Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 64
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی حَسْبُكَ : کافی ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ وَمَنِ : اور جو اتَّبَعَكَ : تمہارے پیرو ہیں مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اے نبی ﷺ ! خدا تم کو اور مومنوں کو جو تمہارے پیرو ہیں کافی ہے۔
یایھا النبی حسبک اللہ ومن التبعک من المؤمنین۔ ” اے نبی ( مکرم) کافی ہے آپ کو اللہ تعالیٰ اور جو آپ کے فرمانبردار ہیں مومنوں سے “ یہ تکرار نہیں ہے ‘ کیونکہ ماسبق کلام میں فرمایا ہے : وان یریدوا ان یخدعوک فان حسبک اللہ اور یہ کفایۃ خاصہ ہے اور اس ارشاد یا یھا النبی حسبک اللہ میں تعمیم کا ارادہ فرمایا ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہر حال میں آ پکو کافی ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے : یہ آیت حضرت عمر ؓ کے اسلام کے بار میں نازل ہوئی ‘ کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ تنتیس آدمی اور چھ عورتیں اسلام لاچکی تھیں۔ پھر حضرت عمر ؓ نے اسلام قبول کیا اور وہ (مسلمان) چالیس ہوگئے۔ یہ آیت مکی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے حکم سے مدنی سورت میں لکھی گئی ہے اسے قشیرمی نے ذکر کیا ہے۔ میں (مفسرض کہتا ہوں : حضرت عمر ؓ کے اسلام کے بارے میں انہوں نے جو حضرت ابن عباس ؓ سے ذکر کیا ہے ‘ تحقیق سیرت میں اس کے خلاف واقع ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا ہے : ہم کعبہ معظمہ کے پاس نماز پڑھنے پر قدرت نہ رکھتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ اسلام لائے ‘ پس جب آپ نے اسلام قبول کیا تو آپ نے قریش کے ساتھ جھگڑا کیا یہا تک کہ آپ نے کعبہ کے پاس نماز پڑھی اور ہم نے ابھی آپ کی معیت میں نماز پڑھی۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام میں سے جو حبشہ کی طرف ہجرت فرما ہوئے ان کی ہجرت کرنے کے بعد حضرت عمر ؓ اسلام لائے۔ ابن اسحاق (رح) نے کہا ہے : مسلمانوں میں سے وہ تمام جو سرزمین حبشہ کے ساتھ جاملے اور اس کی طرف ہجرت فرما ہوئے۔ ان کے ان بیٹوں کے سوا جوان کے ساتھ چھوٹی عمر میں نکلے یا وہاں پیدا ہوئے۔ وہ تراسی آدمی تھے ‘ اگر حضر عمار بن یاسر ؓ ان میں شامل ہوں۔ کیونکہ ان کے بارے میں شک کیا جاتا ہے۔ اور کلبی (رح) نے کہا ہے : یہ آیت جنگ سے قبل غزوئہ بدر کے بارے میں قمام بیداء پر نازل ہوئی۔ قولہ تعالیٰ : ومن اتبعک من المؤمنین کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے۔ اور مہاجرین و انصار آپ کو کافی ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے اور انہیں کافی ہے جنہوں نے آپ کی اتباع کی۔ اسے شعبی اور ابن زید رحمہما اللہ نے بیان کیا ہے۔ اور پہلا قول حسن سے منقول ہے اور اسے نحاس وغیرہ نے اختیار کیا ہے۔ اور من پہلے قول کی بنا پر محل رفع میں ہے اور اہم جلالت لفظ اللہ پر معطوف ہے۔ اور معنی یہ بنتا ہے : فان حسبک اللہ واتباعک من المؤمنین (بےشک اللہ تعالیٰ اور آپ کی اتباع کرنے والے مومنین آپ کو کافی ہیں) اور دوسرے قول کے مطابق عطف ضمیر پر ہے۔ اور اسی کی مثل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے : یکفینیہ اللہ وأبناء قیلۃ (اللہ تعالیٰ اور قیلہ کے بیٹے ( مراد اوس و خزرج ہیں) مجھے اس کے لیے کافی ہوں گے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ بھی جائز ہے کہ معنی اس طرح ہو ومن اتبعک من المؤ منین ‘ حسبھم اللہ (مومنین میں سے جو آپ کی اتباع کرنے وال ہیں اللہ انہیں کافی ہے) ۔ پس خبر مضمر ہوگی اور یہ بھی جائز ہے کہ من محل نصب میں ہو اور معنی یہ ہو یکفیک اللہ ویکفی من اتبعک ( اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے اور وہ انہیں کافی ہے جنہوں نے آپ کی اتباع کی)
Top