجب ہو کہ صفت عدل زائل ہوجائے، بلکہ اس نے تو انہیں اس فضل اور مہربانی سے روکا ہے جو اس کے پاس تھی چاہتا تو ان پر فرما سکتا تھا مگر وہ ان کے لیے واجب نہ تھی۔ سدی (رح) نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے پس وہ اس کی اجازت کے بغیر ایمان لانے کی استطاعت نہیں رکھتا اور وہ کفر بھی نہیں کرسکتا مگر اس کی مشیت کے ساتھ۔ اور قلب (دل) غور و فکر کا محل ہے۔ اس کا بیان پہلے سورة البقرہ میں گزر چکا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہے، جب وہ چاہتا ہے بندے اور اس کے درمیان کسی بیماری یا آفت کے سبب حائل ہوجاتا ہے تاکہ وہ سمجھ ہی نہ سکے۔ یعنی تم قبولیت کی طرف جلدی کرلو اس سے پہلے کہ تم عقل زائل ہونے کے سبب اس پر قادر ہی نہ رہو۔ اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ نے کہا ہے : اس کا معنی ہے وہ آدمی اور اس کی عقل کی درمیان حائل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ آدمی جو کررہا ہوتا ہے اسے سمجھ نہیں سکتا اور قرآن کریم میں ہے : آیت : ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب (ق : 37) اس میں قلب سے مراد عقل ہے۔ ( بیشک اس میں نصیحت ہے اس کے لیے جو دل (بینا) رکھتا ہو) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آدمی اور اس کے عمل کے درمیان موت کے ساتھ حائل ہوجاتا ہے، لہٰذا جو عمل آدمی سے فوت ہوچکا ہوتا ہے اس کا تدارک اس کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزوہ بدر کے دن مسلمان دشمن کی کثرت کے سبب خوفزدہ ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آگاہ فرمایا کہ وہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اس طرح کہ وہ انہیں خوف کے بعد امن سے بدل سے اور ان کے دشمن کو امن سے خوف میں بدل دے۔ اور یہ معنی بیان کیا گیا ہے کہ وہ امور کو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بدلتا رہتا ہے۔ اور یہی جامع معنی ہے۔ اور علامہ طبری کی پسند یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اخبار ہے کہ وہ بندوں کے دلوں کا مالک ہے اور یہ کہ وہ جب چاہتا ہے ان کے درمیان حائل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ انسان اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کسی شی کا ادراک نہیں کرسکتا۔ آیت : وانہ الیہ تحشرون یہ معطوف ہے۔ فراء نے کہا ہے : اگر جمہ مستانفہ ہوتا تو پھر ان کو کسرہ دیا جاتا۔ لہذا وانہ ہی درست اور صحیح ہے۔
Top