Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 51
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِۙ
ذٰلِكَ : یہ بِمَا : بدلہ جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجے اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ لَيْسَ : نہیں بِظَلَّامٍ : ظلم کرنے والا لِّلْعَبِيْدِ : بندوں پر
یہ ان (اعمال) کی سزا ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں۔ اور یہ (جان رکھو) کہ خدا (بندوں پر) ظلم نہیں کرتا
( آیت نمبر 51) کہا گیا ہے : مراد وہ لوگ لیے ہیں جو باقی بچے اور بدر کے دن مارے نہ گئے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ ان کے بارے میں ہے جو بدر میں قتل کردیئے گئے۔ اور لوکا جواب محذوف ہے، اس کی تقدیر عبادت یہ ہے : لرایت امراعظیما ” اگر تو دیکھے جب جان نکالتے ہیں کافروں کی فرشتے ......... تو تو امر عظیم کو دیکھتا “۔ یضربون یہ حال کے محل میں ہے۔ وجوھم وادبارھم ” اس حال میں کہ وہ مارتے ہیں ان کے چہروں اور پشتوں پر ”۔ یعنی ان کی سرینوں پر، کنایۃ اسے اوبار کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ یہ حضرت مجاہد اور حضرت سعید بن جبیر نے کہا ہے۔ حسن نے کہا ہے : ادبارھم سے مراد ان کی پشتیں ہیں اور کہا : بیشک کسی آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی بار گاہ میں عرض کی : یارسول ﷺ ، بیشک میں نے ابو جہل کی پیٹھ پر ( جوتے کے) تسمے کی مثل دیکھا ؟ تو آپ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” وہ ملائکہ کی ضرب تھی “ (1) ۔ اور کہا گیا ہے : یہ ضرب موت کے وقت لگتی ہے۔ اور کبھی یہ قیامت کے دن لگے گی جس وقت وہ انہیں جہنم کی طرف لے جائیں گے۔ وذو قوا عذاب الحریق۔ فراء کے کہا ہے : اس کا معنی ہے ویقولون زوقوا اور کہتے ہیں۔ چکھو، پھر اسے حذف کردیا گیا ہے اور حسن نے کہا ہے : یہ قیامت کے دن ہوگا، انہیں جہنم پر مقرر فرشتے کہیں گے : تم آگ کا عذاب چکھو۔ اور یہ روایت ہے کہ بعض تفاسیر میں ہے کہ ملائکہ کے پاس ہو ہے کے بھاری گرز ہیں جب بھی وہ ان کے ساتھ مارتے ہیں تو زخموں میں آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ پس اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے : وذوقوا عذاب الحریق ” اور چکھو آگ کا عذاب “ اور ذوق محسوسا بھی ہوتا ہے اور منعی بھی۔ اور کبھی اسے ابتلا اور امتحان کی جگہ رکھا جاتا ہے، جسیے تو کہتا ہے : ارکب حذا الفرس قذاقہ ( تو اس گھوڑے پر سوار ہو اور اسے چکھ ( یعنی اسے آزما) اور انظر فلانا فذق ما عندہ ( تو فلاں کی طرف دیکھ اور جو اس کے پاس اسے چکھ یعنی اس کا امتحان لے) شماخ نے گھوڑے کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا ہے : فذاق فاعطتہ من الدین جانبا کفی دلھا ان یگرق السھم حاجز اس اس کا اصل منہ کے ساتھ کسی شے کو چکھنا ہے۔ ذلک یہ محل رفع میں ہے، یعنی الامر ذالک یا دالک جزاء کم ( یہ تمہاری جزا اور بدلہ ہے) بما قدمت ایدیکم ان کا جو گناہ تم نے کیے ہیں۔ وان اللہ لیس ولظلام لعبید جب اس نے راستہ واضح کردیا۔ اور رسل علیم الصلوات والتسلیمات کو معبوث فرمایا ہے، تو پھر تم نے اس کا خلاف کیوں کیا ؟ اس میں ان محل جر میں ہے اس کا عطف ما پر ہے اور اگر چاہے تو اسے نصب دے لے، یعنی یہ بمعنی بان اور پھر با کو حذف کردیا گیا یا بمعنی وذالک ان اللہ ھو اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ ذالک پر عطف نسق کرتے ہوئے محل رفع میں ہو۔
Top