Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 62
وَ اِنْ یُّرِیْدُوْۤا اَنْ یَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللّٰهُ١ؕ هُوَ الَّذِیْۤ اَیَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَۙ
وَاِنْ : اور اگر يُّرِيْدُوْٓا : وہ چاہیں اَنْ : کہ يَّخْدَعُوْكَ : تمہیں دھوکہ دیں فَاِنَّ : تو بیشک حَسْبَكَ : تمہارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ هُوَ : وہ الَّذِيْٓ : جس نے اَيَّدَكَ : تمہیں زور دیا بِنَصْرِهٖ : اپنی مدد سے وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ : اور مسلمانوں سے
اور اگر یہ چاہیں کہ تم کو فریب دیں تو خدا تمہیں کفایت کرے گا۔ وہی تو ہے جس نے تم کو اپنی مدد سے اور مسلمانوں (کی جمعیت) سے تقویت بخشی۔
قولہ تعالیٰ : وان یرید وا ان یخدعوک یعنی اس کے ساتھ کہ وہ آپ کے لیے صلح ظاہر کریں۔ اور باطن میں غدر اور خیانت رکھیں ‘ تو آپ مائل ہوجائیے پس آ پکا ان کی نیتیں فاسد ہونے کے سبب کوئی نقصان نہیں۔ فان حسبک اللہ کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ کافی ہے ‘ یعنی وہ ہی آپ کی کفایت اور آپ کی حفاظت کا والی اور ذمہ دار ہے۔ شاعر نے کہا ہے : اذا کا نت الھیجاء وانشقت العصا فحسبک والضحاک سیف مھند یعنی تجھے اور ضحاک کو تلوار کافی ہے ‘ تو اس میں بھی حسبک بمعین کا فیک ہے۔ قولہ تعالیٰ : ھوالذی ایدک بنصرہ یعنی وہی ہے جس نے آپ کو اپنی نصرت کے ساتھ قوت عطا کی۔ مراد بدر کا دن ہے۔ وبالمؤمنین نعمان بن بشر نے کہا ہے : یہ انصار کے بار میں نازل ہوئی۔ والف بین قلوبھم ‘ یعنی اوس اور خزرج کے دلوں کو (محبت والفت سے) جوڑدیا۔ اور عرب میں شدید عصبیت کے باوجود حضور نبی مکرم ﷺ کی آیات اور آپ کے معجزات کے سبب دلوں میں الفت اور محبت پیدا وہ گئی ‘ کیونکہ ان میں سے کسی کو پھپڑ مارا جاتا تھا تو وہ اس کے عوض جھگڑ پڑتا تھا یہاں تک کہ وہ اس کا قصاص طلب کرتا تھا۔ اور وہ حمیت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں انتہائی شدید اور سخت تھے ‘ پس اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ ان کے درمیان الفت پیدا کردی ‘ یہاں تک کہ ایک آدمی دین کے سبب اپنے باپ اور اپنے بھائی کے خلاف قتال کرنے لگا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہاں مراد مہاجرین و انصار کے دریمان تالیف ہے۔ اور یہ معنی باہم متقارب ہیں۔
Top