Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَخُوْنُوا : خیانت نہ کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول وَتَخُوْنُوْٓا : اور نہ خیانت کرو اَمٰنٰتِكُمْ : اپنی امانتیں وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اے ایمان والو ! نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو۔ اور تم (ان باتوں کو) جانتے ہو۔
آیت نمبر : 27 روایت ہے کہ یہ آیت حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی جس وقت انہوں نے بنی قریظہ کی طرف ذبح کا اشارہ کیا۔ حضرت ابو لبابہ ؓ نے بیان کیا ہے : قسم بخدا ! میرے قدم نہیں پھسلے یہاں تک کہ مجھے علم ہوگیا کہ میں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کے ساتھ خیانت کی ہے، پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ اور کہا : قسم بخدا ! نہ میں کھانا کھاؤں گا اور نہ پانی پیئوں گا یہاں تک کہ میں مر جاؤں یا پھر اللہ تعالیٰ میرے توبہ قبول فرما لے (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 619) ۔ یہ خبر مشہور ہے۔ حضرت عکرمہ (رح) نے بیان کیا ہے : جب بنی قریظہ کا معاملہ پیش آیا تو حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت علیہ ؓ کو ان لوگوں کے ساتھ بھیجا جو آپ ﷺ کے پاس موجود تھے۔ پس جب آپ ان کے پاس جا کر رکے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بارے نازیباکلمات کہے اور حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) ابلق ( چتکبرہ گھوڑا) گھوڑے پر تشریف لائے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان فرمایا : گویا میں رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھ رہی ہوں کہ آپ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) کے چہورے سے غبار صاف کر رہے ہیں۔ تو میں نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا یہ دحیہ ؓ ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” یہ حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں “۔ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ کون سی شے آپ کو بنی قریظہ سے روک رہی ہے کہ آپ ان کی طرف آئیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میرے لیے ان کے قلعے میں پہنچنا کیسے ممکن ہے “ ؟ تو حضرت جبریل (علیہ السلام) نے کہا : میں اپنا یہ گھوڑا ان پر داخل کروں گا۔ پھر رسول اللہ ﷺ ننگے گھوڑے پر سوار ہوئے۔ تو جب حضرت علی ؓ نے آپ کو دیکھا، عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ بہتر ہوتا کہ آپ تشریف نہ لاتے، کیونکہ وہ آپ کو برھ بھلا کہہ رہے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہر گز نہیں بیشک عنقریب سلامتی ہوجائے گی “۔ پس حضور نبی مکرم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا :” اے بندروں اور خنزیروں کے بھائیوں “۔ تو انہوں نے کہا : اے ابا القاسم ! آپ تو فحش کہنے والے نہیں۔ پھر انہوں نے کہا : ہم محمد ﷺ کے حکم پر (نیچے) نہیں اتریں گے، البتہ ہم حضرت سعد بن معاذ ؓ کے حکم پر اترآئیں گے۔ پس وہ اترے۔ اور ان کے بارے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے جنگجوؤں کو قتل کردیا جائے اور ان کی اولادوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اسی (فیصلے) کے ساتھ فرشتہ سحری کے وقت میرے پاس آیا ( تفسیر در منثور، جلد 3، صفحہ 323 ) ، پس ان کے بارے یہ حکم نازل ہوا : آیت : یایھا الذین امنوا لا تخونوا اللہ والرسول وتخونوا امنتکم وانتم تعلمون یہ آیت حضرت ابو لبابہ ؓ کے بارے نازل ہوئی کہ انہوں نے بنی قریظہ کی طرف اس وقت اشارہ کیا جب انہوں نے کہا : ہم حضرت سعد بن معاذ ؓ کے حکم پر اتریں گے کہ تم اس طرح نہ کرو، کیونکہ یہ ذبح ہے اور ساتھ ہی اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت اس بارے میں نازل ہوئی ہے کہ وہ حضور نبی مکرم ﷺ سے کوئی بات سنتے تھے تو وہ اسے مشرکین تک پہنچا دیتے تھے اور اسے افشا کردیتے تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مال غنیمت میں خیانت کرنا ہے اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، کیونکہ وہی وہ ہے جس نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف ہے، کیونکہ آپ ﷺ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ادا کرنے والے اور اسے قائم اور پختہ کرنے والے ہیں۔ اور الخیانۃ سے مراد غدر (دھوکا) اور کسی شی کو چھپانا ہے۔ اور اسی معنی میں یہ ارشاد ہے : آیت : یعلم خآئنۃ الاعین (غافر : 19) ( وہ جانتا ہے خیانت کرنے والی آنکھوں کو) اور آقا (علیہ الصلوۃ والسلام) عرض کرتے ہیں :” اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کیونکہ یہ بہت برا ساتھی ہے اور خیانت سے کیونکہ یہ انتہائی برا باطن ہے “ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ جلد 1، صفحہ 216۔ ایضا، حدیث نمبر 1323، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3344، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ نساء نے اسے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا : کان رسول اللہ ﷺ یقول پھر آگے اسے ہی بیان کیا ہے۔ آیت : وتخونوا امنتیکم یہ محل جزم میں ہے، کیونکہ اس کا عطف ماقبل پر ہے۔ اور کبھی جواب کی بنا پر اس طرح ہوتا ہے جیسے کہا جاتا ہے : لا تاکل السمک وتشرب اللبن ( اس میں تشرب، لا تکل کا جواب ہونے کی وجہ سے مجزوم ہو سکتا ہے) اور امانات سے مراد وہ اعمال ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے بندوں کو امین بنایا ہے۔ اور انہیں امانت کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ اس کے ساتھ انہیں حق کے روکنے سے محفوظ کردیا جاتا ہے، یہ الامن سے ماکوذ ہے۔ اور سورة النساء میں امانات اور ودیعتوں کی ادائیگی کے بارے میں اور دیگر چیزوں کے بارے میں بحث گزر چکی ہے آیت : وانتم تعلمون یعنی خیانت میں جو قبح اور عار (ندامت) ہے اسے تم جانتے ہو۔ ور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے تم جانتے ہو کہ یہ امانت ہے۔
Top