Al-Qurtubi - At-Tawba : 112
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلتَّآئِبُوْنَ : توبہ کرنے والے الْعٰبِدُوْنَ : عبادت کرنے والے الْحٰمِدُوْنَ : حمدوثنا کرنے والے السَّآئِحُوْنَ : سفر کرنے والے الرّٰكِعُوْنَ : رکوع کرنے والے السّٰجِدُوْنَ : سجدہ کرنے والے الْاٰمِرُوْنَ : حکم دینے والے بِالْمَعْرُوْفِ : نیکی کا وَالنَّاهُوْنَ : اور روکنے والے عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَالْحٰفِظُوْنَ : اور حفاظت کرنے والے لِحُدُوْدِ اللّٰهِ : اللہ کی حدود وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
توبہ کرنے والے عبادت کرنے والے حمد کرنے والے روزہ رکھنے والے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے خدا کی حدوں کی حفاظت کرنے والے (یہی مومن لوگ ہیں) اور (اے پیغمبر ﷺ مومنوں کو (بہشت کی) خوشخبری سنا دو ۔
آیت نمبر : 112۔ اس آیت میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” التآئبون العبدون، التآئبون “۔ سے مراد وہ ہیں (2) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1020) جو اللہ تعالیٰ کی معصیت اور نافرمانی میں حالت مذموم سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں حالت محمودہ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں اور التائب سے مراد رجوع کرنے والا (3) (تفسیر ماوردی، جلد 2، صفحہ 408) اور لوٹنے والا ہے اور اطاعت کی طرف رجوع کرنے والا (فقط) معصیت سے رجوع کرنے والے سے فضل واعلیٰ ہے کیونکہ وہ دونوں امروں کو جمع کیے ہوتا ہے (یعنی معصیت سے پھر کر اطاعت کی طرف رجوع کرنا) (آیت) ” العبدون “ یعنی وہ اطاعت کرنے والے جنہوں نے اپنی اطاعت سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا قصد و ارادہ کیا۔ (آیت) ” الحمدون “۔ یعنی وہ جو اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے ساتھ راضی اور خوش ہونے والے ہیں اور اس کی نعمت و احسان کو اس کی اطاعت میں صرف اور خرچ کرنے والے ہیں (4) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1020) اور وہ جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتے ہیں۔ (آیت) ” السآئحون “۔ روزے رکھنے والے، یہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور دیگر سے مروی ہے، اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” عبدت سئحت “۔ (التحریم : 5) (عبادت کرنے والیاں، روزہ دار) اور سفیان بن عیینہ نے کہا ہے : بیشک صالح کو سائح کہا گیا ہے، کیونکہ وہ کھانے پینے اور نکاح کی تمام لذات کو چھوڑ دیتا ہے۔ اور حضرت ابو طالب نے کہا ہے : وبالسائحین لا یذوقون قطرۃ لربھم والذاکرات العوامل : اور قسم ہے ان روزے داروں کی جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پانی کا ایک قطرہ تک نہیں چکھتے اور کام کے دوران اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والیوں کی۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے : برا یصلی لیلہ ونھارہ یظلل کثیر الذکرللہ سائحا : نیکو کار اپنے دن رات نمازیں پڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر روزے دار کرتا ہے۔ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا : اس امت کی سیاحت روزہ رکھنا ہے۔ (1) (تفسیر طبری، جلد 11، صفحہ 48) اسے علامہ طبری نے بیان کیا ہے، اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے اسے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے مرفوع روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میری امت کی سیاحت روزہ رکھنا ہے “ (2) (تفسیر ماوردی، جلد 1، صفحہ 407) زجاج نے کہا ہے : حسن کا مذہب یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فرض روزہ رکھتے ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ روزے رکھتے رہتے ہیں، اور حضرت عطاء نے کہا ہے : (آیت) ” السآئحون “ سے مراد جہاد کرنے والے، مجاہدین ہیں، اور حضرت ابو امامہ ؓ نے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سیاحت کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک میری امت کی سیاحت اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا ہے “ (3) (سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، جلد 1، صفحہ 336۔ ایضا حدیث نمبر 2127، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ابو محمد عبدا الحق نے صحیح قرار دیا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : سائحون سے مراد ہجرت کرنے والے، مہاجرین ہیں۔ یہ عبدالرحمن بن زید نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : مراد وہ لوگ ہیں جو حدیث اور علم کی طلب اور تلاش میں سفر کرتے ہیں، یہ عکرمہ ؓ نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے افکار کے ساتھ اپنے رب کی توحید اور اس کی بادشاہی میں غوروفکر کرتے ہیں اور ان چیزوں میں جو اس نے اپنی توحید اور تعظیم پر دلالت کرنے والی علامات اور فشانیاں تخلیق فرمائی ہیں، اسے نقاش نے بیان کیا ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ بعض بندوں نے لوٹا پکڑا تاکہ وہ رات کی نماز کے لیے وضو کرے اور اپنی انگلی اس کے دستے میں داخل کی اور غور وفکر کرتے ہوئے بیٹھ گیا یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی تو اسے جب اس بارے میں کہا گیا تو اس نے جواب دیا : میں نے اپنی انگلی لوٹے کے دستے میں داخل کی تو مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد یاد آگیا : (آیت) ” اذالاغلل فی اعناقھم والسلسل “۔ (غافر : 71) (جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور زنجیریں) اور میں نے یہ یاد کیا میں کیسے اس طوق کو ملوں گا اور میری بقیہ ساری رات اسی میں گزر گئی۔ میں مفسر کہتا ہوں : کہ لفظ س ی ح “ ان اقوال کے صحیح ہونے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ سیاحت کا اصل معنی سطح زمین پر چلنا ہے جیسے پانی بہتا ہے، پس روزے دار ان چیزوں کو چھوڑنے میں اطاعت وفرمانبرداری پر مسلسل قائم رہتا ہے جنہیں وہ طعام وغیرہ میں سے چھوڑ دیتا ہے، پس وہ سائح (سیاحت کرنے والے) کے قائم مقام ہی ہوگا۔ اور غور وفکر کرنے والوں کے دل ان چیزوں میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں جن کے بارے انہوں نے ذکر کیا ہے اور حدیث میں ہے : ” بیشک اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے کائنات میں سیاحت کرنے والے اور چلنے پھرنے والے ہیں وہ میری امت کا درود پاک مجھے پہنچاتے ہیں “ (1) (مجمع الزوائد، جلد 8، صفحہ 595) اور یہ لفظ صاد کے ساتھ صیاحین بھی روایت کیا جاتا ہے، اور یہ الصیاح سے ماخوذ ہے۔ (آیت) ” الرکعون السجدون “۔ یعنی وہ فرض اور دوسری نماز میں رکوع و سجود کرنے والے ہیں۔ (آیت) ” الامرون بالمعروف “۔ یعنی سنت کے بارے حکم دینے والے ہیں اور بعض نے کہا ہے : ایمان کے بارے حکم دینے والے۔ (آیت) ” والناھون عن المنکر “۔ بعض نے کہا ہے : وہ بدعت سے روکنے والے ہیں، اور بعض نے کہا ہے : وہ کفر سے روکنے والے ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ہر نیکی اور برائی کو شامل ہے۔ (آیت) ” والحفظون لحدود اللہ “۔ یعنی وہ اس پر قائم رہنے والے ہیں جس کے بارے اللہ کریم نے انہیں حکم دیا ہے اور اس سے باز رہتے ہیں جس سے اللہ کریم نے انہیں منع کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) اہل تاویل نے اس آیت میں اختلاف کیا ہے، کیا یہ ماقبل آیت کے ساتھ متصل ہے یا منفصل ؟ تو ایک جماعت نے کہا ہے : پہلی آیت بذات خود ایک مستقل آیت ہے اور اس سودے کے تحت ہر ایک موحد آتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کیا تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو، اگرچہ وہ اس دوسری آیت میں مذکور صفات کے ساتھ یا ان سے زیادہ کے ساتھ متصف نہ ہو۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : یہ اوصاف شرط کی جہت پر مذکور ہیں اور دونوں آیتیں باہم مربوط ہیں، پس اس سودے کے تحت داخل نہیں ہوں گے مگر وہی مومنین جو ان اوصاف پر ہوں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں قربان کرتے ہوں، یہ حضرت ضحاک (رح) نے کہا ہے اور ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ قول حرج میں مبتلا کرنے والا اور تنگی میں ڈالنے والا ہے اور آیت کا معنی اس بنا پر جس کا تقاضا علماء اور شریعت کے اقوال کرتے ہیں کہ یہ کامل مومنین کے اوصاف ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے تاکہ اہل توحید ان پر قائم اور برقرار رہیں یہاں تک کہ وہ اعلی مرتبہ پر فائز ہوجائیں، اور زجاج نے کہا ہے : میرے نزدیک یہ ہے کہ قول باری تعالیٰ : (آیت) ” التآئبون العبدون “۔ مبتدا ہونے کی وجہ سے حالت رفعی میں ہیں اور اس کی خبر مضمر ہے۔ یعنی (آیت) ” التآئبون العبدون “۔ الی اخر الآیہ۔ لھم الجنۃ ایضا یعنی ان تمام کے لیے بھی جنت ہے، اگرچہ انہوں نے جہاد نہ بھی کیا، بشرطیکہ ان کی طرف سے عناد اور جہاد ترک کرنے کا قصد اور ارادہ نہ ہو، کیونکہ جہاد میں بعض مسلمان بعض کی طرف سے کافی ہوتے ہیں، اس قول کو علامہ قشیری (رح) نے اختیار کیا ہے اور کہا ہے : یہ بہت اچھا ہے (ہذا حسن) کیونکہ اگر یہ صفت ان مومنوں کی وہ جن کا ذکر اس قول باری میں ہے : (آیت) ” اشتری من المؤمنین “۔ تو پھر یہ وعدہ مجاہدین کے لیے خاص ہوجائے گا اور حضرت عبداللہ کے مصحف میں ہے : التائبین العابدین الی آخر ہا اور اس کی دو وجہیں ہیں : ایک یہ ہے کہ اتباع کے طریقہ پر یہ مومنین کی صفت ہے (لہذا حالت جری میں ہیں) اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ مدح کی بنا پر حالت نصبی میں ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 3، صفحہ 85 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (3) قول باری تعالیٰ : (آیت) ” والناھون عن المنکر “۔ میں واؤ کے بارے علماء کا اختلاف ہے پس کہا گیا ہے کہ یہ ناھین (روکنے والوں کی) صفت میں داخل ہے (3) (زاد المسیر، جلد 3، صفحہ 382) جیسا کہ اس ارشاد میں داخل ہے : (آیت) ” حم، تنزیل الکتب من اللہ العزیز العلیم، غافر الذنب وقابل التوب “۔ (المومن) پس بعض کو واؤ کے ساتھ اور بعض کو بغیر واؤ کے ذکر کیا۔ اور یہ کلام میں جائز اور مروج ہے اور اس کی مثل کی نہ کوئی حکمت تلاش کی جائے گی اور نہ کوئی علت، اور بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ برائی سے روکنے والے اور نیکی کا حکم دینے والے کی مصاحبت کے لیے داخل ہوئی ہے پس قریب نہیں ہے کہ ان دونوں میں سے ایک کا مفرد ذکر کیا جائے، اور اسی طرح قول باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” ثیبت وابکارا “۔ (التحریم : 5) ہے اور قول باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” الحفطون “۔ میں یہ اس کے معطوف کے قریب ہونے کی وجہ سے داخل ہوئی ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زائد ہے، اور یہ قول ضعیف ہے اس کا کوئی معنی نہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ واؤثمانیہ ہے کیونکہ عربوں کے نزدیک سات صحیح اور کامل عدد ہے۔ (1) (زاد المسیر، جلد 3، صفحہ 382) اور اسی طرح انہوں نے اس قول میں کہا ہے : (آیت) ” ثیبت وابکارا “۔ (التحریم : 5) اور اسی طرح جنت کے دروازوں کے بارے میں ارشاد ہے : (آیت) ” وفتحت ابوابھا “۔ (الزمر : 73) (اور جنت کے دروازے پہلے ہی کھول دیئے گئے) اور قول باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” ویقولون سبعۃ وثامنھم کلبھم “۔ (الکہف : 22) (اور کچھ نہیں گے وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا) اسے ابن خالویہ نے ابو علی فارسی کے ساتھ مناظرہ میں (آیت) ” وفتحت ابوابھا “۔ (الزمر : 73) کے معنی میں ذکر کیا ہے اور ابو علی نے اس کا انکار کیا ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : میرے باپ ؓ نے استاذ النحو ابو عبداللہ الکفیف المالقی سے مجھے بیان کیا ہے اور یہ ان میں سے تھے جو غرناطہ میں سکونت پذیر رہے اور ایک مدت تک وہاں ابن حبوس کے زمانہ میں پڑھایا کہ انہوں نے کہا : بعض عربوں کے نزدیک یہ لغت فصیحہ ہے۔ ان کا طریقہ اور ان کی عادت یہ ہے کہ جب وہ عدد گنتے ہیں تو اس طرح کہتے ہیں : واحد اثنان ثلاثۃ اربعۃ خمسۃ ستۃ سبعۃ وثمانیۃ تسعۃ عشرۃ اسی طرح یہ ان کی لغت ہے۔ اور جب بھی ان کے کلام میں امر آٹھ تک پہنچتا ہے تو وہ واؤ داخل کردیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں : یہ قریش کی لغت ہے۔ اس کا بیان اور اس کا نقض عنقریب سورة الکہف میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ اور سورة زمر میں اللہ تعالیٰ کی توفیق ونصرت سے اس کا بیان آئے گا۔
Top