Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - At-Tawba : 103
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
خُذْ
: لے لیں آپ
مِنْ
: سے
اَمْوَالِهِمْ
: ان کے مال (جمع)
صَدَقَةً
: زکوۃ
تُطَهِّرُھُمْ
: تم پاک کردو
وَتُزَكِّيْهِمْ
: اور صاف کردو
بِهَا
: اس سے
وَصَلِّ
: اور دعا کرو
عَلَيْهِمْ
: ان پر
اِنَّ
: بیشک
صَلٰوتَكَ
: آپ کی دعا
سَكَنٌ
: سکون
لَّھُمْ
: ان کے لیے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
سَمِيْعٌ
: سننے والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کرلو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے۔ اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔
آیت نمبر :
103
۔ اس آیت میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” خذمن اموالھم صدقۃ “۔ یہ صدقہ جس کے بارے میں حکم دیا گیا ہے اس میں اختلاف ہے پس کیا گیا ہے کہ یہ فرض صدقہ ہے، یہ جویبر نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے اور یہ عکرمہ کا قول ہے جس کو قشیری نے ذکر کیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ ان کے ساتھ مخصوص ہے جن کے بارے میں آیت نازل ہوئی، کیونکہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے ان سے ان کے مالوں کا تیسرا حصہ لیا، اور فرض زکوۃ میں سے یہ کسی میں نہیں ہے، اسی لیے امام مالک (رح) نے کہا ہے : جب کوئی آدمی اپنا تمام مال صدقہ کر دے تو ثلث نکالنا اس کے لیے جائز ہے، اور استدلال حضرت ابولبابہ ؓ کی حدیث سے ہے۔ پہلے قول کی بنا پر یہ خطاب حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کو ہے جو اپنے ظاہر کے اعتبار سے آپ پر ہی محصور ہونے کا تقاضا کرتا ہے، پس آپ ﷺ کے سوا کوئی یہ صدقہ نہیں لے سکتا اور اس بنا پر آپ کے ساقط کرنے کے ساتھ صدقہ کا ساقط ہونا اور آپ کے وصال کے ساتھ اس کا زائل ہونا لازم آتا ہے، اور حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے دور خلافت میں منکرین زکوۃ نے اسی کے ساتھ تعلق قائم کیا اور انہوں نے کہا : بیشک آپ ﷺ اس کے عوض ہمیں پاکیزگی اور برکت عطا فرماتے تھے اور آپ ہمارے لیے دعا فرماتے تھے، حالانکہ آپ کے سوا کسی اور سے ہم نے اسے معدوم پایا ہے اور اس بارے میں ان کے شاعر نے یہ کہا ہے : اطعنا رسول اللہ ما کان بیننا فیا عجیا مابال ملک ابی بکر (
1
) (احکام القرآن، جلد
2
، صفحہ
1006
) ہم نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی ہے آپ ہمارے درمیان نہیں ہیں پس تعجب ہے ابوبکر کی بادشاہی کو کیا ہوا۔ وان الذی سألوکم فمنعتم لکالتمرا واحلی لدیھم من التمر (
2
) (احکام القرآن، جلد
2
، صفحہ
1006
) اور بیشک وہ جو انہوں نے تم سے مانگا اور تم نے انکار کیا وہ کھجور کی مثل یا ان کے نزدیک کھجور سے زیادہ میٹھا ہے۔ سنمتعھم مادام فینا بقیۃ کرام علی الضراء فی العسر والیسر (
1
) (احکام القرآن، جلد
2
، صفحہ
1006
) ہم ان کا انکار کرتے رہیں گے جب تک ہم میں تنگی اور خوشحالی کی حالت میں مصیبت زدہ لوگوں پر سخت اور مہربانی کرنے والے باقی ہیں۔ یہ قسم ان لوگوں کی ہے جو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے خلاف مضبوط اور پختہ طریقہ سے کھڑے تھے اور ان کے حق میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے فرمایا : قسم بخدا ! میں ضرور ان کے ساتھ جنگ کروں گا جنہوں نے نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کیا (
2
) (صحیح بخاری، کتاب الزکوۃ جلد
1
، صفحہ
188
) علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : رہا ان کا یہ قول کہ خطاب حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے لیے ہے لہذا آپ کے سوا کوئی اس کے ساتھ ملحق نہیں، تو یہ قرآن سے جاہل، ماخذ شریعت سے غافل اور دین کے ساتھ مذاق کرنے والوں کا کلام ہے، کیونکہ قرآن کریم میں خطاب کوئی ایک طرز پر وارد نہیں بلکہ مختلف وجوہ پروارد ہے، پس ان میں سے ایک خطاب تمام امت کی طرف متوجہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ “۔ (المائدہ :
6
) ترجمہ : اے ایمان والو ! جب تم اٹھو نماز ادا کرنے لیے۔ اور (آیت) ” یایھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام “۔ (البقرہ :
183
) ترجمہ : اے ایمان والو ! فرض کیے گئے تم پر روزے۔ اور اسی طرح کی اور آیات : اور ان میں سے ایک خطاب آپ ﷺ کے ساتھ خاص ہے اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں نہ لفظوں میں نہ معنی میں۔ مثلا ارشاد گرامی ہے : (آیت) ” ومن الیل فتھجد بہ نافلۃ لک “۔ (الاسرائ :
79
) ترجمہ : اور رات کے بعض حصہ میں (اٹھو) اور نماز تہجد ادا کرو۔ (تلاوت قرآن کے ساتھ) (یہ نماز زائد ہے) اور قول باری تعالیٰ : (آیت) ” خالصۃ لک “۔ (النور :
50
) یہ (اجازت) صرف آپ کے لیے ہے) اور ان میں سے ایک خطاب آپ ﷺ کے ساتھ خاص ہے لفظی طور پر لیکن معنی اور فعلا تمام امت اس میں شریک ہے، جیسا کہ فرمان ہے : (آیت) ” اقم الصلوۃ لدلوک الشمس “۔ الآیہ (الاسراء :
78
) ترجمہ : نماز ادا کیا کریں سورج ڈھلنے کے بعد رات کے تاریک ہونے تک الخ۔ اور قول باری تعالیٰ : (آیت) ” فاذا قرات القران فاستعذ باللہ “۔ (النحل :
98
) ترجمہ : سو جب تم قرآن کی تلاوت کرنے لگو تو پناہ مانگو اللہ تعالیٰ کی الخ۔ اور یہ ارشاد گرامی : (آیت) ” واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوۃ “۔ (النسائ :
102
) ترجمہ ؛ اور (اے حبیب) جب آپ ان میں موجود ہوں اور قائم کریں آپ ان کے لیے نماز۔ پس ہر وہ جس پر سورج غروب ہوا وہ نماز کا مخاطب ہے، اور اسی طرح ہر وہ جس نے قرآن کریم پڑھا وہ ” اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم “۔ پڑھنے کا مخاطب ہے، اور اسی طرح ہر وہ جو ڈرا وہ اس صفت کے ساتھ نماز قائم کرے گا، پس اسی قبیلے سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم وتزکیھم بھا “۔ اور اس معنی میں یہ ارشاد گرامی بھی ہیں : (آیت) ” یایھا النبی اتق اللہ “۔ (الاحزاب :
1
) ترجمہ : (اے نبی مکرم ! ) (حسب سابق ڈرتے رہیے اللہ تعالیٰ سے) اور (آیت) ” یایھا النبی اذا طلقتم النسائ، (الطلاق :
1
) ترجمہ : (اے نبی (مکرم) (مسلمانوں سے فرماؤ) جب تم (اپنی) عورتوں کو طلاق دینے کا ارادہ کرو) (
3
) (احکام القرآن، جلد
2
، صفحہ
1008
) مسئلہ نمبر : (
2
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” من اموالھم “۔ بعض عرب اور وہ قبیلہ دوس کے آدمی تھے نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بیشک مال سے مراد کپڑے، سازوسامان تجارت ہے، عین (یعنی سونا، چاندی) کو مال کا نام نہیں دیا جاسکتا اور یہ معنی اس سنت میں آیا ہے جو مالک عن بن زید الدیلی عن ابی الغیث سالم مولی ابن مطیع عن ابی ہریرہ ؓ کی روایت سے ثابت ہے حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا : ہم فتح خیبر کے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے اور ہم نے سونے اور چاندی میں سے کوئی مال غنیمت نہ پایا مگر اموال، کپڑے اور سازوسامان (پایا) (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الزہد، جلد
2
صفحہ
407
) الحدیث : اور ان کے سوا دوسروں نے کہا ہے کہ مال صامت سے مراد سونا اور چاندی ہے اور بعض نے کہا ہے : صرف اونٹ ہیں اور اسی سے ان کا قول ہے : المال الابل (مال تو اونٹ ہیں) اور بعض نے کہا ہے : اس سے مراد تمام جانور ہیں، ابن الانباری نے احمد بن یحٰی (ثعلب) النحوی سے ذکر کیا ہے، انہوں نے کہا : سونے اور چاندی میں سے اتنا جو اس مقدار تک پہنچنے سے کم ہو جس میں زکوۃ واجب ہوتی ہے وہ مال نہیں ہے، اور یہ شعر بیان کیا ہے : واللہ ما بلغت لی قط ماشیۃ حد الزکاۃ ولا ابل ولا مال : قسم بخدا ! میرے لیے کبھی کوئی جانور زکوۃ کی حد کو نہیں پہنچا نہ اونٹ اور نہ ہی مال۔ ابو عمر ؓ نے کہا ہے : کلام عرب سے معروف ومشہور یہ ہے کہ ہر وہ جس سے خوشحالی حاصل کی جائے اور امارت حاصل کی جائے وہ مال ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا ابن آدم کہتا ہے میرا مال بلاشبہ مال میں سے اس کا وہ ہے جو اس نے کھایا اور فناہ کرو یا یا پہنا اور بوسیدہ کردیا یا صدقہ کردیا اور ختم کردیا “: یقول ابن آدم مالی مالی وانما لہ من مالہ ما اکل فافنی اولبس فابلی او تصدق فامضی (
2
) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد
1
صفحہ
74
) اور حضرت ابوقتادہ (رح) نے کہا ہے : پس آپ نے مجھے ایک زرہ عطا فرمائی تو اس کے عوض میں نے بنی سلمہ میں کھجوروں کا چھوٹا سا قطعہ خریدا، وہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں حاصل کیا کمایا، پس جس کسی نے اپنا سارا مال صدقہ کرنے کے بارے قسم کھائی تو اس کا اطلاق اس کے مال کی ہر نوع اور ہر قسم پر ہوگا چاہے وہ اس میں سے ہو جس میں زکوۃ واجب ہوتی ہے یا نہ ہو، مگر یہ کہ وہ اس میں سے معین شے کی نیت کرے تو پھر قسم کا اطلاق اسی پر ہوگا جس کی اس نے نیت کی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا اطلاق اموال زکوۃ پر ہوگا، اور علم محیط ہے اور زبان شاہد ہے کہ ہر وہ شی جس کا وہ مالک بنا اسے مال کا نام دیا جائے گا واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
3
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ “۔ یہ مطلق ہے ماخوذ اور ماخوذ منہ (وہ مال جو لیا جائے اور جس سے لیا جائے) کی مقدار کی وضاحت اور بیان ہے، بلاشبہ اس کا بیان سنت اور اجماع میں ہے، جیسا کہ ہم اس ذکر کریں گے، پس زکوۃ تمام مالوں سے لی جائے گی، تحقیق حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے جانوروں، اناج اور سونے چاندی میں زکوۃ کو واجب کیا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں اور جو کچھ ان کے سوا ہے مثلا گھوڑے اور تمام سامان واسباب ان میں اختلاف ہے، عنقریب گھوڑوں اور شہد کا ذکر سورة النحل میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ائمہ نے حضرت ابو سعید ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” کھجوروں کے پانچ وسقوں سے کم میں زکوۃ نہیں ہے اور چاندی کے پانچ اوقیہ سے کم میں صدقہ نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں بھی صدقہ نہیں ہے “ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الزکوۃ، جلد
1
، صفحہ
196
) دانوں اور زمین سے اگنے والی ہر شے کی زکوۃ کے بارے گفتگو مکمل طور پر سورة الانعام میں گزر چکی ہے اور معاون کے بارے میں سورة البقرہ میں اور زیورات کے بارے اس سورت میں کلام گزر چکی ہے، اور علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہے، پس جب ایک آزاد مسلمان چاندی سے بنے ہوئے دو سو درہموں کا مالک ہو، تو یہی وہ پانچ اوقیہ ہیں جن کا بیان حدیث طیبہ میں ہوا ہے، اور ان پر پورا سال گزر گیا تو ان کی زکوۃ اس پر واجب ہے اور وہ ان کا چالیسواں حصہ یعنی پانچ درہم ہے، اور سال کی شرط لگائی گئی ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کا ارشاد ہے : ” مال میں زکوۃ نہیں ہوتی یہاں تک کہ اس پر سال گزر جائے “ (
2
) (جامع ترمذی، کتاب الزکوۃ، جلد
1
صفحہ
80
) اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور چاندی میں سے جو دو سو درہم سے زائد ہو تو اس کے حساب سے ہر شے میں چالیسواں حصہ ہے مقدار کم ہو یا زیادہ، یہ قول امام مالک (رح) امام لیث امام شافعی (رح)، امام ابوحنیفہ (رح) کے اکثر اصحاب، ابن ابی لیلیٰ ، ثوری، امام اوزاعی، امام احمد بن حنبل، ابو ثور اور اسحاق اور ابو عبیدرحمۃ اللہ علیہمکا ہے اور یہی حضرت علی اور حضرت ابن عمر رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے مروی ہے، اور ایک جماعت نے کہا ہے : دو سو درہم سے جو زائد ہوں گے ان میں کوئی شے لازم نہ ہوگی یہاں تک کہ زیادتی چالیس درہم تک پہنچ جائے، اور جب وہ مقدار چالیس ہوجائے تو ان میں ایک درہم واجب ہوگا اور وہی چالیسواں حصہ ہے (
3
) (کتاب الاثار، کتاب الزکوۃ، صفحہ
92
) یہ قول حضرت سعید بن مسیب، حسن، عطا، طاؤس، شعبی، زہری مکحول، اور عمروبن دینار، اور امام اعظم ابو حنیفہرحمۃ اللہ علیہمکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) اور وہی سونے کی زکوۃ تو جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ جب وہ بیس دینار ہوجائے تو اس کی قیمت دو سو درہم ہوگی اور جو زیادہ ہوگا اس میں زکوۃ واجب ہے، یہ حضرت علی ؓ کی حدیث کی بنا پر ہے، اسے امام ترمذی (رح) نے ضمرہ سے اور حارث سے انہوں نے حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت کیا ہے (
4
) (سنن ابی داؤد، باب فی زکوۃ السائمہ، حدیث نمبر
1342
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور امام ترمذی (رح) نے کہا ہے : میں نے محمد بن اسماعیل (رح) سے اس حدیث کے بارے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا : میرے نزدیک دونوں ابو اسحاق سے صحیح ہیں۔ اور احتمال ہے کہ یہ حدیث دونوں سے اکٹھی مروی ہو (
5
) (جامع ترمذی، کتاب الزکوۃ، جلد
1
صفحہ
79
) اور الباجی نے ” المنتقی “ میں کہا ہے : یہ حدیث وہاں اس کی اسناد نہیں ہے، مگر علماء کا اس کے مطابق لینے پر اتفاق کرنا اس کے حکم کے صحیح ہونے پر دلیل ہے، واللہ۔ اور امام حسن اور ثوریرحمۃ اللہ علیہم سے مروی ہے اور اسی کی طرف داؤد بن علی کے بعض اصحاب بھی مائل ہوئے ہیں کہ سونے میں زکوۃ نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ چالیس دینار تک پہنچ جائے۔ اور اسے حضرت علی ؓ کی حدیث، حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت عائشہ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی حدیث رد کرتی ہے کہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ بیس دینار سے نصف لیتے تھے اور چالیس دینار میں سے ایک دینار لیتے تھے (
1
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الزکوۃ، حدیث نمبر
1780
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (
5
) امت نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ پانچ سے کم اونٹوں میں کوئی زکوۃ نہیں، اور جب ان کی تعداد پانچ ہوجائے تو ان میں ایک بکری لازم ہوجاتی ہے اور ” شاۃ “ کا اطلاق غنم (ریوڑ) میں سے ایک پر ہوتا ہے اور غنم بکری اور بھیڑ دونوں کے لیے ہے اور اس پر بھی علماء کا اختلاف ہے کہ پانچ اونٹوں میں صرف ایک بکری لازم ہے اور یہ اس کا فریضہ ہے۔ اور جانوروں کی زکوۃ کو اس کتاب (تحریر) میں بیان کیا گیا ہے جو حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے حضرت انس ؓ کے لیے لکھی جب کہ آپ نے انہیں بحرین کی طرف بھیجا، اسے امام بخاری، ابو داؤد، دارقطنی، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے اور تمام اس پر متفق ہیں (
2
) (سنن ابی داؤد، کتاب الزکوۃ، حدیث نمبر
1339
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، سنن ابن ماجہ، کتاب الزکوۃ، حدیث نمبر
1789
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور دو مقامات پر اس میں اختلاف ہے۔ ان میں ایک اونٹوں کی زکوۃ میں اور وہ یہ کہ جب ان کی تعداد ایک سو اکیس تک پہنچ جائے تو امام مالک (رح) نے کہا ہے کہ صدقہ وصول کرنے والے کا اختیار ہے اگر چاہے تو تین بنات لبون (یعنی ایسی اونٹنی جس کی عمر دو سال مکمل ہو اور تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو) لے اور اگر چاہے تو دو حقے (ایک حقہ جس کی عمر تین سال مکمل ہو اور وہ چوتھے سال میں داخل ہوچکا ہو) لے لے۔ اور ابن القاسم نے کہا ہے کہ ابن شہاب نے کہا ہے : اس میں تین بنات لبون ہیں یہاں تک کہ تعداد ایک سو تیس تک پہنچ جائے تو پھر اس میں ایک حقہ اور دو بنت لبون لازم ہوں گی۔ ابن قاسم نے کہا ہے : میرے رائے ابن شہاب کے قول کے مطابق ہے۔ اور ابن حبیب نے ذکر کیا ہے کہ عبدالعزیز بن ابی سلمہ اور عبدالعزیز بن ابی حازم اور ابن دینار امام مالک کے قول کے مطابق کہتے ہیں۔ اور رہا دوسرا مقام تو وہ غنم (ریوڑ) کے صدقہ کے بارے ہے۔ وہ یہ کہ جب ان کی تعداد تین سو ایک بکری سے زیادہ ہوجائے تو حسن بن صالح بن حیی نے کہا ہے : ان میں چار بکریاں لازم ہوں گی، اور جب تعداد چار سو ہوجائے تو ان میں پانچ بکریاں لازم ہوں گی، اسی طرح جب بھی تعداد زیادہ ہوگی، تو ہر سو میں ایک بکری بڑھ جائے گی، اور اسی طرح حضرت ابراہیم نخعی (رح) سے مروی ہے، اور جمہور نے کہا ہے : دو سو ایک بکریوں میں تین بکریاں ہیں، پھر ان میں چار سو تک کوئی شے نہیں ہے اور پھر چار سو میں چار بکریاں ہوجائیں گی، پھر جب بھی ان میں ایک سو زائد ہوں گی تو ان میں ایک بکری بڑھ جائے گی، اس پر اجماع اور اتفاق ہے، ابن عبدالبر نے کہا ہے : اس مسئلہ میں ابن المنذر کو وہم ہوا ہے اور اس میں علماء سے خطا ہوئی ہے، مسئلہ میں اختلاط اور اکثر غلط ہوگیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) امام بخاری اور مسلم رحمۃ اللہ علیہما نے گائے کی زکوۃ کی تفصیل صحیحین میں ذکر کی اور اسے ابو داؤد، ترمذمی، نسائی، دارقطنی اور امام مالکرحمۃ اللہ علیہمنے موطا میں روایت کیا ہے اور یہ روایت مرسل، مقطوع اور مقوقوف ہے (
3
) (سنن ابی داؤد، کتاب الزکوۃ، حدیث نمبر
1345
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو عمر نے کہا ہے : اسے ایک نے طاؤس سے اور انہوں نے حضرت معاذ ؓ سے روایت کیا ہے، مگر وہ جنہوں نے اسے مرسل ذکر کیا ہے وہ ان سے زیادہ ثابت اور ثقہ ہیں جنہوں نے اسے مسند ذکر کیا ہے ہے، اور اسے مسند ذکر کرنے والوں میں سے بقیہ نے مسعودی سے انہوں نے حکم سے اور انہوں نے طائوس سے اسے مسند ذکر کیا ہے اور اس روایت میں علماء نے اختلاف کیا ہے جس کے ساتھ بقیہ ثقہ راویوں سے منفرد ہوتے ہیں اور اسے حسن بن عمارہ نے حکم سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے اسے بقیہ نے مسعودی سے اور انہوں نے حکم سے روایت کیا ہے اور حسن کے ضعف پر اجماع ہے۔ اور یہ خبر طاؤس کی روایت کے علاوہ سے سند متصل کے ساتھ صحیح ثابت ہے، اسے عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے۔ انہوں نے کہا : ہمیں معمر اور ثوری نے اعمش سے انہوں نے ابو وائل سے انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے خبر دی ہے کہ انہوں نے فرمایا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن کی طرف بھیجا اور حکم ارشاد فرمایا کہ وہ ہر تیس گائیوں میں سے ایک تبیع یا تبیعہ (ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی) لے اور چالیس گائیوں میں سے ایک مسئنہ (دو سال کا بچھڑا، بچھڑی) لے اور ہر عاقل بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر معافر کا کپڑا (
1
) (جامع ترمذی، کتاب الزکوۃ، جلد
1
، صفحہ
80
) (معافر یمن کا ایک قبیلہ ہے اس کی طرف منسوب چادر کو معافر کہا جاتا ہے) اسے دارقطنی اور ابو عیسیٰ نے ذکر کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (
2
) (جامع ترمذی، کتاب الزکوۃ، حدیث نمبر
566
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو عمر ؓ نے کہا ہے : علماء کے درمیان اس بارے کوئی اختلاف نہیں ہے کہ گائیوں کی زکوۃ کے بارے میں حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ اور آپ کے اصحاب سے جو زکوۃ مروی ہے وہ وہ ہے جو حضرت معاذ بن جبل ؓ نے بیان کی ہے کہ تیس گائیوں میں ایک تبیع اور چالیس میں ایک مسنہ ہے، مگر وہ جو حضرت سعید بن مسیب، ابوقلابہ، زہری اور قتادہ سے مروی ہے، کیونکہ وہ ہر پانچ گائیوں میں تیس تک ایک بکری واجب کرتے ہیں، زکوۃ سے متعلقہ یہ تمام تفصیل اپنے اصول و فروع کے ساتھ کتب فقہ میں موجود ہے اور شرکت کا ذکر سورة ” ص “ میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (
7
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” صدقۃ “ یہ الصدق سے ماخوذ ہے، کیونکہ ان کے ایمان کے صحیح ہونے اور اس کے ظاہر کے ساتھ ساتھ اس کے باطن کے سچا ہونے پر دلیل ہے اور یہ کہ یہ ان منافقین میں سے نہیں ہیں جو اطاعت وپیروی کرنے والے مومنین کو صدقات کے بارے میں الزام دیتے ہیں۔ (آیت) ” تطھرھم وتزکیھم بھا “۔ یہ دونوں مخاطب کے لیے حال ہیں، تقدیر کلام یہ ہے : خذھا مطھرالھم ومز کیا لھم بھا (تم صدقہ وصول کرو ان کو پاک کرتے ہوئے اور ان کے ساتھ ان کو بابرکت بناتے ہوئے) اور یہ بھی جائز ہے کہ ان دونوں کو صدقہ کی صفت بنا دیا جائے، ای صدقۃ مطھرۃ لھم مزکیۃ (ان کو پاک کردینے والا صدقہ اور بابرکت بنانے والا) اور (آیت) ” تزکیھم “ کا فاعل مخاطب ہوگا اور وہ ضمیر جو بھا میں ہے وہ موصوف نکرہ کی طرف لوٹے گی، اور نحاس اور مکی نے بیان کیا ہے کہ (آیت) ” تطھرھم “۔ صدقہ کی صفت ہے اور (آیت) ” وتزکیھم بھا “ ، خذ کی ضمیر سے حال ہے اور وہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ ہیں اور یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ یہ الصدقہ سے حال ہو۔ اور یہ ضعیف ہے، کیونکہ یہ نکرہ سے حال ہے۔ اور زجاج نے کہا ہے : عمدہ یہ ہے کہ یہ خطاب حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے لیے ہو یعنی بیشک آپ انہیں پاک کردیں اور اس کے سبب انہیں بابرکت بنا دیں، یہ قطع (ماقبل سے تعلق کا منقطع ہونا) اور استناف کی بنا پر ہے، اور جواب امر کی بنا پر جزم بھی جائز ہے اور اس کا معنی یہ ہے : اگر آپ ان کے مالوں سے صدقہ لیں گے تو وہ انہیں پاک کر دے گا اور بابرکت بنا دے گا اور اسی سے امرء القیس کا قول ہے : فقانبک من ذکری حبیب ومنزل : (تم دونوں ٹھہرو تاکہ ہم اپنے محبوب اور اس کی گھر کی یاد میں رو لیں) اور حسن نے طا کے سکون کے ساتھ تطھرھم پڑھا ہے اور یہ ہمزہ کے ساتھ طھرواطھرتہ سے منقول ہے، مثلاظھرواظھرتہ۔ مسئلہ نمبر : (
8
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وصل وعلیھم “۔ ہر وہ امام جو وصول کرتا ہے اس کے فعل میں اصل یہ ہے کہ وہ صدقہ دینے والے کے لیے برکت کی دعا کرے، امام مسلم (رح) نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کوئی قوم صدقہ لے کر آتی تو آپ فرماتے : اللھم صل علیھم اے اللہ ! ان پر رحمتیں نازل فرما، پس حضرت ابن ابی اوفی ؓ اپنا صدقہ لے کر حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے اللہ ! آل ابی اوفی ؓ پر رحمتیں نازل فرما “ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، جلد
1
، صفحہ
346
) ایک قوم اسی طرف گئی ہے۔ اور دوسروں نے کہا ہے کہ یہ منسوخ ہوچکی ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے ساتھ : (آیت) ” ولا تصل علی احد منھم مات ابدا “۔ (التوبہ :
84
) (اور نہ پڑھیے نماز جنازہ کسی پر ان میں سے جو مر جائے کبھی) انہوں نے کہا ہے : پس یہ جائز نہیں ہے کہ کسی پر صلوۃ بھیجی جائے مگر یہ کہ یہ صرف حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے لیے خاص ہے، کیونکہ آپ کو اس کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اور انہوں نے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : (آیت) ” لا تجعلوا دعآء الرسول بینکم کدعآء بعضکم بعضا “۔ الآیہ (النور :
63
) (نہ بنالو رسول کے پکارنے کو آپس میں جیسے تم پکارتے ہو ایک دوسرے کو) اور اس وجہ سے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں : حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے سوا کسی پر صلوۃ نہیں بھیجی جائے گی۔ اور پہلا قول زیادہ صحیح ہے، کیونکہ یہ خطاب آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ محصور نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور آیت میں اس کے بعد اس کا بیان آئے گا۔ پس رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کرنا اور اس کے ساتھ تسلی دینا اور دلجوئی کرنا واجب ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی مثل بنتا ہے : (آیت) ” وصل علیھم، ان صلوتک سکن لھم “۔ یعنی جب آپ ان کے لیے دعا کریں گے جس وقت وہ اپنے صدقات لے کر آئیں گے تو اس سے ان کے دلوں کو سکون حاصل ہوگا اور وہ اس سے خوش ہوجائیں گے، اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ میرے پاس آئے تو میں نے اپنی بیوی کو کہا : رسول اللہ ﷺ سے کسی کے بارے سوال نہ کرنا، تو اس نے کہا : رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس سے نکل جائیں گے اور ہم آپ سے کسی شی کے بارے سوال نہیں کریں گے، پھر اس نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ آپ میرے خاوند کے لیے دعا فرمائیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ تجھ پر اور تیرے خاوند پر رحمت فرمائے “۔ یہاں پر صلوۃ کا لفظ رحمت اور ترحم (رحم کرنے) کے معنی میں ہے۔ صلی اللہ علیک وعلی زوجک، نحاس نے کہا ہے : تمام اہل لغت نے اس بارے میں بیان کیا ہے کہ ہم اسے جانتے ہیں کہ کلام عرب میں لفظ صلوۃ دعا کے معنی میں ہے۔ اور اسی سے الصلوۃ علی الجنائز بھی ہے (یعنی میعوں کے لیے دعا مانگنا) حفص، حمزہ اور کسائی نے (آیت) ” ان صلوتک “ صیغہ واحد کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور باقیوں نے جمع کے ساتھ قرات کی ہے اور اسی طرح اختلاف اصلاتک تامرک میں ہے۔ اور سکن کاف کو سکون کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : اس کا معنی ہے یہ ان کے لیے وقار ہے اور السکن سے مراد وہ شے ہے جس کے ساتھ نفسوں کو سکون حاصل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔
Top